افغانستان کے ساتھ مسلح تصادم نہیں چاہتے، وزیرِ دفاع خواجہ آصف

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ان کا ملک پڑوسی افغانستان کے ساتھ مسلح تصادم نہیں چاہتا۔ انہوں نے یہ بات ایک ایسے وقت کہی ہے جب اسلام آباد نے رواں ہفتے سرحد پار افغانستان میں دہشت گردوں کے مبینہ ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے تھے۔

“طاقت آخری چارہ کار ہے۔ ہم افغانستان کے ساتھ مسلح تصادم نہیں چاہتے،” آصف نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا۔

تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ اسلام آباد اس راہداری کو بند کر سکتا ہے جو وہ خشکی سے گھرے ہوئے افغانستان کو بھارت کے ساتھ تجارت کے لیے فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو حق حاصل ہے کہ اگر کابل افغان سرزمین پر سرگرم پاکستان مخالف دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہتا ہے تو وہ انہیں یہ سہولت فراہم کرنا بند کر دے۔

انہوں نے کہا، “اگر افغانستان ہمارے ساتھ دشمن جیسا سلوک کرتا ہے تو ہم انہیں تجارتی راہداری کیوں فراہم کریں؟”

پیر کے روز، پاکستان نے کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان اور اس سے منسلک تنظیموں کو نشانہ بنانے کے لیے افغانستان کے اندر سرحد کے ساتھ “انٹیلی جینس پر مبنی انسداد دہشت گردی” کی کارروائیوں کی تصدیق کی تھی۔

یہ حملے ہفتے کے روز پاکستان کے سرحدی ضلع شمالی وزیرستان میں ایک ریجنل فوجی اڈے پر باغیوں کے حملے میں دو افسروں سمیت سات فوجیوں کی ہلاکت کے بعد کیے گئے تھے۔

پاکستان کا الزام ہے کہ تحریک طالبان پاکستان، یا ٹی ٹی پی سے منسلک جنگجوؤں اور اس کی حمایت کرنے والے گروپوں کی افغانستان میں پناہ گاہیں ہیں۔

اقوام متحدہ کے انٹیلیجینس کےجائزے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کے مطابق افغان طالبان کے کچھ عہدہ دار اس کی صفوں میں شامل ہیں۔

خواجہ آصف نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مزید کہاکہ “ایک پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے کہ یہ چیز [سرحد پار دہشت گردی] بہت بڑھ چکی ہے،”

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کابل میں ڈی فیکٹو حکمرانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ “ہم اسے اس طرح جاری نہیں رکھ سکتے۔”

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہسامنے آیا ہے۔ افغان طالبان نے ابتدائی طور پر پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی ثالثی کی تھی، لیکن پھر نومبر 2022 میں یک طرفہ طور پر جنگ بندی ختم کر دی گئی۔ اس کے بعد سے، پاکستان نے افغانستان کی سرحد سے متصل خیبر پختونخواہ اور بلوچستان صوبوں میں بنیادی طور پر فوجی اور سکیورٹی اہل کاروں کے خلاف حملوں میں ڈرامائی اضافہ دیکھا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں ٹی ٹی پی کے 5 ہزار سے سے 6 ہزار جنگجو موجود ہیں۔ تقریباً ایک دہائی قبل دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے پاکستان کی جانب سے قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کے بعد انھوں نے سرحد پار پناہ لی تھی۔

عسکریت پسند گروپ نے کابل میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف 20 سالہ جنگ میں افغان طالبان کو میدان جنگ میں بھی مدد فراہم کی تھی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ فروری 2023 میں کابل کے دورے میں، انہوں نے طالبان وزراء سے کہا تھا کہ وہ ٹی ٹی پی کے ماضی کے احسانات کی وجہ سے کابل کے ہاتھ نہ باندھیں۔

انہوں نے کہا “اگر انہوں نے [ٹی ٹی پی] نے آپ پر احسان کیا ہے اور آپ ان کے شکر گزار ہیں، تو ان پر قابو رکھیں۔ انہیں اپنے ملک میں رہتے ہوئے ہمارے ساتھ جنگ شروع نہ کرنے دیں، آپ ان کے اتحادی نہ بن جائیں ۔

طالبان پاکستان مخالف دہشت گردوں کو پناہ دینے کی تردید کرتے ہیں۔ پیر کے حملوں پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، جن میں کابل کے مطابق مبینہ طور پر آٹھ شہری مارے گئے تھے، طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سنگین نتائج سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ۔ پاکستان کو اپنی سرزمین پر کنٹرول کی کمی، نااہلی اور مسائل کے لیے افغانستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔

مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ اس طرح کے واقعات کے بہت برے نتائج ہو سکتے ہیں، جو پاکستان کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے۔

طالبان کی وزارت دفاع نے بعد میں اس کی تصدیق کی کہ اس کی سیکیورٹی فورسز نے پاکستانی ٹھکانوں کو “بھاری ہتھیاروں” سے نشانہ بنایا۔

منگل کے بعد سے، 2,600 کلومیٹر طویل سرحد (1,616 میل) پر ایک خاموش تناؤ برقرار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ طالبان کے پاس پاکستان پر حملہ کرنے کی فوجی طاقت نہیں ہے، لیکن اسلام آباد کی طرف سے جارحیت بڑھنے کی صورت میں افغان طالبان غیر روایتی طریقے استعمال کر سکتے ہیں، جس میں پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کی فعال حمایت کرنا بھی شامل ہے۔

خواجہ آصف نے یہ امید ظاہر کرتے ہوئے کہ افغانستان ٹی ٹی پی کو قابو میں رکھنے کا “واحد مطالبہ” پورا کرے گا اور مستقبل میں پاکستان سے فوجی حملوں کی ضرورت کو روکے گا، کہا “اگر وہ ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں، تو ہم (جوابی کارروائی کرنے پر) مجبور ہو جائیں گے۔”

وزیر دفاع نے الزام لگایا کہ کابل ٹی ٹی پی کو پاکستان کے اس لیے خلاف کام کرنے دے رہا ہے تاکہ اس کے ارکان کو دہشت گرد تنظیم داعش کے مقامی گروپ میں شامل ہونے سے روکا جا سکے، جسے عام طور پر آئی ایس۔خراسان کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ گروپ افغانستان کے لیے اندرونی سلامتی کا ایک بڑا خطرہ ہے۔ پیر کے حملوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے، امریکہ کے محکمہ خارجہ نے پاکستان اور افغان طالبان پر زور دیا کہ وہ اختلافات دور کرنے کے لیے اقدامات کریں۔

نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پیر کو ایک باقاعدہ پریس بریفنگ کے دوران میڈیا کو بتایا، “ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گرد حملے شروع نہ ہوں، اور ہم پاکستان سے تحمل سے کام لینے اور اس بات کو یقینی بنانے کی اپیل کرتے ہیں کہ ان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔”

پاکستان کے سب سے بڑے اتحادی چین نے سرحد پار لڑائی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ آصف نے بیجنگ کی جانب سے عوامی حمایت کی کمی کو مسترد کرتے ہوئے کہا۔ “یہ ضروری نہیں کہ دنیا ہماری تعریف کرے۔ جو ہمارے مفاد میں ہے وہی ہمارے لیے کافی ہے۔ ہم اپنے مفاد کا تحفظ کر رہے ہیں، قطع نظر اس کے کہ کوئی اسے سراہتا ہے یا نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں