جہلم: مدرسے کے 10 بچوں سے بدفعلی میں ملوث قاری عمران ضیاء قریشی گرفتار

جہلم (ڈیلی اردو) صوبہ پنجاب کے ضلع جہلم کی تحصیل دینہ میں مدرسے کے 10 بچوں سے زیادتی کے شرم ناک اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے، پولیس نے بچے کے والد کی شکایت پر مدرسے کے قاری کو گرفتار کرلیا۔

تفصیلات کے مطابق جمعہ کی رات متاثرہ طالبعلم کے والد محمد شہزاد نے پولیس کو اطلاع دی کہ ان کا 14 سالہ بیٹا عبدالرحمٰن جامعہ دارالقرآن کا طالب علم ہے اور قرآن حفظ کر رہا ہے۔

محمد شہزاد کے مطانق ان کے بیٹے کو گزشتہ اتوار کی شام مدرسے کے ایک کمرے میں استاد نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔

پولیس نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ متاثرہ طالب علموں کی عمریں 12 سے 18 سال کے درمیان ہیں۔ طالب علموں کو گزشتہ کئی ماہ سے ملزم قاری عمران ضیاء قریشی بدفعلی کا نشانہ بنارہا تھا۔

پولیس کے مطابق ملزم قاری عمران ضیاء قریشی رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں روزہ کی حالت میں بھی طالب علموں کو بدفعلی کا نشانہ بناتا رہا ہے۔

پولیس نے مزید بتایا کہ ملزم مدرسہ سے ملحقہ کمرے میں لے جا کر طالب علموں کو زیادتی کا نشانہ بناتا تھا اور یہ سلسلہ کئی روز سے جاری تھا۔

پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا، اور ملزم کے خلاف دفعہ 376 (3) اور 377 بی کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) جہلم ناصر محمود باجوہ نے تصدیق کی کہ ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے اور سینئر پولیس افسران کی ٹیم اس سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔

ڈیلی اردو کو ریجنل پولیس آفیسر (آر پی او) راولپنڈی بابر سرفراز الپا نے بتایا ہے کہ ملزم کو گرفتار کر لیا اور ہفتے کو متاثرہ بچوں کو طبی معائنے کے لیے ہسپتال لے جایا گیا تھا۔

بچوں کے تحفظ سے متعلق ادارے ‘ساحل’ کے مطابق گزشتہ برس جنوری سے جون تک چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے 2227 واقعات رپورٹ ہوئے۔ یوں ملک میں روزانہ اوسطاً 12 بچے جنسی زیادتی کا نشانہ بنے۔

‘ساحل’ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سے پانچ سال کی عمر کے بچوں کو بھی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق رشتے داروں، خاندان کے افراد اور قریبی جاننے والے افراد بچوں کے جنسی استحصال میں سب سے زیادہ ملوث ہیں۔

اعداد و شمار کے مطابق بچوں کے ساتھ زیادتی کے سب سے زیادہ کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ دیگر تمام صوبوں میں بھی بچوں سے زیادتی کے کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق سال 2022 میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کل 4253 رپورٹ کیے گئے کیسز میں سے 2271 یعنی 53 فی صد کیسز شہری علاقوں سے اور 1982 کیس یعنی 47 فی صد دیہی علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔

کل رپورٹ کیے گئے کیسز میں سے 89 فی صد پولیس میں درج کیے گئے تھے۔ جنسی زیادتی کے بعد قتل کے کل 81 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اغوا کے کل 1834 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 178 کیسز اغوا کے بعد جنسی زیادتی کے رپورٹ ہوئے۔ لاپتا بچوں کے کل 428 کیس رپورٹ ہوئے۔ بچوں کی جبری شادیوں کے 46 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں ایک لڑکے اور 45 لڑکیوں کے کیس تھے۔

ساحل کے لیگل سیکشن سے وابستہ امتیاز احمد سومرو ایڈووکیٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی ایک خاموش وبا ہے جس پر اکثر کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ پاکستان میں ہر 10 میں سے ایک بچہ اپنی 18 ویں سالگرہ تک اس کا شکار ہو چکا ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں