پاکستان نے شیعہ عسکریت پسند تنظیم زینبیون بریگیڈ پر پابندی کیوں لگائی؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو) پاکستان کی وزارت داخلہ کی جانب سے شیعہ عسکریت پسند تنظیم زینبیون بریگیڈ کو کالعدم قرار دیے جانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے، جس کے ذریعے اس عسکریت پسند گروپ کو غیر قانونی تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔

نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی کی ویب سائٹ کے مطابق زینبیون بریگیڈ کو گزشتہ مہینے 29 مارچ کو اینٹی ٹیررازم ایکٹ 1997 کے شیڈیول ون کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ یوں یہ ان 79 تنظیموں میں شامل ہو گئی ہے جنہیں اگست 2001 سے لے کر اب تک مختلف اوقات میں کالعدم قرار دیا گیا ہے۔

کئی مبصرین اس کی وجوہات پر بحث کر رہے ہیں۔ کچھ کالعدمی کے وقت پر بحث کر رہے ہیں اور کچھ اس کو مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورت حال سے بھی جوڑ رہے ہیں۔

کالعدم تنظیمیں

واضح رہے کہ جنرل مشرف کے دور میں بڑے پیمانے پر مذہبی اور جہادی تنظیموں کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا، جن میں لشکر جھنگوی، لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ پاکستان، تحریک جعفریہ پاکستان، تحریک نفاذ شریعت محمدی، تحریک اسلامی، القاعدہ، ملت اسلامیہ پاکستان، خدام الاسلام، اسلامی تحریک پاکستان، جمعیت الانصار، جماعت الفرقان، حزب التحریر، خیر الناس انٹرنیشنل ٹرسٹ، بلوچستان لبریشن آرمی، اسلامک اسٹوڈنٹس موومنٹ آف پاکستان، لشکر اسلامی، انصار الاسلام، حاجی نامدار گروپ، تحریک طالبان پاکستان، شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی گلگت، مرکز سبیل آرگنائزیشن گلگت، تنظیم نوجوانان اہل سنت گلگت سمیت بہت ساری دوسری تنظیمیں شامل تھیں۔

وزارت داخلہ نے کچھ تنظیموں کو واچ لسٹ پہ بھی رکھا تھا۔

پاکستان کے خدشات

خیال کیا جاتا ہے کہ زینبیون بریگیڈ کو شام کی خانہ جنگی کے دوران تخلیق کیا گیا تھا، جب انتہا پسند تنظیم داعش نے شیعہ مذہبی مقدس مقامات کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی تھی۔ پاکستان اور افغانستان میں عسکریت پسندی کے امور پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ اس طرح کے خدشات ہیں کہ پاکستانی ممکنہ طور پر حوثی باغیوں یا دوسرے ایران نواز گروپوں کو ہتھیار فراہم کرنے میں پائے گئے ہیں اور یہ کہ اس حوالے سے امریکی جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے بھی ایک انکشاف کیا تھا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”حکومت کو خدشات ہیں کہ اگر کوئی پاکستانی اس طرح کے معاملے میں ملوث ہوا تو اسلام آباد پر بہت زیادہ دباؤ آئے گا۔ میرے خیال میں اسی صورتحال کے پیش نظر رکھتے ہوئے حفظ ما تقدم کے طور پر پاکستان نے ان پر پابندی لگائی ہے تاکہ اس دباؤ کا سامنا کیا جا سکے۔‘‘

شمولیت کو روکنے کی کوشش

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کا کہنا ہے کہ ماضی میں شیعہ عسکریت پسند تنظیموں کے لوگ شام میں اس وقت گئے تھے جب کچھ شیعہ مقدس مقامات کو داعش نے ٹارگٹ کرنے کی کوشش کی تھی اور ان پر حملہ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پنجاب سے درجنوں جبکہ پارہ چنار، کراچی اور ملک کے دوسرے علاقوں سے ایک بڑی تعداد میں لوگ ان مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے پہنچے تھے اور انہوں نے مبینہ طور پر زینبیون بریگیڈ میں شمولیت اختیار کی تھی۔‘‘

احسن رضا کے مطابق ان میں سےکچھ لوگوں کو واپسی پر گرفتار کیا گیا تھا۔” اور شیعہ تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ وہ اب گمشدہ افراد کی فہرست میں ہیں جبکہ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو ایران میں ہی سکونت پذیر ہو گئے ہیں۔‘‘

اس نوٹیفکیشن کے ٹائمنگ کے حوالے سے احسن رضا کا کہنا ہے کہ اس کا تعلق مشرق وسطیٰ کی کشیدگی سے ہے۔ ”قوی امکان ہے کہ ایران اسرائیل کو جواب دینے کے لیے کوئی حملہ کرے اور یقینا اس کے بعد اسرائیل کا جوابی حملہ ہوگا۔ اس جوابی حملے میں ممکنہ طور پر ایران، عراق اور شام میں شیعہ مقدس مقامات کو بھی ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔‘‘

احسن رضا کا کہنا تھا کہ کیونکہ پاکستانی شیعوں کی ان مقدس مقامات سے جذباتی اور روحانی وابستگی ہے۔ ”اس لیے وہ ان کی حفاظت کے لیے ممکنہ طور پر کسی بھی گروپ کو جوائن کر سکتے ہیں۔ اس شمولیت کو پہلے سے ناکام بنانے کے لیے زینبیون بریگیڈ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔‘‘

جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک شیعہ تنظیم کے سابق عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پہ ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اپنے مقدس مقامات کے لیے شیعہ نوجوان ماضی میں بھی پاکستان بھر سے زینبیون بریگیڈ میں گئے تھے۔ جنوبی پنجاب کے ایک ضلع کے نوجوان کا اس دوران ہاتھ بھی کٹا تھا اور وہ اب ایران میں ہی سکونت پذیر ہے۔‘‘

اس نوٹیفکیشن کی تفصیل جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی، آئی جی پنجاب عثمان انور اور دیگر حکومتی ذمہ داروں سے بار بار رابطہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں پیغامات بھی بھیجے۔ تاہم ان کا کوئی جواب نہیں آیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ اداروں کو ابھی تک اس نوٹیفیکیشن کا بھی علم نہیں ہے۔ کاؤنٹر ٹیررازم پنجاب کے ایک ذمہ دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ابھی تک یہ نوٹیفکیشن موصول نہیں ہوا جیسے ہی اس کی اطلاعات ہمیں ملیں گی، ہم وہ میڈیا کے ساتھ شیئر کریں گے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں