عراق میں ایران نواز ملیشیا شیعہ پاپولر موبلائزیشن فورسز کے فوجی اڈے پر حملہ

بغداد (ڈیلی اردو/وی او اے/رائٹرز) عراق میں ہفتے کی رات ایران نواز ملیشیا شیعہ پاپولر موبلائزیشن فورسز (پی ایم ایف) کے فوجی اڈہ دھماکہ سے لرز اٹھا۔

خبر رساں اداروں نے سکیورٹی ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ یہ دھماکا دارالحکومت بغداد کے جنوب میں صوبے بابل میں کالسو فوجی اڈے پر ہوا۔ اس اڈے میں ایران نواز مسلح گروپوں کا ایک مسکن بھی ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے عراقی وزارت داخلہ کے ایک ذرائع اور ایک فوجی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ یہ مسلح گروپوں کا اتحاد عراق کی پاپولر موبلائزیشن فورسز (حشد الشعبی) ہیں۔ اس گروپ نے آج ہفتے کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ فوجی اڈے پر دھماکہ ایک حملے کے نتیجے میں ہوا۔

فوری طور پر کسی نے بھی اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) نے مزید کہا کہ یہ ”سچ نہیں‘‘ کہ یہ حملہ امریکی افواج نے کیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق کالسو کیمپ جسے پاپولر موبلائزیشن فورسز کی کچھ تنظیمیں اپنے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کرتی ہیں، جمعہ کو رات گئے میزائلوں سے حملہ کیا۔ جہاں ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہ تربیت حاصل کرتے یا اپنا اسلحہ ذخیرہ کرتے ہیں۔

عراقی وزارت داخلہ کے ذرائع نے بتایا کہ ”فضائی بمباری‘‘ میں ایک شخص ہلاک اور آٹھ دیگر زخمی ہوئے، جب کہ فوجی ذرائع نے بتایا کہ حملے میں تین عراقی فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔ حشد الشعبی نے ایک بیان میں زخمیوں کی تعداد بتائے بغیر لکھا ہے کہ ”دھماکے‘‘ نے”مادی نقصانات‘‘ اور جانی نقصان پہنچایا ہے۔

اس اتحاد نے تصدیق کی کہ فوجی اڈے پر اس کے احاطے کو نشانہ بنایا گیا تھا اور تفتیش کاروں کو جائے وقوع پر بھیج دیا گیا ہے۔ عالمی برادری پہلے ہی تشویش کا اظہار کر رہی ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ فلسطینی گروپ حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ ایک وسیع علاقائی تنازعے میں بدل رہی ہے۔ واضح رہے کہ حماس کو یورپی نونین، امریکا، جرمنی اور چند دیگر مغربی ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

اسرائیل ایران کشیدگی بظاہر قابو میں

اس سے قبل مبينہ طور پر اسرائیل نے جمعے کے روز ایران کے شہر اصفہان کے قریب ایک فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔ یہ حملہ ممکنہ طور پر گزشتہ ہفتے کے آخر میں اسرائیلی سرزمین پر ایران کے ڈرون اور میزائل حملےکا بدلہ تھا۔ تاہم اسرائیل اور ایران دونوں نے ہی اس معاملے کو بظاہر ایک حد سے بڑھنے نہیں دیا، جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ دونوں دشمن ملک اس تازہ کشیدگی کو ایک مکمل علاقائی جنگ میں بڑھنے سے روکنے کے لیے تیار ہیں۔ خیال رہے کہ یکم اپریل کو دمشق میں واقع ایرانی قونصلیٹ پر ایک فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک جنرل سمیت سات ایرانی فوجی افسران ہلاک ہو گئے تھے۔ تہران نے اس حملے کے لیے اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اس سے بدلہ لینے کا عہد کیا تھا۔

اس کے بعد ایران کی جانب سے تیرہ اپریل کو اسرائیل کے خلاف تین سو سے زائد ڈرون، بیلسٹک اور کروز میزائل داغے گئے تھے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ اس نے ایران کی طرف سے فائر کیے گئے ننانوے فیصد ڈرون اور میزائلوں کو اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی اپنے اتحادیوں کی مدد سے ناکارہ بنا دیا تھا۔

وسیع علاقائی تنازعے کے امکانات

ایرانی حملے کے بعد اسرائیل کے اتحادیوں نے اسرئیلی حکومت کو بھر پور انداز میں جوابی کارروائی کرنے سے منع کیا تھا تاہم اس کے باجود اسرائیل نے جمعرات کی شب اصفہان کے قریب فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوطرفہ کارروائیوں کے باوجود دونوں ممالک کے مابین ایک دوسرے کے خلاف موجود گہری شکایات کو دور کرنے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا گیا بلکہ باہمی دشمنی اور مزید لڑائی کے لیے دروازہ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

اسرائیلی روزنامہ ہاریٹز کے عسکری امور کے مبصر آموس ہیرل نے لکھا، ”حقیقت یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری ممکنہ طور پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کرے گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس کے باوجود ہم ایک وسیع علاقائی جنگ کے پہلے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔‘‘

تہران کی جانب سے اسرائیل کی تباہی کے مطالبے، متنازعہ جوہری پروگرام اور مشرق وسطیٰ میں اسرائیل دشمن مسلح گروہوں کی حمایت کے حوالے دیتے ہوئے اسرائيلی حکومت ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے۔

ان دونوں ممالک کے مابین حالیہ کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا، جب فلسطینی گروہوں حماس اور اسلامی جہاد نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر دہشت گردانہ حملہ کیا، جس میں بارہ سو سے زیادہ اسرائیلی ہلاک ہو گئے تھے جبکہ دو سو سے زائد کو یرغمالی بنا لیا گیا تھا، جن میں ایک سو تینتیس کے قریب اب بھی قید میں ہیں۔

اس حملے کے جواب میں ہی غزہ میں اسرائیل کیتباہ کن کارروائی شروع ہوئی تھی جو چھ ماہ سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ لبنان میں ایک ایرانی حمایت یافتہ مسلح شیعہ گروپ حزب اللہ نے بھی فوری طور پر اسرائیلی اہداف پر حملہ کرنے شروع کر دیےتھے۔ جبکہ عراق، شام اور یمن میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں نے بھی اسرائیل پر میزائل اور ڈرون برسائے۔

ایران اور اسرائیل کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کے خلاف ایک بالواسطہ یا پراکسی لڑائی لڑتے آئے ہیں لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ دونوں نے براہ راست ایک دوسرے پر حملے کیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ تازہ ترین کشیدگی کے بعد اب صورتحال کسی حد تک قابو میں آتی دکھائی دے رہی ہے۔ واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو اور ایک طویل عرصے سے علاقائی تجزیہ کار چارلس لِسٹر کے مطابق ،”میرے خیال میں اصفہان پر حملہ اسرائیل کا صرف ایک پیغام بھیجنے کا طریقہ تھا کہ ہم جہاں چاہیں آپ تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘

اس تجزیہ کار کے بقول اگر ان دونوں ملکوں کے درمیان تلخی کا یہ تازہ ترین دور ختم ہو جاتا ہے تو اسرائیل اب اپنی توجہ غزہ میں جاری جنگ اور حزب اللہ کے ساتھ لڑائی پر مرکوز کر سکتا ہے۔ ان دونوں محاذوں میں سے کسی میں بھی کمی نہ آنے کے ساتھ ساتھ اسرائیل اور ایران کے مابین مزید تشدد کا خطرہ برقرار ہے، حالانکہ جمعہ کے روز کیے گئے اسرائیلی حملے کے بعد کوئی بھی فریق کشیدگی میں اضافے کے لیے بے چین نظر نہیں آتا۔

مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے ایک تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں ایرانی پروگرام کے ڈائریکٹر الیکس واٹنکا نے کہا کہ کوئی بھی فریق تباہی کے دہانے پر کودنے کے لیے تیار نہیں تاہم واٹنکا نے ایک اہم انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا، ”شاید ہم پراکسی جنگ میں واپس جا رہے ہیں۔‘‘ لیکن بقول ان کے اب یہ پراکسی جنگ ”اچانک ریاستوں کے مابین جنگ شروع ہو جانے کے خطرے سے دوچار ہے، جس کے بارے میں ہمیں پہلے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں