بنگلہ دیش: ’ہم بھی اب مسجد میں آزادانہ نماز ادا کر سکیں گے‘، ٹرانس جینڈر کمیونٹی

ڈھاکا (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اے ایف پی) دارالحکومت ڈھاکہ کے شمال میں دریائے برہم پترا کے کنارے میمن سنگھ کے قریب ٹرانس جینڈرافراد کے لیے قائم یہ پہلی مسجد، حکومت کی طرف سے عطیہ کردہ زمین پر تعمیر کی گئی ہے۔

بنگلہ دیش کی ٹرانس جینڈر کمیونٹی، جنہیں عام طور پر مساجد میں آزادانہ نماز کی اجازت نہیں ہوتی، اب اس مسلم اکثریتی ملک میں ان کے لیے قائم کی گئی ایک نئی مسجد میں بلا تفریق عبادت کرسکے گی۔

ٹن سے بنی چھت اور ایک کمرے پر مشتمل یہ سادہ سی مسجد ٹرانس جینڈر افراد کے لیے ایک نیا کمیونٹی مرکز ہے۔ یہ کمیونٹی حالیہ برسوں میں قانونی اور سیاسی طور پر اپنی پہچان تو حاصل کرتی رہی ہے، تاہم اس کے باوجود تعصب کا شکار ہے۔

کمیونٹی لیڈر جوئیتا ٹونو نے بھری جماعت سے ایک تقریر میں کہا، ”اب سے، کوئی بھی ہیجڑے کو ہماری مسجد میں نماز پڑھنے سے نہیں روک سکتا۔” 28 سالہ ٹرانس جینڈر نے مزید کہا۔ “کوئی بھی ہمارا مذاق نہیں اڑا سکتا۔”

دارالحکومت ڈھاکہ کے شمال میں دریائے برہم پترا کے کنارے میمن سنگھ کے قریب یہ مسجد، حکومت کی طرف سے عطیہ کردہ زمین پر تعمیر کی گیی ہے۔ بنگلہ دیش میں شہر کی ٹرانس جینڈر برادری کو دوران جماعت مسجد سے نکالے جانے کا واقعہ بھی پیش آچکا ہے۔

اب اس مسجد میں عبادت کے لیے آنے والے ٹرانس جینڈر افراد انتہائی خوش ہیں، 42 سالہ سونیا جو بچپن میں قرآن کی تلاوت کرنا پسند کرتی تھیں اور ایک اسلامی مدرسے میں پڑھتی تھیں نے کہا، “میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں اپنی زندگی میں دوبارہ کسی مسجد میں نماز پڑھ سکوں گی۔” سونیا جب ٹرانس جینڈر کے طور پر معاشرے کے سامنے آئیں تو انہیں مسجد میں نماز پڑھنے سے روک دیا گیا تھا۔

انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ “لوگ ہم سے کہتے آپ ٹرانس جینڈر ہیں یہاں مسجدوں میں نہیں آپ کو گھر میں نماز پڑھنی چاہیے، مساجد میں مت آئیں۔”

انہوں نے مزید کہا، “ہمارے لیے یہ توہین آمیز سلوک تھا، اسی لیے ہم مسجد میں نہیں جاتے تھے۔ اب یہ ہماری مسجد ہے، اب کوئی ہم سے ایسا نہیں کہہ سکتا۔”

بنگلہ دیش میں ٹرانس جینڈر افراد کو دوہزار تیرہ سے تیسری جنس کے طور پر قانونی شناخت حاصل ہے۔ کئی ٹرانس جینڈر افراد سیاست میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔ ایک ٹرانس جینڈر خاتون دوہزار اکیس میں قصبے کی مئیر بھی منتخب ہوئی تھیں۔ لیکن اس کے باوجود ابھی بھی ٹرانس جینڈر کمیونٹی بنیادی شناخت اور قبولیت کے لیے جدوجہد کررہی ہے ۔ ان کے لیے جائیداد اور شادی کے حقوق کے حوالے سے ابھی بھی کام نہیں ہوا۔

انہیں ملازمت میں بھی اکثر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹرانس جینڈر افراد کے ایک اوسط بنگلہ دیشی کے مقابلے میں پرتشدد جرائم اور غربت کا شکار ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ سخت گیر اسلام پسند گروپ بھی ٹرانس جینڈر کمیونٹی کی بنگلہ دیشیوں کی شناخت کے طور شدید تنقید کرتے رہے ہیں۔

ٹرانس جینڈرافراد کی ایک فلاحی تنظیم کے بانی مفتی عبدالرحمن آزاد نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ نئی مسجد بنگلہ دیش میں اپنی نوعیت کی پہلی مسجد ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک اور شہر میں اسی طرح کی ایک کوشش کا منصوبہ گزشتہ ماہ مقامی لوگوں کے احتجاج کے بعد روک دیا گیا تھا۔

اس ماہ کھولی جانے والی اس مسجد کی تعمیر کے لیے درجنوں مقامی ٹرانس جینڈر افراد نے وقت دیا اور رقم عطیہ کی، جس میں ایک قبرستان بھی ہے۔ گزشتہ برس ایک مقامی مسلم قبرستان نے ایک نوجوان ٹرانس جینڈر کو وہاں دفن کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

مسجد کے پینسٹھ سالہ امام عبدالمطلب نے کہا کہ ٹرانس جینڈر افراد پر ظلم و ستم ان کے عقیدے کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ، “وہ اللہ کے بنائے ہوئے دوسرے لوگوں کی طرح ہیں۔ ہم سب انسان ہیں، شاید کچھ مرد ہوں، کچھ عورتیں، لیکن سب انسان ہیں۔ اللہ نے قرآن پاک سب کے لیے نازل کیا، اس لیے ہر ایک کو نماز پڑھنے کا حق ہے، کسی کو انکار نہیں کیا جا سکتا۔”

عبدالمطلب نے مزید کہا کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کا عقیدہ اور ایمان بہت مضبوط ہے دیگر لوگ بھی اس سے سیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب سے “میں یہاں اس مسجد میں آیا ہوں، میں ان کے کردار اور عمل سے بہت متاثر ہوا ہوں۔”

مقامی رہائشی 53 سالہ توفضل حسین نے مسلسل دوسرے ہفتے وہاں جمعہ کی نماز ادا کی۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے ساتھ رہنے اور نماز پڑھنے سے ان کے بارے میں ان کے “غلط تصورات” بدل گئے ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب وہ ہمارے ساتھ رہنے لگے تو بہت سے لوگوں نے بہت سی باتیں کہیں۔ “لیکن ہم نے محسوس کیا ہے کہ لوگ جو کہتے ہیں وہ صحیح نہیں ہے۔ وہ دوسرے مسلمانوں کی طرح نیک زندگی گزارتے ہیں۔”

ٹونو کو امید ہے کہ اس سادہ اور چھوٹی سی مسجد کو اتنا بڑا بنایا جائے گا کہ یہاں زیادہ سے زیادہ لوگوں کی گنجائش ہو سکے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، “انشاءاللہ، ہم یہ بہت جلد کر لیں گے۔ اور یہاں سینکڑوں لوگ ایک ساتھ نماز پڑھ سکیں گے ۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں