افغان صوبے غزنی میں بارودی سرنگ پھٹنے سے 9 بچے ہلاک

کابل (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان کے صوبے غزنی کےضلع گیرو میں بارودی سرنگ کے دھماکے میں کم از کم نو بچے ہلاک ہو گئے۔

افغانستان میں طالبان حکام نے پیر کو کہا کہ رات کے وقت ہونے والے بارودی سرنگ کے ایک دھماکے میں کم از کم 9بچے ہلاک ہو گئے۔

صوبائی حکومت کے ایک ترجمان نے کہا کہ “نہ پھٹنے والی وہ بارودی سرنگ” ماضی کے تنازعات کی باقیات تھی جو اتوار کو اس وقت پھٹی جب صوبےغزنی کے ضلع گیرو میں نو عمر بچے بچیوں کا ایک گروپ اس کے ساتھ کھیل رہا تھا۔

حمید اللہ نثار نے دعویٰ کیا کہ وہ 1980 کی دہائی میں افغانستان پر روسی حملے کے وقت کی ایک بچی ہوئی بارودی سرنگ تھی ۔

کابل میں اقوام متحدہ نے پیر کو کہا کہ افغانستان میں خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں شہری بارودی سرنگوں اور جنگ کی بچے کھچے دھماکہ خیز مواد سے ہلاک یا زخمی ہوچکے ہیں۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر جو پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، ایک پوسٹ میں اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عشروں کے تنازعات سے دوچار افغان شہریوں کی حفاظت کے لیے “مزید کام” کی ضرورت ہے، ادارے نےلکھاکہ اقوام متحدہ کے شراکت داروں نے 3011 کلومیٹر تک زمین صاف کر دی ہے ۔

گزشتہ سال انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس ، ICRC کی شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں، تنازع سے متاثر ہ اس غریب ملک میں “ہتھیاروں کی آلودگی کے مسئلے سے نمٹنے” کی کوششوں میں اضافے کی فوری ضرورت کو اجاگر کیا گیا تھا۔

آئی سی آر سی نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ،” جنوری 2022 سے جون 2023 کے درمیان لینڈ لائن دھماکوں اور بچے کھچے دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے کے 541 واقعات میں 640 بچے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ ”

امریکہ نے آخری بار اُنکا استعمال 1991 میں خلیج کی جنگ کے دوران اور ایک بار 2002 میں افغانستان میں کیا تھا۔

امریکہ کی جانب سے 1991 کی خلیج جنگ کے بعد سے بڑے پیمانے پر بارودی سرنگوں کا استعمال نہیں کیا گیا

گزشتہ سال امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک ٹیلی کانفرنس میں بات کرتے ہوے وزارت کے سینئر عہدہ دار سٹینلی براون نے بتایا کہ امریکہ کے پاس تقریبا تیس لاکھ بارودی سرنگیں موجود ہیں، جبکہ آخری بار امریکہ نے اُنکا استعمال 1991 میں خلیج کی جنگ کے دوران اور ایک بار 2002 میں افغانستان میں کیا تھا۔

پاکستان میں بارودی سرنگوں سے زخمی ہونے والوں کے علاج کا مرکز

افغان جنگ کے دوران زخمیوں کے علاج کے لیے جرمنی اور جاپان سمیت دیگر کئی ممالک اور اقوامِ متحدہ کے اداروں کے تعاون سے پشاور، کوئٹہ، ڈیرہ اسمٰعیل خان اور دیگر شہروں میں طبی مراکز اور اسپتال قائم کیے گئے تھے۔

افغان جنگ کے خاتمے کے بعد بیشتر ممالک نے ان اسپتالوں اور طبی مراکز کے انتظام حکومتِ پاکستان کے سپرد کر دیا۔ ان طبی اداروں میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پروستھیٹک اینڈ آرتھوٹیک سائنسز (پی آئی پی او ایس) بھی شامل ہے، جہاں بم دھماکوں، سڑک حادثات اور دیگر وجوہات کے باعث معذور ہونے والے افراد کے علاج کے ساتھ ساتھ انہیں مصنوعی اعضا بھی لگائے جاتے ہیں۔

پی آئی پی او ایس کے مطابق اس ادارے نے گزشتہ ایک عشرے کے دوران لگ بھگ ایک لاکھ افراد کو مصنوعی اعضا فراہم کیے ہیں جن میں سے 70 فی صد افراد وہ تھے جو بارودی سرنگوں اور بم دھماکوں کا نشانہ بنے تھے۔

پی آئی پی او ایس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر لیاقت علی ملک کے مطابق زیادہ تر معذور افراد کا تعلق قبائلی اضلاع سے ہے۔ اور ان میں بھی اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

زخمی اور ہلاک ہونے والوں میں سب سے زیادہ تعداد میں بچے

اقوام متحدہ کے ادارے، مائین ایکشن سروس (یو این ایم اے ایس) کے مطابق، سال 1988ء سے اب تک بچھی ہوئی بارودی سرنگوں اور گولہ بارود کی زد میں آ کر ہزاروںافغان سویلین ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں۔ ان میں سے دو تہائی تعداد بچوں کی ہے، جنھوں نے کھیلتے ہوئے کوئی شے اٹھائی، دھماکہ ہوا اور وہ اس کی زد میں آ گئے۔

سال 1997ء میں بارودی سرنگوں کا بے جا استعمال کو روکنے سے متعلق ایک بین الاقوامی معاہدہ طے ہوا، جس کنویشن کی افغانستان نے 2002ء میں توثیق کی۔ ماہرین کے مطابق، تب سے ملک کے وسیع علاقے پر بارودی سرنگوں کی صفائی کا کام جاری رہا ہے جو ابھی تک نہیں رکا۔

افغانستان میں ایک غیر سرکاری ادارہ ‘ہالو ٹرسٹ 1988 سے ملک میں بارودی سرنگوں کی صفائی کا کام کر رہا ہے۔ اس کےرضاکار بھی حملوں کی زد میں آچکے ہیں۔ اور ان کے کیمپ پر ایک حملے میں 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

یہ غیر سرکاری تنظیم صرف افغانستان میں ہی امور انجام نہیں دے رہی بلکہ دنیا کے دیگر خطوں جن میں افریقہ، یورپ، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی امریکہ کے ممالک شامل ہیں، میں جنگ کے بعد بارودی سرنگوں اور دیگر دھماکہ خیز خطرناک مواد کو ناکارہ بنانے کا کام سر انجام دیتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں