اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کی جائے، اقوام متحدہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/رائٹرز/ڈی پی اے) اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا غزہ میں جاری جنگ کے چھ ماہ مکمل ہونے سے دو دن قبل پہلی بار اس بارے میں موقف سامنے آیا ہے۔ اس کا مقصد غزہ میں فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں مدد کرنا ہے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) نے اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت اور ترسیل پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انسانی حقوق کے اس اعلیٰ ترین ادارے نے یہ مطالبہ آج جمعے کے روز منظور کی گئی ایک قرارداد میں کیا۔

یہ مطالبہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت یا ترسیل کرنے والے ممالک سے کیا گیا ہے اور اس کا مقصد غزہ میں اسرائیل کی فوجی مہم کے دوران فلسطینیوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں مدد کرنا ہے۔

47 رکنی انسانی حقوق کونسل میں اس قرارداد کے حق میں اٹھائیس اور مخالفت میں چھ ووٹ ڈالے گئے جبکہ تیرہ اراکین ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہے۔

اس قراداد میں اسرائیل کی جانب سے غزہ میں پانی تک رسائی میں رکاوٹ ڈالنے اور فلسطینی علاقوں میں انسانی امداد کی ترسیل محدود کرنے جیسے اقدامات روکنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ آزاد تفتیش کاروں سے بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ہتھیاروں، گولہ بارود اور “دوہرے استعمال” والی ایسی اشیا کی ترسیل کے بارے میں رپورٹ کریں، جنہیں اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف سول اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

اس قراداد کی پابندی ضروری نہیں ہے۔ تاہم اس قراداد پر مغربی ممالک منقسم ہو گئے۔ امریکہ، جرمنی اور بعض دیگر مغربی ممالک نے اس قرارداد کی مخالفت کی جبکہ کئی غیر حاضر رہے اور کچھ یورپی ممالک نے اس قراداد کےحق میں ووٹ دیا۔

اسرائیل یو این ایچ آر سی کو اس کے مبینہ اسرائیل مخالف تعصب پر باقاعدگی سے تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ کونسل نے اسرائیل کے خلاف گذشتہ برسوں میں فلسطینیوں کے خلاف کیے گئے اقدامات کے لیے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ قراردادیں منظور کی ہیں۔

جینیوا میں قائم یہ کونسل رواں سال کے اپنے پہلے اجلاس کو سمیٹ رہی ہے، جس کا آغاز 26 فروری کو ہوا تھا۔

اسرائیل کی غزہ میں سات اکتوبر کے بعد سے جاری فوجی مہم کی وجہ سے تقریباً 33,000 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔اسرائیل نے یہ حملے فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے دہشت گردانہ حملوں کے جواب میں شروع کیے تھے۔

غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائیوں پر واشنگٹن کی بڑھتی ہوئی بے صبری کے ایک اظہار کے طور پر امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو سخت انتباہ جاری کیا کہ اسرائیل کی غزہ جنگ کے لیے مستقبل میں امریکی حمایت کا انحصار اسرائیل کی جانب سے غزہ میں شہریوں اور امدادی کارکنوں کے تحفظ کے لیے نئے اقدامات پر تیزی سے عمل درآمد پر ہے۔

یہ پہلا موقع تھا جب بائیڈن نے دھمکی دی کہ اگر اسرائیل نے اپنی حکمت عملی تبدیل نہیں کی اور غزہ میں مزید انسانی امداد کی اجازت نہیں دی تو وہ اپنی حمایت پر نظر ثانی کرے گا۔

اسرائیل کا غزہ میں امداد کیلئے عارضی راستے کھولنے کا اعلان

اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے جمعہ کو اعلان کیا کہ اسرائیل کی سکیورٹی کابینہ نے غزہ میں مزید انسانی امداد کے داخلے کی اجازت دینے کے لیے ”فوری اقدامات‘‘ کی منظوری دی ہے۔ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 7 اکتوبر کے حماس کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد پہلی بار ایریز کراسنگ کو عارضی طور پر دوبارہ کھول دیا جائے گا۔ شمالی غزہ میں جانے والی یہ اہم کراسنگ فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے اسرائیل پر حملوں کے دوران تباہ ہو گئی تھی۔ اسرائیل نے یہ بھی کہا کہ وہ اشدود میں اپنی بندرگاہ کو غزہ کے لیے امدادی سامان براہ راست بھیجنے کی اجازت دے گا۔

نیتن یاہو کے دفتر سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق ”اس امداد میں اضافہ ایک انسانی بحران کو روکے گا اور یہ لڑائی کے تسلسل کو یقینی بنانے اور جنگ کے اہداف کے حصول کے لیے ضروری ہے۔‘‘ غزہ میں امداد کے داخلے کی اجازت دینے کا یہ اسرائیلی فیصلہ نیتن یاہو کے امریکی صدر جو بائیڈن سے فون پر بات کرنے کے بعد سامنے آیا۔ بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم پر زور دیا تھا کہ غزہ کے حوالے سے امریکی پالیسی کا تعین اس بات پر کیا جائے گا کہ آیا اسرائیل شہریوں کو پہنچنے والے نقصانات اور غزہ کی پٹی میں امدادی کارکنوں کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات پر عمل درآمد کرتا ہے۔

نیتن یاہو اور بائیڈن نے اسرائیلی فضائی حملے میں سات امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے دو دن بعد بات چیت کی تھی۔ ان ہلاک شدگان میں سے ایک کارکن دوہری امریکی-کینیڈین شہریت کا حامل تھا۔

دریں اثناء وائٹ ہاؤس نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں امداد کے نئے راستے تیزی سے کھولے جن کا اعلان جمعرات کو وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے کیا تھا۔ امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے ایک بیان میں کہا، “یہ اقدامات بشمول غزہ میں امداد کی براہ راست ترسیل کے لیے اشدود بندرگاہ کو کھولنے کا عزم، شمالی غزہ تک امداد کے لیے ایک نئے راستے کے لیے ایریز کراسنگ کو کھولنے اور اردن سے براہ راست غزہ تک ترسیل کو نمایاں طور پر بڑھانے سے متعلق ہیں اور انہیں اب مکمل طور پر اور تیزی سے نافذ کیا جائے۔”

اسرائیل غزہ میں ‘پی آر جنگ‘ ہار رہا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
سابق امریکی صدر نے اسرئیلی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ وہ جنگ ختم کر کے امن کی طرف لوٹے اور لوگوں کا قتل بند کرے۔ اسی دوران اسرائیل نے غزہ میں امداد لے جانے کے لیے بند کیے گئے راستے جزوی طور پر کھولنے کا اعلان کیا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کی غزہ میں جنگ کے طریقہ کار پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اس لڑائی میں تعلقات عامہ یعنی “پی آر جنگ بالکل ہار رہا ہے۔” جمعرات کو امریکی قدامت پسند ریڈیو کے میزبان ہیو ہیوٹ سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے اسرائیل پر زور دیا کہ وہ ”اسے ختم کرے اور امن کی طرف لوٹے اور لوگوں کا قتل بند کرے۔‘‘

سابق امریکی صدر نے مزید کہا، ”انہیں( اسرائیل کو) جو کچھ ختم کرنا ہے اسے وہ ختم کرے اور تیزی سے کرے، کیونکہ پھر آپ کو معمول اور امن کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ ٹرمپ نے اس اسرائیلی طریقہ کار پر بھی تنقید کی جس کے تحت اسرائیل غزہ میں اپنے اقدامات کی تشہیر کر رہا ہے۔

ٹرمپ نے کہا، ”مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اس کو پسند کرتا ہوں جو وہ کر رہے ہیں کیونکہ انہیں فتح حاصل کرنا ہوگی۔‘‘ وہ اسرائیلی تباہ شدہ عمارتوں کے سب سے گھناؤنے، سب سے خوفناک ٹیپ جاری کر رہے ہیں اور لوگ تصور کر رہے ہیں کہ ان عمارتوں میں بہت سے لوگ ہیں۔ لوگ اس احساس کو پسند نہیں کرتے۔‘‘

ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر جو بائیڈن کے خلاف آئندہ نومبر میں منعقد ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں ممکنہ طور پر ریپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے زبردست عوامی حمایتی رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں