نیٹو کی تباہ کن بمباری جو یورپ اور عراق میں نئی جنگوں کا جواز بنی

لندن (ڈیلی اردوو/بی بی سی) یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کی سرزمین پر سب سے بڑا فوجی آپریشن تھا۔

یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پیشگی منظوری کے بغیر پہلی بین الاقوامی مداخلت بھی تھی، جس نے چار سال بعد عراق پر امریکی حملے کا جواز پیش کیا۔ اسے روسی صدر ولادیمیر پوتن بھی یوکرین اور جارجیا پر اپنے حملوں کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

24 مارچ 1999 کو کوسووہ میں البانوی شہریوں کے پُرتشدد جبر اور قتل عام کو روکنے کی متعدد سیاسی کوششیں ناکام ہونے کے بعد آج سے 25 سال قبل نیٹو نے اس وقت کے یوگوسلاویہ کے خلاف 78 روزہ فضائی مہم کا آغاز کیا۔

نیٹو کی فضائی کارروائیوں کے سربیا، کوسووہ اور مونٹی نیگرو میں فوجی مقاصد تھے جبکہ اس سے اہم بنیادی سول تنصیبات کو تقصان پہنچا۔

بلغراد کے حکام کے مطابق کم از کم 2,500 افراد ہلاک اور 12,500 زخمی ہوئے تھے لیکن ہلاکتوں کی صحیح تعداد ابھی تک واضح نہیں ہے۔

ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ فضائی حملوں میں 500 کے قریب شہری مارے گئے۔

بم دھماکوں کے دوران 300,000 سے زیادہ البانوی کوسووہ سے فرار ہو گئے اور انھوں نے پھر پڑوس میں شمالی مقدونیہ اور البانیہ میں پناہ حاصل کی۔

بم دھماکے جون 1999 میں ختم ہوئے جب سربیا کے رہنما سلوبودان میلوشویچ نے ایک امن معاہدہ قبول کیا جس میں کوسووہ سے اپنی افواج کے انخلا اور ان کی جگہ نیٹو کے امن برقرار رکھنے والے فوجی دستوں کی تعیناتی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

25 سال بعد نیٹو اب بھی کوسووہ میں موجود ہے۔ تقریباً 5,000 فوجی موجود ہیں جو اکثر کوسووہ کی سکیورٹی فورسز اور سربیائی اقلیت کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی منظوری کا فقدان

کوسووہ کے بحران کے سیاسی حل تک پہنچنے میں برسوں کی سفارتی ناکامیوں کے نتیجے میں 1999 میں ایک اور ناکام کا سامنا کرنا پڑا۔

مغربی اتحادیوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فوجی کارروائی کے لیے اکثریتی حمایت حاصل کرنے میں ناکام ہوئے۔ وہ سلامتی کونسل میں روسی اور چینی ویٹو سے بچنے میں بھی ناکام ہوئے۔

اس وقت نیٹو کے ترجمان جیمی شی نے دعویٰ کیا تھا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کے ارکان کی اکثریت نے درحقیقت نیٹو کی مداخلت کی حمایت کی ہے۔

شی نے بی بی سی سربیا کو بتایا ’ایسا نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کی کوئی منظوری نہیں تھی۔ روس کی کوئی منظوری نہیں تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ مہم ایک انسانی ہمدردی کی مداخلت تھی۔

انھوں نے کہا ’یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور شہریوں کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا تاکہ کوسووہ کی البانوی آبادی کو کوسووہ میں رہنے کی اجازت دی جا سکے۔‘

اگرچہ روس نے مشترکہ موقف اپنانے کی اقوام متحدہ کی تمام کوششوں کو روک دیا تاہم اس نے اپنی فوجی مداخلتوں کے جواز کے طور پر نام نہاد ’کوسووہ کی مثال‘ کو تیزی سے اپنا لیا۔

لیسٹر کی ڈی مونٹفورٹ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر کینتھ موریسن نے کہتے ہیں ’فروری 2008 میں، روس نے جارجیا پر حملہ کیا اور بہانا یہ بنایا کہ وہ جنوبی اوسیتیا کے الگ ہونے والے صوبے میں روسی بولنے والوں کو جارجیائی فوج سے بچانا چاہتے ہیں۔‘

موریسن نے مزید کہا کہ 2022 میں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو یہی بہانہ استعمال کیا گیا تھا۔ حالانکہ سوویت یونین کے خاتمے کے فوراً بعد کچھ واقعات نے اسی سمت اشارہ کیا تھا۔

ایک سیاسی تجزیہ کار الیگزینڈر جوکچ نے کہا ’روس کی طرف سے 1992 اور 1993 میں مالڈووا اور جارجیا میں فوجی کارروائیوں کا جواز بھی جنگی جرائم کے خلاف شہریوں کا تحفظ تھا۔‘

وہ کہتے ہیں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نیٹو نے بھی روس سے کچھ سبق سیکھے ہیں لیکن روس کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا۔ پوتن ہر کسی کو ‘کوسووہ کی مثال’ کی مسلسل یاد دلاتے ہیں۔

طویل مدتی اثرات

نیٹو کی یوگوسلاویہ پر بمباری کے طویل مدتی نتائج سامنے آئے جو اس براعظم تک محدود نہ رہے۔

