بلوچستان میں دہشت گردانہ حملے میں 9 مزدوروں سمیت 11 افراد ہلاک، بی ایل نے ذمہ داری قبول کرلی

کوئٹہ (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) پاکستانی صوبے بلوچستان میں مسلح افراد کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مزدورں سمیت گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے مطابق ان حملوں میں ملوث مشتبہ علیحدگی پسند عسکریت پسندوں کی تلاش جاری ہے۔

صوبائی پولیس کے مطابق چھ مسلح افراد نے جمعہ کی شب ضلع نوشکی میں ایک مسافر بس کو روک کر اس میں سوار لوگوں کے شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے نو مزدوروں کو اغوا کر لیا۔

ایک سینئر مقامی پولیس افسر اللہ بخش نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان اغوا کیے گئے افراد کی لاشیں بعد میں ہائی وے سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر پائی گئیں، جنہیں انتہائی قریب سے فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔

بخش نے کہا کہ بعد میں انہی حملہ آوروں نے ایک صوبائی رکن پارلیمنٹ کی کار پر فائرنگ کی۔ حملے کے وقت قانون ساز گاڑی میں نہیں تھے لیکن گاڑی کھائی میں گرنے سے دو افراد ہلاک ہو گئے۔

نوشکی ضلعی انتظامیہ کے سینئر اہلکار حبیب اللہ موسیٰ خیل نے اے ایف پی کو بتایا، ’’پولیس اور نیم فوجی دستوں نے حملہ آوروں کی گرفتاری کے لیے علاقے میں تلاشی شروع کر دی ہے۔ لیکن حملہ آور اس بار علاقے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔‘‘

انہوں نے ہلاکتوں کی تعداد کی بھی تصدیق کی۔

بخش نے کہا کہ مسلح حملہ آوروں نے ”واضح طور پر بلوچ علیحدگی پسندوں کا طریقہ کار استعمال کیا اور اس بت کی تصدیق کے لیے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے کون تھا۔‘‘

بلوچ علیحدگی پسندوں نے قدرتی وسائل کی فراوانی والے اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے لیکن غریب ترین صوبے بلوچستان میں کئی دہائیوں سےشورش برپا کر رکھی ہے۔ عسکریت پسند ملک کے دیگر حصوں سے صوبے کا رخ کرنے والے پنجابیوں اور سندھیوں کو نشانہ بناتے آئے ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ وہ علاقے میں توانائی کے شعبے میں کام کرنے والی غیر ملکی فرموں کو بھی نشانہ بناتے رہے ہیں، جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ اس خطے کی دولت کو بانٹے بغیر اس کا استحصال کر رہی ہیں۔

نوشکی حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرلی ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حملے کو ”دہشت گردی کا واقعہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ”سہولت کاروں کو سزا دی جائے گی۔‘‘ گزشتہ سال اکتوبر میں مسلح افراد نے چھ پنجابی مزدوروں کو قتل کر دیا تھا، جو ایک نجی رہائش گاہ بنا رہے تھے۔

گزشتہ ماہ کے آخر میں آٹھ بلوچ عسکریت پسندوں کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا، جب انہوں نے گوادر بندرگاہ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی، جسے خطے میں چین کی سرمایہ کاری کا سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔

فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ اس حملے کو پسپا کرنے کے دوران دو پاکستانی فوجی مارے گئے تھے۔ اس شورش زدہ صوبے میں حکومتی سکیورٹی فورسز بلوچ علیحدگی پسندوں کا سب سے بڑا ہدف ہیں۔ ان علیحدگی پسندوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی برادریوں کی جانب سے اپنے حقوق کے لیے مزاحمت کے بدلے میں ماورائے عدالت قتل اور گمشدگیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں