کیا اسرائیل حماس کا خاتمہ کر سکتا ہے؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) غزہ کی جنگ اپنے پانچویں مہینے میں داخل ہو چکی ہے اور اس کے ساتھ ہی غزہ کی پٹی کے بنیادی ڈھانچے کو بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد اکیسویں صدی میں تنازعات کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہو چکی ہے۔

اسرائیل نے 7 اکتوبر کو حماس کے آپریشن کے جواب میں جنگ کا آغاز کیا اور وہ اسے جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

جنگ کے آغاز کے بعد سے بارہا دہرائے گئے ایک بیان میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے سات فروری کو کہا، ’ہم حماس کو ختم کرنے، یرغمالیوں کو رہا کرنے اور اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے اپنے راستے پر گامزن ہیں کہ اسرائیل کو غزہ سے مزید کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔‘

لیکن کیا اسرائیل واقعی حماس کو ختم کر سکتا ہے یا کیا اس نے اپنے آپ کے لیے ایک ایسا حدف مقرر کیا ہے جسے حاصل کرنا مشکل ہے؟

اس جنگ کے نتیجے میں 1,200 سے زیادہ اسرائیلی اور 28,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے۔ دنیا بھر میں جنگ بندی کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے، جب کہ مشرق وسطیٰ میں وسیع تر جنگ چھڑنے کے خدشے کی روشنی میں تنازعہ مسلسل بڑھتا ہی جا رہا ہے۔

اسی وقت اسرائیلی فوجی مہم کی وجہ سے تناؤ بڑھ رہا ہے اور امریکی سیکٹری خارجہ انتھونی بلنکن کے مطابق ایک مستقل حل تک پہنچنے کی ضرورت ہے ’جس میں فلسطینی ریاست کی طرف راستہ بھی شامل ہو۔‘

تاہم اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو کھلے عام امریکہ کے مخالف رہے۔

اسرائیل کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور نسل کشی کے الزامات کا سامنا ہے۔ ان الزامات کو وہ ’انتہائی مضحکہ خیز‘ سمجھتا ہے۔ اسرائیل اب تک کئی مہینوں کی تصادم کے بعد غزہ میں حماس کی تحریک کو دبانے میں ناکام رہا ہے باوجود اس کے کہ وہ عسکری صلاحیتوں میں حماس کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے۔

ایک اندازے کے مطابق حماس کے عسکری ونگ میں تیس ہزار جنگجو ہیں، اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ اس نے حماس کے ایک تہائی جنگجوؤں کو مار دیا ہے جبکہ 16 ہزار کو زخمی کر دیا ہے جو کہ حماس کی عسکری صلاحیتوں کے لیے ایک دھچکا ہو سکتا ہے۔

تاہم امریکی ایجنسیوں کے اندازوں کے مطابق زخمی ہونے والوں کی تعداد 11,700 سے کم ہے اور ان میں سے بہت سے میدان جنگ میں واپس آ سکتے ہیں۔ تاہم حماس کی جانب سے اس تعداد کی تصدیق نہیں کی گئی۔

ماضی میں لیکود پارٹی کے وزرائے اعظم کے فوجی مشیر کے طور پر خدمات انجام دینے والی ریٹائرڈ اسرائیلی کرنل میری ایسن کے جائزے کے مطابق اسرائیلی فوج ’متعدد فیلڈ کمانڈروں کو ہلاک کرنے میں کامیاب رہی، ہتھیاروں کے ذخیرے بھی ملے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے تمام دہشت گردوں کو ختم کر دیا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ فوج ’دہشت گردوں کی سرنگوں کے نیٹ ورک کو منظم طریقے سے اڑا رہی ہے۔‘

لیکن فوجی تجزیہ کاروں کے مطابق ’یہ اس تناظر میں سب سے اہم اقدام نہیں ہے۔‘

جینز ڈیفنس ویکلی کے مشرق وسطیٰ کے ایڈیٹر جیریمی بینی نے حماس کو پہنچنے والے نقصان کی حد پر شک ظاہر کیا اور مزید کہا کہ تحریک ’آسانی سے نئے جنگجو بھرتی کر سکتی ہے‘ اور ’سرنگ کا نیٹ ورک ہماری توقع سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔‘

کیا حماس کی حمایت بڑھ رہی ہے؟

پچھلے سال کی آخری سہ ماہی میں کیے گئے ایک رائے عامہ کے سروے کے مطابق، جس میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی دونوں میں فلسطینیوں کو شامل کیا گیا تھا، اکتوبر کے واقعات کے بعد فلسطینیوں کو بھاری نقصان ملنے کے باوجود حماس کی حمایت بڑھ رہی ہے۔

سروے سے پتا چلتا ہے کہ حماس کی حمایت سال کے آخر میں 22 فیصد سے بڑھ کر 43 فیصد ہو گئی۔ اگرچہ یہ فلسطینیوں کی نصف سے بھی کم نمائندگی کرتا ہے لیکن یہ فتح تحریک کی حمایت سے زیادہ نمائندگی ہے جو مغربی کنارے کے علاقوں کو کنٹرول کرتی ہے۔ اس علاقے میں بھی حماس کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کے علاوہ 72 فیصد شرکا نے سات اکتوبر کو ہونے والے حملے کے فیصلے میں حماس کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا۔ سروے میں 63 فیصد لوگوں نے اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ مسلح کارروائیوں کو قرار دیا۔ اس سروے کے اکثریت شرکا کا تعلق مغربی کنارے سے تھا۔

سروے کے منتظم کے مطابق حماس کی حمایت عام طور پر جنگ کے دوران یا اس کے فوراً بعد بڑھ جاتی ہے۔

لیکن ایک اسرائیل مخالف ماہر تعلیم ڈاکٹر ابراہیم فریحات کے لیے فلسطینی ’ امید اور مستقبل کے بغیر زندگی گزارتے ہیں اور حماس نے انھیں تصادم اور انقلاب کا متبادل دیا، جو انھیں ایک مختلف نقطہ نظر پیش کرتا ہے،‘۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس طرح حماس کو نا صرف فلسطین بلکہ عرب اور اسلامی دنیا میں بھی وسیع حمایت حاصل ہے۔

لیکن ایسے بھی لوگ ہیں جو حماس کی حمایت نہیں کرتے۔

اس سال کے آغاز میں سینکڑوں فلسطینی کارکنوں نے غزہ کی پٹی پر حماس کی حکمرانی پر تنقید کرنے والے ایک آن لائن پروگرام میں شرکت کی۔

حماس کی حکمرانی کا آغاز اس وقت ہوا جب تحریک نے 2007 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور اس پٹی پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا جہاں لوگ اسرائیلی محاصرے اور بے روزگاری کے درمیان انتہائی خراب حالات میں رہتے ہیں۔

جنگجوؤں کی ایک نئی نسل؟

حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف شروع کی گئی مسلح تحریک کا مقصد اس کے مطابق اسرائیلی قبضے کو ختم کرنا اور ایک فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ مغرب میں بہت سے لوگ حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم سمجھتے ہیں لیکن عرب دنیا کا ایک حصہ اسے ایک مزاحمتی تحریک کے طور پر دیکھتا ہے۔

لیکن دوسری اسلامی تحریکوں کے برعکس جنھیں دہشت گرد قرار دیا گیا ہے ابراہیم فرحیات وضاحت کرتے ہیں کہ ’حماس کا (سیاسی) ایجنڈا صرف فلسطین کے ایجنڈے تک محدود ہے۔ اس کے پاس دنیا یا دیگر ممالک میں مذہب اور اسلام کو فروغ دینے کے لیے کوئی عالمی بیانیہ نہیں ہے،‘

انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک قومی آزادی کی تحریک ہے اور اس کا سیاسی ایجنڈا اسرائیلی قبضے کا خاتمہ اور فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔

جہاں تک یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کے ہیو لوواٹ کا تعلق ہے، ان کا ماننا ہے کہ 2007 میں حماس کے قبضے کے بعد سے غزہ اسرائیلی محاصرے میں رہا ہے ’اس تناظر میں مغربی کنارے سمیت (غزہ پر) اسرائیل کا قبضہ برقرار رہا کیونکہ اسرائیل ایک ایسی حقیقت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا تھا جسے یورپی یونین نے مواقع کی مساوات کی عدم موجودگی اور ممکنہ تنازعات کی روشنی میں ایک ریاستی حقیقت کے طور پر بیان کیا۔‘

جب کہ اسرائیل کا اصرار ہے کہ حماس کی دھمکیوں سے بچنے کے لیے ناکہ بندی ضروری ہے، بہت سے فلسطینیوں کا خیال ہے کہ “قبضہ غصے کے جذبات کو ہوا دیتا ہے،‘ اور مبصرین اسے ’مزاحمت کی طرف رجحان کو بحال کرنے کی ایک وجہ‘ سمجھتے ہیں۔

یہ وہ رائے ہے جس سے غزہ میں پرورش پانے والی ماہر نفسیات ایمان فراج اللہ متفق ہیں۔

ایمان کہتی ہیں ’ایک ماہر نفسیات کے طور پر میں کہتی ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ ان بچوں میں سے بہت سے بچے اپنے والدین کی موت کا بدلہ لینا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کو اس بات کا احساس ہو گا کیونکہ آپ ان کے قتل کیے گئے بھائیوں کو جانتے ہیں۔ ان دنوں غزہ میں جو ہو رہا ہے ہے، مجھے یقین نہیں کہ اسرائیل اس سے حماس کی حمایت کرنے والے جنگجوؤں کی تعداد میں اضافے میں کردار ادا نہیں کر رہا ہے۔‘

اسرائیل کے لیے حماس کو ختم کرنا کیوں مشکل ہے؟

اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کو چھپا کر نہیں رکھتا۔ لیکن ماضی کے تجربات یہ دکھاتے ہیں کہ ایسا کرنا مشکل ہو گا۔

ہیو لوواٹ کہتے ہیں حماس ’صرف ایک فوجی تنظیم نہیں ہے، اور نہ ہی یہ صرف ایک سیاسی تحریک ہے۔ یہ ایک نظریہ ہے اور اس نظریے کا خاتمہ مشکل ہے، خاص طور پر اسرائیلی ہتھیاروں کے زور سے۔‘

یہ رائے 2014 میں غزہ کی پٹی پر فوجی آپریشن میں حصہ لینے والے سابق اسرائیلی فوجی بینزی سینڈرز کے جائزے سے ملتی ہے۔ اس آپریشن کے بارے میں انھوں نے کہا تھا کہ اس سے ’حماس کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے‘۔ ان کے خیالات اس وقت کے اسرائیلی وزیر دفاع موشے یاعلون کے برعکس ہیں جنھوں نے کہا تھا کہ حماس کو نقصان پہنچا جو کہ ’گہرا اور شدید تھا۔‘

بینزی سینڈرز کو اس بات کا احساس تھا کہ جس علاقے میں وہ تعینات تھے وہاں بہت سے شہری مارے گئے تھے، وہ کہتے ہیں ’پھر میں اپنے آپ سے پوچھتا رہ گیا، اس جنگ سے کیا حاصل ہوا؟ کیا حماس کو واقعی نقصان ہوا؟ کیا (جنگ) نے اسے کمزور کیا؟ حماس کو وہ کرنے سے روکا جو اس نے کیا؟‘

سابق اسرائیلی فوجی نے مزید کہا ’اور جو کچھ میں نے اس کے بعد کے سالوں میں پایا اس کا جواب یہ تھا کہ نہیں، اس سے وہ حاصل نہیں ہوا۔ نا صرف یہ بلکہ حماس مضبوط ہو گئی۔‘

کیا کوئی متبادل حل ہے؟

دنیا کے اکثریتی ممالک کا ماننا ہے کہ امن معاہدہ ہی مستقبل کا واحد راستہ ہے۔ یہ ایک ایسا خیال ہے جس کی حمایت ہیو لوواٹ بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں ’اگر کوئی حماس کو پسماندہ اور کمزور کرنا چاہتا ہے تو ایسا کرنے کا واحد راستہ ایک اہم سیاسی حل پر پہنچنا ہے۔‘

تاہم اسرائیل کی موجودہ حکومت فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے کے لیے پرعزم نظر آتی ہے اور کسی بھی ایسے راستے کو مسترد کرتی ہے جو حماس کے خاتمے کی جانب جا رہا ہو۔

میری ایسن کہتے ہیں کہ ’میں مستقبل دیکھتا ہوں تو میرے خیال میں اسرائیل حماس کی صلاحیت کو ختم کرتا رہے گا۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگرچہ ہم بھاری تعداد میں حماس کے جنگجوؤں کو ختم کرنے کے قابل ہوں گے لیکن وہ پھر بھی سر اٹھاتے رہیں گے۔‘

نتن یاہو اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصے تک دائیں بازو کی حکومت کی قیادت کر آئے ہیں، وہ مستقبل قریب میں سیکورٹی کنٹرول کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں، جس کا اظہار انھوں نے یہ کہہ کر کیا کہ ’غزہ کو غیر فوجی اور اسرائیلی ریاست کے مکمل حفاظتی کنٹرول کے تحت ہونا چاہیے۔‘

اس پوزیشن کو نتن یاہو کے حکومتی اتحاد میں وزرا اور نمائندوں کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے، یہ ایک مکمل طویل مدتی قبضے کے مترادف ہے۔ اور ان میں سے کچھ تو غزہ میں بستیوں کے قیام کا کھلے عام مطالبہ بھی کرتے ہیں۔

لیکن جنگ کے بعد کے دور کے لیے اس وژن کو امریکی حمایت حاصل نہیں ہے۔

صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی طرف سے جنگ کے بعد کے منصوبے کو ظاہر کرنے کے دباؤ کے بعد وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے ایک ایسے منصوبے کی نقاب کشائی کی جو غزہ میں شہری آباد کاری سے بچنے کی امریکی خواہش کا جواب دیتا ہے۔

لیکن گیلنٹ پلان پر شکوک و شبہات کا اظہار کرنے والے پوچھتے ہیں کہ حماس کے بعد فلسطینیوں کے لیے سول انتظامیہ کی باگ ڈور کون سنبھال سکتا ہے، جب کہ اسرائیل کے لیے وہاں نقل و حرکت اور فوجی کارروائیوں کی آزادی برقرار رہے گی۔

لیکن جنگ کے بعد غزہ میں گورننس کی صورتحال کیا ہو گی؟ یہ سوال اس وقت موجود ہے جب تک کہ کسی مستقل امن معاہدے پر نہیں پہنچا جاتا۔ لیکن جب تک موجودہ صورتحال کا متبادل سامنے نہیں آتا اصل خطرہ باقی ہے کہ کیا مستقبل میں مزید گشیدگی بڑھے گی؟

اپنا تبصرہ بھیجیں