موریسن کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے بقول یہ ثبوت تھا کہ ظالم ریاستوں سے لوگوں کو ’آزاد‘ کرایا جاسکتا ہے۔ ’ان کا ماننا تھا کہ طاقت کے استعمال سے انسانی حقوق پر عملدرآمد کرایا جاسکتا ہے مگر اس خیال نے عراق میں تباہی مچا دی۔‘

ایک اندازہ ہے کہ ایک لاکھ سربیئن شہری بلغراد کی مدد سے کوسووہ میں رہے۔ وہ ملک کی آزادی کو مسترد کرتے ہیں۔

موریسن نے کہا کہ نیٹو کی بمباری نے اہم نشانی چھوڑی۔ اکتوبر 2000 میں یہ سلوبودان میلوشویچ کے زوال میں اہم عوامل تھا۔‘

’2008 میں اس نے کوسووہ کی آزادی کی راہ ہموار کی اور بین الاقوامی برادری میں اسے تسلیم کرنے پر تقسیم پیدا ہوئی۔‘

’کوسووہ اور سربیا کے درمیان تناؤ بڑھا ہے۔ اس کے باوجود کہ یورپی یونین اور امریکہ نے تعلقات بحال کرانے کی کوشش کی۔‘

سربیا نے کہا ہے کہ وہ کوسووہ کی آزادی تسلیم نہیں کرے گا اور یہ اسے اقوام متحدہ کا رکن بننے بھی نہیں دے گا۔ اس مؤقف کی روس اور چین کی جانب سے حمایت کی جاتی ہے۔

سلووینیا اور کروشیا نے پہلے ہی یورپی یونین میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ سربیا اور کوسودہ کے لیے یہ عمل خاصہ پیچیدہ ہے اور یہ اس پر منحصر ہے کہ دونوں کیسے اپنے تعلقات بحال کرتے ہیں۔

بلغراد اور پریشتینا کے لیے درمیان تعلقات یورپی یونین کی ممبرشپ کی شرط ہے۔

سربیا نے نیوٹرل فوجی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ اس نے امن معاہدے کے تحت نیٹو کے ساتھ شراکت قائم کی تھی۔

نیٹو کی بمباری کی وجہ کیا تھی؟

سابق سوشلسٹ ملک یوگوسلاویہ 1990 میں خانہ جنگی سے متاثر ہوا تھا۔ ایک زمانے میں یہاں مختلف برادریوں امن کے ساتھ رہتی تھیں۔

اس کی چھ ریاستیں الگ ہوگئیں۔ سلوبودان میلوشویچ کے دور میں سربیئن صوبے کوسووہ میں تناؤ سنگین ہوگیا اور آزاد ریاست کے قیام کے لیے دباؤ بڑھنے لگا۔

اکثر سربیئن کوسووہ کو اپنی قوم کی جائے پیدائش سمجھتے ہیں مگر یہاں 92 فیصد البانوی شہری آباد ہیں۔ 1998 میں کوسووہ لبریشن آرمی کے البانوی گوریلا جنگجوؤں اور سربیئن سکیورٹی فورسز کے درمیان تناؤ کشیدہ ہوا اور جھڑپیں ہونے لگیں۔

عالمی برداری نے بلغراد اور پریشتینا کے درمیان ثالثی کی کوشش کی تاکہ جنگ کے خدشے کو دور کیا جاسکے۔ فرانس میں آخری مذاکرات کی کوشش ہوئی جب جنوری 1999 میں 44 البانوی شہریوں کا قتل ہوا۔

عالمی دباؤ کے باوجود مذاکرات ناکام رہے۔ بلغراد نے امن معاہدے کو مسترد کرتے ہوئے فورسز کے انخلا اور کوسووہ میں نیٹو کی قیادت میں فوجی تعیناتی کی بات کی۔

متنازع اہداف

24 اپریل 1999 میں نیٹو نے سرکاری چینل آر ٹی ایس کی عمارت پر میزائل داغے جس میں 16 افراد ہلاک ہوئے۔

نیٹو اتحاد نے یہ کہہ کر اس حملے کا دفاع کیا کہ آر ٹی ایس پروپیگنڈا کر رہا تھا۔ بلغراد نے اسے مجرمانہ کارروائی قرار دیا۔

7 مئی کو سربیئن فوج کے صدر دفتر اور وزارت داخلہ کی عمارت کو بمباری سے زمین بوس کر دیا گیا۔ بلغراد میں چینی سفارتخانے پر بھی میزائل گرائے گئے جس میں تین چینی صحافی ہلاک ہوئے۔

بمباری 10 جون 1999 کو ختم ہوئی جب بلغراد کے زیرِ اثر فورسز کے کوسووہ سے انخلا کا معاہدہ ہوا۔ اس طرح 36 ہزار نیٹو پیس کیپرز کو تعینات کیا گیا۔

سنہ 2000 میں سلوبودان میلوشویچ کی حکومت گرا دی گئی۔

دو سال بعد عالمی عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ شروع ہوا جہاں ان پر جنگی جرائم کے قوانین کے تحت 66 الزام عائد کیے گئے۔

سزا دیے جانے سے قبل 2006 میں ان کی وفات ہوگئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں