ایران نے یورینیم کے ذخائر میں مزید اضافہ کر لیا، آئی اے ای اے

نیو یارک + ویانا (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایران نے اپنے یورینیم کے ذخائر میں مزید اضافہ کر لیا ہے اور اس نے نگران ادارے کے تجربہ کار معائنہ کاروں کو جوہری پروگرم کی نگرانی سے روکا ہوا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے کی اس رپورٹ کو دیکھا ہے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی ایک دوسری خفیہ رپورٹ میں، جسے رکن ممالک میں تقسیم کیا گیا ہے، بتایا گیا ہے کہ تہران نے دو مقامات پر پائے جانے والے یورینیم کے ان ذرات کی موجودگی کے متعلق ابھی تک وضاحت نہیں کی جسے انسانی سرگرمی کی مدد سے تیار کیا گیا تھا۔

جوہری نگرانی کے عالمی ادارے یعنی آئی اے ای اے نے اپنی سہ ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس کے اندازے کے مطابق 10 فروری کو ایران کے پاس یورینیم کے ذخائر تقریباً 12182 پاؤنڈ تھے جو نومبر 2023 میں جاری ہونے والی سہ ماہی رپورٹ سے 2289 پاؤنڈ زیادہ تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایجنسی کے اندازے کے مطابق ایران کے پاس 60 فی صد تک افزودہ یورینیم کی مقدار 267.8 تھی، جو کہ نومبر 2023 کی سہ ماہی رپورٹ سے 14.9 پاؤنڈ کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔

آئی اے ای اے کے مطابق 60 فی صد تک 92.5 پاؤنڈ یورینیم سے اصولی طور پر ایک جوہری بم بنانا ممکن ہے۔ 60 فی صد سے جوہری ہتھیار کی سطح کے 90 فی صد افزودہ یورینیم کی تیاری میں محض ایک قدم کا فاصلہ ہے۔

گزشتہ سال جون اور نومبر کے دوران ایران اپنا افزودگی کا عمل سست کر کے اسے 6.6 پاؤنڈ فی مہینہ کی سطح پر لے گیا تھا لیکن آئی اے ای اے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کے آخر میں یہ رفتار بڑھ کر 19.8 پاؤنڈ فی مہینہ تک پہنچ گئی تھی۔

واشنگٹن میں قائم نیوکلیئر تھریٹ انی شیٹو کے ڈپٹی وائس پریذیڈنٹ ایرک بریور نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایران ممکنہ طور پر کئی جوہری بم بنا سکتا ہے۔

بریور کہتے ہیں کہ اس وقت ایران کے پاس تین جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے 60 فیصد افزودہ یورینیم کا کافی ذخیرہ موجود ہے جس کی افزودگی کو وہ 90 فیصد تک بڑھا کر جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران محض چند ہفتوں کے اندر یورینیم کو افزودہ کر کے اسے جوہری ہتھیار بنانے کے درجے تک لے جا سکتا ہے اور اس کے بعد ایک سال کے اندر ایک حقیقی بم سامنے لا سکتا ہے۔

عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں ہونے والے ایران کے اصل جوہری معاہدے میں ایران کو 3.67 فی صد تک یورینیم کو افزدوہ کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس وقت ایران کے پاس 661 پاؤنڈ کا یورینیم کا ذخیرہ موجود تھا اور اس کے پاس افزودگی کے لیے بنیادی قسم کے سینٹرفیوجز تھے۔ اس معاہدے کے بدلے میں ایران پر عائد معاشی پابندیاں نرم کی گئیں تھیں اور اقوام متحدہ کے انسپکٹروں کو اس کے جوہری پروگرام کی نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔

2018 میں اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ کہتے ہوئے امریکہ کو یک طرفہ طور پر جوہری معاہدے سے نکال لیا کہ وہ ایران سے زیادہ سخت معاہدہ کریں گے۔ لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوا اور ایران نے ایک سال کے بعد معاہدے کی شرائط کو توڑنا شروع کر دیا ۔

اس کے بعد صدر جوبائیڈن نے دوبارہ جوہری معاہدے میں شامل ہونے کے لیے مذاکرات شروع کیے، لیکن بات چیت کا یہ عمل اگست 2022 میں ختم ہو گیا۔

ایران طویل عرصے سے جوہری ہتھیار بنانے سے انکار کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ جوہری توانائی پر تحقیق پرامن مقاصد کے لیے کر رہا ہے اور اسے توانائی کے حصول اور تعلیمی اور طبی شعبے میں استعمال کرنا چاہتا ہے۔

لیکن آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل نے گزشتہ سال خبردار کیا تھا کہ اگر ایران جوہری ہتھیار بنانے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کے پاس کئی جوہری بم بنانے کے لیے یورینیم کا ذخیرہ موجود ہے۔

جوہری توانائی کے عالمی ادارے آئی اے ای اے کا 35 رکنی بورڈ آف گورنرز اس سے قبل جوہری توانائی کے ادارے کے ساتھ مکمل تعاون کرنے میں ناکامی پر ایران کی سرزنش کر چکا ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا بورڈ کے اگلے ہفتے ویانا میں ہونے والے اجلاس میں وہ دوبارہ بھی ایسا ہی کرے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں