افغان صوبے ہرات میں شیعہ مسجد پر فائرنگ، 3 سالہ بچے سمیت 6 افراد ہلاک

کابل (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی ڈبلیو) افغانستان کے مغربی صوبے ہرات میں شیعہ کمیونٹی کی ایک مسجد پر حملے میں کم ازکم چھ نمازی ہلاک ہو گئے۔

افغانستان میں حکمران طالبان کے ایک اہلکار کے مطابق ایک مسلح شخص نے اس وقت مسجد میں گھس کر فائرنگ کی، جب لوگ نماز ادا کر رہے تھے۔

مقامی میڈیا رپورٹس اور افغانستان کے ایک سابق صدر نے کہا کہ مسجد کو اس لیے نشانہ بنایا گیا کیونکہ یہ ملک کی شیعہ اقلیتی برادری کے ارکان کی عبادت گاہ تھی۔

مقامی میڈیا کے مطابق حملہ آوروں نے ایک تین سالہ بچے کو بھی گولی مارکر ہلاک کردیا۔

طالبان کے وزارت داخلہ کے ترجمان عبدالمتین قانی کے مطابق یہ حملہ پیر کی شب صوبہ ہرات کے ضلع گوزارہ میں ہوا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ اس حملے کی تحقیقات جاری ہیں۔

فوری طور پر کسی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، جس میں ایک نمازی بھی زخمی ہوا جبکہ حملہ آور موقع سے فرار ہوگیا۔ مقامی میڈیا نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں مسجد کا امام بھی شامل ہے۔

سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا، ’’میں امام زمان مسجد پر حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں، میں تمام مذہبی اور انسانی معیارات کے خلاف کام کرنے کو دہشت گردی سمجھتا ہوں۔‘‘

افغانستان میں داعش خراسان نامی دہشت گرد تنظیم طالبان کی ایک بڑی حریف ہے اور اس کے ارکان اکثر ملک بھر میں اسکولوں، ہسپتالوں، مساجد اور شیعہ اقلیت کو نشانہ بناتے آ رہے ہیں۔

طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان میں 20 سالہ جنگ کے بعد ملک سے امریکی اور نیٹو فوجیوں کی افراتفری کے ساتھ روانگی کے آخری ہفتوں کے دوران اقتدار سنبھالا تھا۔

اس مرتبہ ماضی کی نسبت زیادہ اعتدال پسند موقف کے ابتدائی وعدوں کے باوجود طالبان نے بتدریج اسلامی قانون، یا شریعت کے قوانین دوبارہ لاگو کر دیے ہیں۔

طالبان اس سے قبل بھی 1996ء سے 2001ء تک افغانستان پر اپنے سابقہ ​​دور حکومت میں سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاز کر چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں