غزہ جنگ بندی مذاکرات پیش رفت کے بغیر ختم، رمضان میں رفح آپریشن کا خطرہ

قاہرہ (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) مصری حکام نے بتایا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی پر حماس کے ساتھ تین روزہ مذاکرات رمضان کے مہینے کے شروع ہونے سے ایک ہفتے سے بھی قبل منگل کو بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہو گئے۔

امریکہ، قطر اور مصر نے ایک ایسے معاہدے کی ثالثی کی کوشش میں ہفتوں صرف کیے ہیں، جس کے تحت حماس چھ ہفتے کی جنگ بندی، کچھ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور اس محصور علاقے میں انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے امداد کی ترسیل کے بدلے 40 یرغمالوں کو رہا کرے گا۔

دو مصری حکام نے کہا کہ بات چیت کا تازہ دور ختم ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس نے ایک تجویز پیش کی جس پر ثالث آنے والے دنوں میں اسرائیل کے ساتھ بات چیت کریں گے۔

نیتن یاہو کی جنگی کابینہ کے رکن اور ان کے اہم سیاسی حریف بینی گینٹز نے واشنگٹن میں سینئر امریکی حکام سے ملاقات کی جس کی نیتن یاہو نے مخالفت کی، جو اسرائیلی قیادت میں بڑھتی ہوئی خلیج کی تازہ ترین علامت ہے۔

اسرائیل اب بھی غزہ کے تمام حصوں پر حملے کر رہا ہے اور اس نے اپنے زمینی حملے کو جنوبی شہر رفح تک پھیلانے کی دھمکی دی ہے جہاں غزہ کی نصف آبادی نے پناہ حاصل کی ہے۔ گینٹز نے کہا ہے کہ اگر یرغمالوں کے بارے میں کوئی ڈیل نہ ہوئی تو رفح آپریشن رمضان کے ساتھ ہی شروع ہو سکتا ہے۔

غزہ کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 97 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ فلسطینیوں کی مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 30,631 ہو گئی ہے۔ وزارت اپنے اعداد و شمار میں عام شہریوں اور جنگجوؤں کے درمیان فرق نہیں کرتی ہے، لیکن اس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔

جنگ بندی پر حماس کا موقف

حماس نے کہا ہے کہ وہ اپنے پاس قید لگ بھگ 100 یرغمالوں اور 30 مزید کی باقیات کو اس وقت تک واپس نہیں کرے گا جب تک اسرائیل اپنی کارروائیاں ختم نہیں کرتا، غزہ سے انخلا نہیں کرتا اور عمر قید کی سزا کاٹ نے والے سینئر عسکریت پسندوں سمیت فلسطینی قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو رہا نہیں کرتا۔

امریکی حکام نے کہا ہے کہ انہیں اس بارے میں شبہ ہے کہ حماس واقعی کوئی معاہدہ چاہتا ہے کیونکہ اس گروپ نے کئی ایسی درخواستو ں کو مسترد کیا ہے جو امریکہ اور دوسروں کے خیال میں جائز درخواستیں ہیں جن میں رہا کیے جانے والے یرغمالوں کے نام فراہم کرنے کی درخواست شامل ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے منگل کو کہا کہ “یہ حماس پر منحصر ہے کہ وہ اس بارے میں فیصلہ کرے کہ آیا وہ پیش رفت کے لیے تیار ہے۔”

بلنکن نے کہا، “ہمارے پاس فوری جنگ بندی کا ایک موقع ہےجو یرغمالوں کو گھر واپس لا سکتا ہے، فلسطینیوں تک پہنچنے والی انسانی امداد کی مقدار میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے، اور جو کسی پائیدار حل کے لیے حالات تشکیل دے سکتا ہے۔”

حماس کے ترجمان جہاد طحہ نے کہا کہ مذاکرات جاری ہیں لیکن گیند اسرائیل کے کورٹ میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے اب تک شمالی غزہ سے انخلا کرنے والے حماس کے لوگوں کو واپس جانے کی اجازت دینے، طویل مدتی جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلاء کی ضمانتیں دینے سے انکار کر دیا ہے۔

طحہ نے کہا، “حماس ان تجاویز اور اقدامات کے لیے تیار ہے جو اس کے موقف سے مطابقت رکھتے ہیں جن میں جنگ بندی، انخلاء، بے گھر افراد کی واپسی، امدادی قافلوں کے داخلے اور تعمیر نو کا مطالبہ کیا گیا ہے۔”

اسرائیلی وزیر اعظم نے حماس کے مطالبات کو برملا مسترد کر دیا ہے اور بارہا اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جب تک حماس کو ختم نہیں کیا جاتا اور تمام یرغمال واپس نہیں آجاتے ،اس وقت تک جنگ جاری رہے گی۔

اسرائیل نے مذاکرات کے تازہ دور میں کوئی وفد نہیں بھیجا تھا۔

ایک اسرائیلی اہل کار نے کہا کہ اسرائیل ابھی تک اس انتظار میں ہے کہ حماس اسے ان یرغمالوں کی فہرست فراہم کرے جو زندہ ہیں اور ساتھ ساتھ وہ فہرست بھی فراہم کرے کہ وہ رہائی کے کسی معاہدے کے تحت کتنے یرغمالوں کے بدلے کتنے فلسطینی قیدیوں کی رہائی چاہتا ہے ۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ان معلومات کو تازہ ترین تجویز میں شامل کیا گیا تھا۔

اسرائیل اور مصری عہدے داروں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیوں کہ انہیں مذاکرات کے بارے میں میڈیا کو بریف کرنے کا اختیار نہیں تھا۔

جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے حملے سے ہوا تھا جس میں فلسطینی عسکریت پسندوں نے تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک اور 250 کے قریب یرغمال بنا لیا تھا۔ نومبر میں ایک ہفتہ طویل جنگ بندی کے دوران ان میں سے 100 سے زیادہ کو رہا کیا گیا تھا۔

اس حملے کے جواب میں اسرائیل نے 23 لاکھ آبادی پر مشتمل غزہ کے محصور شہر پر زمینی، فضائی اور بحری کارروائی کی جس میں میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 30,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ لڑائی نے علاقے کی زیادہ تر آبادی کو بے گھر اور ایک چوتھائی آبادی کو قحط کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کی ایجنسی نے پیر کو کہا کہ کم از کم 10 بچے مبینہ طور پر محصور شمالی غزہ میں پانی کی کمی اور غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے لیے یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر، عدیل نے ایک بیان میں کہا، “غزہ کے چند باقی رہ جانے والے اسپتالوں میں اس سے کہیں زیادہ بچے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، اور امکان ہے کہ شمال میں اس سے بھی زیادہ بچے دیکھ بھال حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔”

امریکہ اور دیگر ممالک نے حالیہ دنوں میں غزہ میں فضائی وسائل سے امداد گرائی ہے، لیکن امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ یہ مہنگا، اور آخری چارہ کار ہے جو غزہ کے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں