بھارتی فوجیوں کا مالدیپ سے انخلا شروع

مالے (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی ڈبلیو) مالدیپ کے گزشتہ ستمبر میں منتخب ہونے والے چین نواز صدر کے حکم کے بعد اس جزیرہ نما ملک میں نگرانی کے طیارے چلانے والے بھارتی فوجیوں کی ملک واپسی کا سلسلہ شروع ہوا۔

مقامی میڈیا کے ذریعے منگل کوموصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق مالدیپ کے نئے چین نواز صدر کے حکم کے بعد بھارت نے مالدیپ میں نگرانی کے طیارے چلانے والے اپنے فوجی اہلکاروں کو واپس بلانا شروع کر دیا ہے۔ میہارو اخبار نے اطلاع دی ہے کہ ادو کے سب سے جنوبی ایٹول میں تعینات 25 بھارتی فوجی 10 مارچ سے پہلے جزیرہ نما کو چھوڑ چکے ہیں، انخلاء کا باضابطہ آغاز دونوں فریقوں کے اتفاق کے ساتھ ہوا۔

صدر محمد معیزو ستمبر میں اس عہد کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے کہ مالدیپ میں اس کی وسیع سمندری سرحد پر گشت کے لیے تعینات ہندوستانی سکیورٹی اہلکاروں کو نکال باہر کیا جائے گا۔

مالدیپ کے صدر نے جنوری میں بیجنگ کے دورے کے موقع پر بنیادی ڈھانچے، توانائی، سمندری اور زرعی معاہدوں پر دستخط کیے تھے، وہ اس سے قبل علاقائی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے چینی افواج کوبھارتی فوجیوں کی جگہ لانے کی تردید کرچکے تھے۔

نئی دہلی کے ساتھ بات چیت کے بعد، دونوں فریقین نے دس مئی تک ایک ہزار ایک سو بانوے چھوٹے جزیروں کے ملک سے نواسی بھارتی فوجیوں اور ان کے معاون عملے کا انخلا مکمل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

میہارو اخبار کے مطابق انخلا کے اس عمل میں تین بھارتی طیارے دو ہیلی کاپٹر اور ایک فکسڈ ونگ طیارہ جو انڈین سویلین عملہ چلائے گا نے حصہ لیا۔

تاہم اس حوالے سے مالدیپ یا بھارتی حکام کی طرف سے کوئی باضابطہ تصدیق نہیں ہوئی، لیکن میہارو اخبارکے مطابق مالدیپ کی قومی دفاعی فورس نے تصدیق کی ہے کہ بھارتی فوجیوں کاانخلاء شروع ہو گیا۔

گزشتہ ہفتے، مالدیپ نے چین کے ساتھ ”فوجی امداد‘‘ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ ایسے وقت میں جب بھارتی فوجی وہاں سے نکلنے کے لیے تیار تھے، مالدیپ کی وزارت دفاع نے کہا کہ یہ معاہدہ ”مضبوط دوطرفہ تعلقات‘‘ کو فروغ دینے کے لیے تھا اور چین اس معاہدے کے تحت اپنے عملے کو تربیت دے گا۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بِن نے منگل کو بیجنگ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم مالدیپ کی علاقائی خودمختاری کے تحفظ کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم مالدیپ کی آزادی اور خود مختاری کی بنیاد پر تمام فریقوں کے ساتھ دوستانہ تبادلے اور تعاون کو فروغ دینے کی بھی حمایت کرتے ہیں۔‘‘

بھارت کو بحر ہند میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی اور مالدیپ کے ساتھ ساتھ پڑوسی ملک سری لنکا میں بھی اس کے اثر و رسوخ پرتشویش ہے۔

اپنے سفید ریت کے ساحلوں کے لیے مشہوریہ جزیرہ نما جہاں معیشت کی تقریباً ایک تہائی حصہ سیاحت کی بدولت ہے، اسٹریٹیجک طور پر مشرق و مغرب کے بین الاقوامی جہاز رانی کے اہم راستوں کے آدھے حصے پر محیط ہے۔

ستمبر میں معیزو کے انتخابات جیتنے کے بعد سے مالدیپ اور نئی دہلی کے درمیان تعلقات سرد پڑ گئے۔ نئی دہلی بحر ہند کے جزیرہ نما کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرے میں سمجھتا ہے، لیکن مالدیپ چین کے مدار میں چلا گیا ہے۔ جواس کا سب سے بڑا بیرونی قرض دہندہ ہے۔

معیزونے جنوری میں بیجنگ کے دورے کے موقع پر بنیادی ڈھانچے، توانائی، سمندری اور زرعی معاہدوں پر دستخط کیے تھے، وہ اس سے قبل علاقائی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے چینی افواج کو بھارتی فوجیوں کی جگہ لانے کی تردید کرچکے تھے۔

بھارت نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ وہ مالدیپ کے شمال میں تقریباً ایک سو تیس کلو میٹرکے فاصلے پر اپنے اہم ”لکشدیپ جزائر پر اپنی بحری افواج کو مظبوط کررہا ہے ۔

بھارتی بحریہ نے کہا کہ منی کاؤے جزیرے پر قائم انڈین بحریہ کا یونٹ علاقے کی ”آپریشنل نگرانی‘‘ کو فروغ دے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں