سویڈن نیٹو کا رکن بن گیا

واشنگٹن + سٹاک ہوم (ڈیلی اردو/رائٹرز/ڈی پی اے/اے ایف پی) مغربی سفارتی حلقوں نے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کو اس فوجی اتحاد کے لیے ایک تاریخی دن قرار دیا ہے۔ سویڈن اپنی دو سو سالہ غیر جانبداری کی پالیسی ختم کرتے ہوئے نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کا حصہ بنا ہے۔

الحاق کا یہ عمل سویڈش وزیر اعظم کی جانب سے واشنگٹن میں اس حوالے سے حتمی کاغذی کارروائی مکمل کرنے کے بعد پورا ہوا۔ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ دو صدیوں کی غیر جانبداری اور دو سال کی سفارت کاری کے بعد جمعرات کو سویڈن باضابطہ طور پر شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم (نیٹو) کا رکن بن گیا۔

سویڈن کے وزیر اعظم اولف کرسٹرسن کے سرکاری اکاؤنٹ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا گیا، ”ہم اتحاد، یکجہتی اور بوجھ بانٹنے کے لیے کوشش کریں گے اور واشنگٹن معاہدے کی اقدار آزادی، جمہوریت، انفرادی آزادی اور قانون کی حکمرانی پر مکمل طور پر عمل کریں گے۔‘‘ امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اتحاد کے سب سے نئے رکن کے طور پر سویڈن کو خوش آمدید کہنے پر انہیں فخر ہے۔ انہوں نے مزید کہا،” ٹرانس اٹلانٹک سیکورٹی اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔‘‘

نیٹو اتحاد کے لیے ایک ‘تاریخی‘ دن

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے الحاق کی تقریب میں شرکت کے موقع پر کہا، ”یہ سویڈن کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہے۔ یہ اتحاد کے لیے تاریخی ہے۔ یہ ٹرانس اٹلانٹک تعلقات کے لیے تاریخی ہے۔‘‘

نیٹو کے سیکرٹری جنرل ژینس اسٹولٹن برگ نے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا،”سویڈن کا الحاق نیٹو کو مضبوط، سویڈن کو محفوظ اور پورے اتحاد کو زیادہ محفوظ بناتا ہے۔‘‘

سویڈیش وزیر اعظم کا کہنا تھا، ”آج واقعی ایک تاریخی دن ہے۔ سویڈن اب نیٹو کا رکن ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”ہم اپنے قریبی ترین ممالک کے ساتھ مل کر جغرافیے، ثقافت اور اقدار کے لحاظ سےاپنی آزادی کا دفاع کریں گے۔‘‘

سویڈن کا جھنڈا پیر کو بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں نیٹو کے ہیڈ کوارٹر میں لہرائے جانے کی توقع ہے۔

یوکرین پر روسی حملے کے سائے میں نیٹو کی توسیع

روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے یوکرین میں اپنی جنگ کا جواز یہ دعویٰ کرتے ہوئے پیش کیا تھا کہ نیٹو نے روس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ سرد جنگ کے بعد اتحاد میں توسیع نہیں کرے گا۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن کے مطابق ایسا معاہدہ کبھی نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ فروری 2022 ء میں پوٹن کے یوکرین پر حملے کا حکم دینے سے پہلے بہت کم لوگوں کو سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو اتحاد میں شمولیت کی توقع تھی۔ فن لینڈ نے گزشتہ سال نیٹو میں شمولیت اختیار کی تھی۔

بلنکن نے کہا، ”پوٹن کے یوکرین پر حملے کے نتیجے میں روس کو ہونے والی اس اسٹریٹجک شکست کی اس سے واضح مثال نہیں ملتی۔‘‘ یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ سویڈن اب ”روسی شر سے زیادہ محفوظ ہے۔‘‘ یوکرین نے 2022 میں نیٹو کا رکن بننے کے لیے درخواست دی تھی لیکن اس کی رکنیت کے لیے وقت کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔

نیٹو کا قیام کیسے عمل میں آیا تھا؟

نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) اتحاد امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ دس یورپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بنایا گیا تھا۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد اس وقت کے سوویت یونین سے نمٹنا تھا۔

جنگ کے ایک فاتح کے طور پر ابھرنے کے بعد، سوویت فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی یورپ میں موجود رہی تھی اور ماسکو نے مشرقی جرمنی سمیت کئی ممالک پر کافی اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔

جرمنی کے دارالحکومت برلن پر دوسری جنگ عظیم کی فاتح افواج نے قبضہ کر لیا تھا اور سنہ 1948 کے وسط میں سوویت رہنما جوزف سٹالن نے مغربی برلن کی ناکہ بندی شروع کر دی تھی، جو اس وقت مشترکہ طور پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی کنٹرول میں تھا۔

شہر میں محاذ آرائی سے کامیابی سے گریز کیا گیا لیکن اس بحران نے سوویت طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کی تشکیل میں تیزی پیدا کر دی تھی۔ اور سنہ 1949 میں امریکہ اور 11 دیگر ممالک (برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا، ناروے، بیلجیئم، ڈنمارک، نیدرلینڈز، پرتگال، آئس لینڈ اور لکسمبرگ) نے ایک سیاسی اور فوجی اتحاد تشکیل دیا۔

سنہ 1952 میں اس تنظیم میں یونان اور ترکی کو شامل کیا گیا جبکہ سنہ 1955 میں مغربی جرمنی بھی اس اتحاد میں شامل ہوا۔

سنہ 1999 کے بعد سے اس نے سابقہ مشرقی بلاک کے ممالک کا بھی خیر مقدم کیا اور اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 29 ہو گئی۔ مونٹینیگرو جون 2017 میں نیٹو کا حصہ بننا۔ جبکہ فن لینڈ نے گزشتہ سال 2023 میں نیٹو میں شمولیت اختیار کی تھی۔

نیٹو کے قیام کے مقاصد کیا تھے؟

نیٹو کے قیام کا بنیادی مقصد ’شمالی اٹلانٹک کے علاقے میں استحکام اور بہبود‘ کو فروغ دے کر اپنے رکن ممالک کی ’آزادی ، مشترکہ ورثے اور تہذیب کی حفاظت‘ کرنا ہے۔

نیٹو معاہدہ یہ ثابت کرتا ہے کہ نیٹو کے ایک رکن ملک کے خلاف مسلح حملہ ان سب کے خلاف حملہ سمجھا جائے گا، اور یہ کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔

عملی طور پر اتحاد اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ’یورپی رکن ممالک کی سلامتی شمالی امریکہ کے رکن ممالک کی سلامتی سے جدا نہیں ہے۔‘

اس تنظیم نے سوویت یونین اور کمیونزم کو اس سلامتی کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھا تھا۔

لیکن اس کی تخلیق کے بعد سے نیٹو کی سرحدیں ماسکو کے 1000 کلومیٹر قریب ہو گئی ہیں، اور اب یہ تنظیم مشرقی یورپ میں 1989 کی انقلابات اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سابق سوویت یونین میں شامل ممالک کو اپنا رکن گنتی ہے۔

اب اگر سویت یونین نہیں ہے تو نیٹو کا وجود کیوں ہے؟

سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مغرب نے ماسکو کی فکر کرنا چھوڑ دی ہے۔

سنہ 2003 میں نیٹو کے ایک اعلیٰ عہدیدار، جیمی شیا نے اپنی مشہور تقریر میں کہا تھا کہ ’کسی کو اس بات پر یقین نہیں تھا کہ کمیونزم کے اچانک ختم ہونے سے دنیا ایک جنت بن جائے گی، ایک ایسے سنہری دور کی تشکیل جس میں اتحادی مسلح افواج کے بغیر زندہ رہ سکیں گے، یا دفاع کے بغیر زندگی بسر کر سکیں گے۔‘

یہ بھی حقیقت ہے کہ روس عسکری طور پر طاقتور رہا اور یوگوسلاویا کے خاتمے سے 1990 کی دہائی میں ہی جنگ یورپ میں واپس آ گئی۔

اس کے بعد کے تنازعات میں دیکھا گیا کہ نیٹو نے اپنا کردار ایک مداخلت پسند تنظیم میں بدل لیا: فوجی کارروائیوں میں بوسنیا اور کوسوو میں سربیا کی افواج کے خلاف فضائی مہم کے علاوہ بحری ناکہ بندی اور امن فوج بھی شامل تھیں۔

2001 میں نیٹو نے پہلی بار یورپ کے باہر اپنی کاروائیاں کیں: اس نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان بھیجے گئے اقوام متحدہ کی جانب سے منظور شدہ اتحادی فوج کی سٹریٹجک کمانڈ سنبھالی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں