غزہ میں 30 ہزار ہلاکتیں: اسرائیل کا حماس کے 10 ہزار جنگجو مارنے کا دعویٰ کتنا حقیقی؟

غزہ + لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر 2023 کے بعد غزہ میں اسرائیلی حملوں میں مرنے والے فلسطینیوں کی تعداد 30 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

اس لڑائی میں شہری ہلاکتوں کی وجہ سے جہاں اسرائیل کو عالمی تشویش کا سامنا ہے وہیں اس حوالے سے بھی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ دکھائے کہ اس کی کارروائیاں صرف حماس کے خلاف ہیں۔

بی بی سی ویریفائی نے اس سلسلے میں حماس کے جنگجوؤں کی ہلاکتوں کے بارے میں دعوؤں کا جائزہ لیا ہے۔

اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ حماس کے سات اکتوبر کے حملوں میں 1200 افراد کی ہلاکت کے جواب میں اب تک حماس کے 10 ہزار جنگجو فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں میں مارے گئے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے مسلسل اپنی حکمت عملی کا دفاع کیا ہے اور مُصر ہے کہ وہ عام لوگوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم رکھتے ہوئے صرف حماس کے جنگجوؤں اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

حماس نے تاحال یہ نہیں بتایا کہ اس کا کتنا جانی نقصان ہوا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک خبر میں حماس کے اہلکار کے حوالے سے چھ ہزار جنگجوؤں کی ہلاکت کی بات کی لیکن تنظیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس خبر کی تردید کی۔

غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کے اعدادوشمار غزہ کی وزارت صحت جاری کرتی ہے جو حماس کے زیر انتظام کام کرتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کہ مطابق یہ اعدادوشمار قابل اعتماد ہیں لیکن یہ شہری اور جنگجوؤں کے درمیان فرق نہیں کرتے۔ تاہم اس ڈیٹا کے مطابق جنگ کی ابتدا سے اب تک مارے جانے والے افراد میں 70 فیصد خواتین اور بچے تھے۔

بی بی سی ویریفائی نے متعدد بار اسرائیلی فوج سے کہا ہے کہ وہ یہ بتائیں کہ انھوں نے حماس کے جنگجوؤں کی ہلاکت کے اعدادوشمار کیسے جمع کیے لیکن انھوں نے اب تک اس متعلق جواب نہیں دیا۔

ہم نے اسرائیلی فوج کے میڈیا کو جاری کیے گئے بیانات اور سوشل میڈیا پر کی گئی پوسٹس میں مارے جانے والے حماس کے جنگجوؤں کے حوالوں کا جائزہ بھی لیا ہے۔

19 فروری کو اسرائیلی اخبار دی ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ حماس کے 12 ہزار جنگجوؤں کو مار دیا گیا ہے۔ ہم نے یہ اعداد و شمار اسرائیلی فوج کے سامنے رکھے تو انھوں نے دو مختلف جوابوں میں پہلے کہا ‘تقریباً 10 ہزار’ اور پھر کہا ’10 ہزار سے زیادہ۔’

جنوری کے وسط میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں حماس کے جنگجوؤں کی دو تہائی ریجمنٹس کو ‘تباہ’ کر دیا ہے لیکن انھوں نے مرنے والے جنگجوؤں کی تعداد نہیں بتائی تھی۔ جنگ سے پہلے اسرائیلی فوج کے تخمینے کے مطابق غزہ میں حماس کے 30 ہزار جنگجو تھے۔

دسمبر میں اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس کے تخمینے کے مطابق ایک حماس جنگجو کی ہلاکت کے ساتھ دو عام فلسطینی شہری بھی ہلاک ہو رہے ہیں اور یہ ‘انتہائی مثبت’ بات ہے کیونکہ جنگ کے دوران پیش آنے والے چیلنجز بہت زیادہ ہیں۔

لیکن جنگ کے پہلے مہینے کے بعد 14 نومبر کو اسرائیلی فوج کے ٹیلیگرام چینل پر کہا گیا تھا کہ ‘ایک ہزار دہشتگردوں’ کو ‘ڈویژن فورسز’ نے مار دیا ہے۔ اس وقت غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 11320 ہلاکتیں ہو چکی تھیں۔ جس سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جنگجوؤں کے مقابلے میں عام شہریوں کی ہلاکتیں کہیں زیادہ تھی یعنی ایک جنگجو کے ساتھ دس شہری مارے جا رہے تھے۔

بی بی سی ویریفائی نے اسرائیلی فوج کے یوٹیوب چینل پر سات اکتوبر سے 27 فروری تک لگائی جانے والی 280 ویڈیوز کا جائزہ لیا۔ ان میں سے بہت کم ویڈیوز میں بڑی تعداد میں جنگجوؤں کو مارنے کے شواہد تھے۔ 13 دسمبر کو پوسٹ ہونے والی صرف ایک ویڈیو میں بظاہر ہلاک شدہ جنگجوؤں کی لاشیں دکھائی گئی ہیں جبکہ چند ویڈیوز میں جنگجوؤں پر گولی چلاتے ہوئے دکھایا گیا۔

ہم نے اسرائیلی فوج کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹیلیگرام پر چینل کی انفرادی پوسٹس کا جائزہ لے کر مارے جانے والے جنگجوؤں کے اعداد جمع کیے۔ ہمیں 160 ایسی پوسٹس ملیں جن میں جنگجو مارے جانے کا دعویٰ کیا گیا اور تعداد بتائی گئی۔ ان سب کو جمع کیا جائے تو کل تعداد 714 بنتی ہے لیکن 247 ایسی بھی پوسٹس تھیں جن میں ‘متعدد’، ‘درجنوں’ یا ‘سینکڑوں’ کی تعداد میں جنگجو مارنے کا دعویٰ کیا گیا لہٰذا اس طریقے سے کل تعداد کی گنتی کرنا ممکن نہیں ہے۔

کسی بھی جنگ میں لڑنے والوں کے مرنے کی تعداد معلوم کرنا مشکل ہے۔ غزہ میں کئی جنگجو عام لباس پہنتے ہیں اور زیر زمین سرنگوں کے نیٹ ورک کے ذریعے اپنی کارروائیاں کرتے ہیں اور زیادہ تر ہلاکتیں فضائی حملوں سے ہوئی ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی فوج کی دراندازی کے آغاز سے وہ حماس پر الزام لگاتی ہے کہ وہ شہریوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے ہیں لیکن کچھ ماہرین کی یہ تشویش بھی ہے کہ اسرائیلی فوج شاید ان غیر عسکری لوگوں کو بھی جنگجو کے طور پر گن رہی ہے کیونکہ وہ حماس کی علاقائی انتظامیہ کا حصہ تھے۔

کنگز کالج لندن میں سیکیورٹی سٹڈیز کے سینیئر لیکچرار آندریاس کریگ کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل حماس کی رکنیت کے حوالے سے بہت وسیع تعریف کو اپناتا ہے جس میں وہ سرکاری ملازمین یا منتظمین سمیت تنظیم کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق رکھنے والوں کو شامل کرتا ہے۔’

ماضی کی جنگوں کے مقابلے میں غزہ کی وزارت صحت کی طرف سے حالیہ لڑائی میں اموات کے اعدادوشمار میں خواتین اور بچوں کے تناسب میں بڑا اضافہ نظر آتا ہے۔

پرتشدد نتازعوں میں متاثرین کے اعدادوشمار جمع کرنے والی برطانیہ میں قائم تنظیم ایوری کیزوئلٹی کاؤنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ریچل ٹیلر کے مطابق یہ اندیشہ ہے کہ ‘شہریوں کی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔’

غزہ کی تقریباً نصف آبادی 18 سال سے کم عمر کی ہے اور جنگ میں ہلاک ہونے والوں میں 43 فیصد بچے بھی شامل ہیں۔

ریچل ٹیلر نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اموات عام آبادی کی آبادیات کے کافی قریب ہے جس سے ‘اندھادھند قتل کی نشاندہی ہوتی ہے۔’

انھوں نے کہا ‘اس کے برعکس 2014 میں ‘لڑنے کی عمر’ کے مردوں کا ہلاک ہونے والوں میں تناسب کافی زیادہ تھا لیکن یہ آج بہت کم واضح ہے۔’

غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ تنازعے کے آغاز سے لے کر اب تک ہر روز اوسطاً 200 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

بظاپر ایسا لگتا ہے کہ اکتوبر سے دسمبر تک کے جنگ کے شروع کے مراحل کے مقابلے میں اب ہلاکتوں کی رفتار میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ اسرائیلی جارحیت سے ہلاک ہونے والوں کا اصل تعداد نمایاں طور پر زیادہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ بہت سے ہسپتال اب کام نہیں کر رہے ہیں اور عام طور پر وہاں اموات ریکارڈ کی جاتی ہیں۔’

یہ اعدادوشمار صرف فوجی کارروائی میں مرنے والے افراد کے ہیں اور ان میں بھوک یا بیماری سے ہونے والی ہلاکتیں شامل نہیں جن کے بارے میں عالمی امدادی ادارے تشویش ظاہر کرتے رہے ہیں۔

بیت المقدس میں کام کرنے والی حقوقِ انسانی کی تنظیم بیت السلم کا کہنا ہے کہ حالیہ جنگ اسرائیل اور غزہ کے درمیان ماضی میں ہونے والی لڑائیوں سے کہیں زیادہ مہلک ہے۔ تنظیم کے ترجمان درور سیدوت کا کہنا ہے کہ ’یہ وہ اعدادوشمار ہیں جو ہم نے غزہ یا دیگر علاقوں پر ماضی میں ہونے والی کارروائیوں یا حملوں میں نہیں دیکھے‘۔

انھوں نے کہا کہ ہلاکتوں کی تعداد جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی فوج کے ترجمان کی طرف سے بیان کردہ نقطہ نظر کی عکاسی کرتی ہے جنھوں نے کہا تھا کہ ‘نقصان کے دائرہ کار کے ساتھ صحیح اہداف کو نشانہ بنانے میں توازن کرتے ہوئے، ابھی ہم اس بات پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نقصان کس چیز سے ہو گا۔’

اپنا تبصرہ بھیجیں