اسلام آباد ہائیکورٹ: تحقیقات کر رہے ہیں کہ بلوچستان کے غائب طلبہ کہاں تھے؟ نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) ’’ہم تحقیقات کر رہے ہیں کہ بلوچستان میں غائب ہونے والے طالب علم کہاں تھے۔ جب یہ انکوائری مکمل ہوگی تو سب کو بتا دیں گے۔‘‘

یہ نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ کے الفاظ تھے جو بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتا بلوچ طلبہ کے کیس میں جسٹس محسن اختر کیانی کی عدالت میں پیش ہوئے اور بعد ازاں انہوں نے میڈیا سے گفتگو کی۔

میڈیا سے گفتگو میں لوگوں کے لاپتا ہونے کے حوالے سے صحافیوں کے سخت سوالات پر ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی ہم پر صرف الزام ہے۔ لیکن آپ الزام کو الہامی حیثیت دینا چاہتے ہیں۔

نگراں وزیرِ اعظم جس وقت اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے اس وقت ڈاکٹر شیریں مزاری کے مئی 2022 میں مبینہ اغوا کے خلاف درخواست پر سماعت جاری تھی۔

وزیرِ اعظم اگلی نشستوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ ان کے اردگرد ان کا سیکیورٹی عملہ بھی بیٹھ گیا۔

شیریں مزاری کے مبینہ اغوا کے حوالے سے سیکریٹری کابینہ عدالت میں جواب دے رہے تھے جنہوں نے بتایا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ اس حوالے سے تیار کی گئی ہے۔

سیکریٹری کابینہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ نئی تشکیل پانے والی وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ گرفتاری میں قانون کی خلاف ورزی ہو تو وہ غیر قانونی ہو جاتی ہے۔ نئی کابینہ کے سامنے معاملہ رکھیں اور آئندہ سماعت پر عدالت کو آگاہ کریں۔

اس کے چند لمحوں بعد بلوچ طلبہ کے لاپتا ہونے کے کیس کی آواز لگائی گئی اور اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آ گئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ لاپتا بلوچ طلبہ کی بازیابی کے لیے کوششوں میں کامیابی ہوئی اور مزید 11 لاپتا بلوچ طلبہ کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نو افراد سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں جب کہ چار تاحال ٹریس نہیں ہو سکے ہیں۔ اسی طرح اس وقت دو افراد افغانستان میں موجود ہیں۔

کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ جو طلبہ قانونی عمل کا حصہ بن گئے وہ اس کورٹ کے مینڈیٹ سے نکل گئے ہیں۔ ان کے خلاف اگر کیسز ہیں تو وہ متعلقہ عدالتیں دیکھیں گی۔ ہم نے دو برس میں کئی سماعتیں کیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ کچھ لوگ دہشت گرد ہیں۔ کچھ نے ٹی ٹی پی کو جوائن کیا۔ کچھ لوگ گھروں کو پہنچ گئے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ریاستی اداروں نے کام بھی کرنا ہے اور جواب دہ بھی ہونا ہے۔ یہ کیس چلا ہے تو اداروں کی کوششوں سے ہی لوگ گھروں کو پہنچے ہیں۔ لیکن ادارے قانون سے بالاتر یا مستثنیٰ نہیں ہیں۔

ان کے بقول اگر کسی کو گرفتار کریں تو اس متعلق پتا ہونا چاہیے۔ لوگ لاپتا ہوں تو پاکستان کی ریاست پر الزامات لگتے ہیں۔ ہم نے انٹیلی جنس اداروں کے سربراہان پر مشتمل کمیٹی اسی لیے بنائی تھی،ہم سب آئین اور قانون کے تحت کام کر رہے ہیں۔

اس موقع پر نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ روسٹرم پر آئے اور عدالت کی اجازت سے کہا کہ میں عدالت کے بلانے پر حاضر ہوا ہوں۔ میرا تعلق تو بلوچستان سے ہے۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ہم مسلح جدوجہد کا سامنا کر رہے ہیں۔ بلوچستان میں کچھ لوگ ایک نئی ریاست تشکیل دینے کے لیے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔ ریاست اخلاقی طور پر خود کو بالادست سمجھتی ہے۔ تو ان کے جواب دہ بھی زیادہ ہونا ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ خودکش حملہ آور نیک نامی کا باعث بنتے ہیں۔

نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ پیراملٹری فورسز، کاؤنٹر ٹیرر ازم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔

نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ میں صرف لاپتا افراد کے حوالے سے وضاحت کر رہا ہوں۔ یہ لاپتا افراد کا پوچھیں تو پانچ ہزار نام دے دیتے ہیں۔

نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے الزام عائد کیا کہ یہ خود بھی اس ایشو کو حل نہیں کرنا چاہتے۔ ان کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں۔ کوسٹل ہائی وے پر بس میں لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ لیکن کسی کو اُس وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزی یاد نہیں آئی۔

انوار الحق کاکڑ کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں یہ بسوں سے لوگوں کو اتار کر نام پوچھتے اور چوہدری یا گجر کو قتل کر دیتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نہ کریں۔ سسٹم میں خامیاں ہیں۔ ثبوت نہیں آتا تو کسی کو کیسے سزا دیں۔ دہشت گردی سے 90 ہزار شہادتیں ہوئیں۔ 90 لوگوں کو سزا نہیں ہوئی۔ مجھے صحافی نے پوچھا کہ آپ بلوچستان واپس کیسے جائیں گے؟

جسٹس محسن کیانی نے کہا کہ 24 ماہ میں ایک مرتبہ یہ بیان نہیں آیاکہ کوئی سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہے۔ ریاستی اداروں کی ناکامی ہے کہ وہ انہیں پراسیکیوٹ نہیں کرسکے۔ اگر قانون میں سقم ہے اور ثبوت نہیں ہیں تو اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ قانون ایک ہی ہے اس کے مطابق ہی چلنا ہے۔

اس پر انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ نگراں حکومت کا ڈومین نہیں تھا۔ مگر آنے والی حکومت سے درخواست ہو گی کہ وہ اس کو دیکھے۔ ریاست کو آئے دن کے الزامات سے نکالنا چاہیے۔ ہم نے اور عام شہریوں نے ہتھیار نہیں اٹھائے کیونکہ تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست کو ہتھیار اٹھانے والے شہریوں سے الگ طریقے سے ڈیل کرنا چاہیے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ کوئی عدالت نان اسٹیٹ ایکٹرز کو تحفظ دینے کا نہیں کہہ رہی۔ بلاشبہ جنگ ہے۔ ہماری فوج اور ادارے لڑ رہے ہیں۔

نگراں وزیرِ اعظم نے کہا کہ انگلینڈ نے شام جانے والی ایک برٹش نیشنل خاتون کی شہریت ختم کرکے واپس بھجوا دیا۔ نان اسٹیٹ ایکٹرز کی خلاف ورزیاں بھی ریکارڈ ہوتی ہیں۔ بلوچستان کے ایک سابقہ چیف جسٹس کو مغرب کی نماز کے وقت مسلح جتھوں نے شہید کیا تھا۔ ان چیف جسٹس نے ایک انکوائری کی سربراہی کی تھی۔ آئین ریاست سے غیر مشروط وفاداری کا تقاضہ کرتا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے وزیرِ اعظم کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے بہت اچھی باتیں کیں۔ ہمیں بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں۔ اسلام آباد میں ہم بہت کچھ دیکھ رہے ہیں۔ یہ مطیع اللہ جان کھڑے ہیں۔ انہیں دن دیہاڑے اٹھایا گیا تھا۔

نگراں وزیرِ اعظم نے مطیع اللہ جان کے اغوا کے بارے میں کہا کہ ایسا اقدام جس کسی نے اٹھایا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

اس موقعے پر بلوچ طلبہ کی وکیل ایمان مزاری روسٹرم پر آئیں اور کہا کہ جب بات لاپتا افراد کی ہو تو دہشت گردوں کی طرف چلی جاتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لاپتا افراد کے اہلِ خانہ کے لیے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ ہم ریاست کے خلاف کوئی پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔ ہم بھی اسی ریاست کا حصہ ہیں۔ ہم کبھی بھی دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے حوالے سے کامیاب اقدامات کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے کہ 59 لوگوں میں سے صرف آٹھ لوگ رہ گئے ہیں۔

اٹارنی جنرل عثمان منصور اعوان نے کہا کہ عدالت نے وزیرِ اعظم کو طلب کیا اور وہ پیش ہو گئے۔

ان کے بقول وزیرِ اعظم نے عدالت میں بیان دے دیا ہے اور یہ معاملہ یہاں ختم ہو گیا ہے۔ یہ معاملہ وزیرِ اعظم اور عدالت کے درمیان تھا۔

ایمان مزاری نے کہا کہ ہم بھی شدت پسندی کی کارروائیوں کی حمایت نہیں کرتے۔ کمیشن کی رپورٹس موجود ہیں کہ جبری گمشدگیوں میں ادارے ملوث ہیں۔

اس پر نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ میں ایمان مزاری کے دلائل سے اختلاف کرتا ہوں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اس کیس کی وجہ سے بہت سے مسنگ پرسنز ٹریس ہوئے۔ انہوں نے ایمان مزاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی درخواست پر کارروائی ہوئی۔ سب نے اپنا کام اور کردار ادا کیا جو لوگ سی ٹی ڈی کی تحویل میں ہیں ان کے کیسز چلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ججمنٹ دینا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ لوگ واپس آئے۔ بازیاب ہونے کے بعد کوئی کبھی بھی عدالت میں نہیں آیا۔ ہمیں ہمیشہ یہ گلہ رہا ہے کہ مسنگ پرسنز بازیابی کے بعد عدالت نہیں آتے۔ عدالت نے سی ٹی ڈی کی تحویل میں افراد کے خلاف مقدمات کی تفصیل پٹیشنر کو فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

کمرۂ عدالت کے باہر وزیرِ اعظم سے صحافیوں نے سوالات کیے اور ان سے پوچھا گیا کہ واپس آنے والے کیوں نہیں بتاتے کہ وہ کہاں تھے؟

جس پر نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ سب الزامات ہیں۔

ان سے سوال ہوا کہ آپ چھ ماہ سے کس آئین کے تحت وزیرِ اعظم بنے ہوئے ہیں؟ جس پر انوار الحق کاکڑ نے صرف اتنا کہا کہ 1973 کے آئین کے مطابق۔

اپنا تبصرہ بھیجیں