جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہ کرے اسے گھر بیٹھ جانا چاہیے، چیف جسٹس فائز عیسیٰ

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جو جج مداخلت دیکھ کر کچھ نہ کرے اسے جج نہیں ہونا چاہیے وہ گھر بیٹھ جائے۔

عدالتی معاملات میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے کام کرنا ہم ججز کا فرض ہے۔

سماعت کے دوران عدالت کی طرف سے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ اٹارنی جنرل کو دیا گیا جس پر اٹارنی جنرل نے جواب جمع کرانے کے لیے بدھ تک کا وقت مانگ لیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنا لکھا ہوا اضافی نوٹ پڑھا کہ وفاقی حکومت ایجنسیاں کنٹرول کرتی ہے، وفاقی حکومت الزامات کا جواب دے۔ وفاقی حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ ہائی کورٹ کے ججز نے نشاندہی کی کہ مداخلت کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے وہ مطمئن کرے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ارسال کردہ ایک خط میں مطالبہ کیا تھا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے ججز پر اثر انداز ہونے اور مبینہ مداخلت کے معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔

خط لکھنے والے ججز میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس بابر ستار، جسٹس طارق جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز شامل ہیں۔

اس معاملے پر چیف جسٹس نے وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تھی جس کے بعد وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔

انکوائری کمیشن کی سربراہی سابق چیف جسٹس تصدیق حسین جیلانی کو سونپی گئی تھی جنہوں نے بعدازاں اس سے معذرت کر لی تھی۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے سات رُکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران پاکستان بار کونسل کے وکیل خواجہ احمد حسن نے دلائل دیے کہ چھ ججز کے معاملے پر جوڈیشل تحقیقات چاہتے ہیں، ایک یا ایک سے زیادہ ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنا کر قصورواروں کو سزا دی جائے۔

جسٹس اطہر من اللہ اور چیف جسٹس کے اختلافی ریمارکس

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2019-2018 میں ہائی کورٹس کا سب سے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کے مسائل پر خاموشی اختیار کرنا تھا۔ لگتا ہے کہ پاکستان بار کونسل نے جو سفارشات مرتب کی ہیں وہ ہائی کورٹس کے جواب کی روشنی میں نہیں کیں۔ 76سال سے اس ملک میں جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ ہم خوفزدہ کیوں ہیں، سچ کیوں نہیں بولتے، ہمیں عدلیہ میں مداخلت کو تسلیم کرنا چاہیے۔

ان ریمارکس پر چیف جسٹس نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ معذرت کے ساتھ میں کھل کر بات کروں گا کہ میں اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتا، اگر ایسا ہے تو پھر آپ کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہیے۔ کوئی ایسا کہے تو اسے یہاں بیٹھنے کے بجائے گھر چلے جانا چاہیے۔ اگر کوئی جج کچھ نہیں کر سکتا تو گھر بیٹھ جائے۔ ایسے ججز کو جج نہیں ہونا چاہیے جو مداخلت دیکھ کر کچھ نہیں کرتے۔

‘اگر ملی بھگت ہے تو پھر بینچ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں’

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ صرف میں نے نہیں بلکہ اٹارنی جنرل صاحب نے بھی یہ بات کہی ہے، حکومت بھی مداخلت تسلیم کر رہی ہے۔ تمام ہائی کورٹس نے چھ ججز سے بھی زیادہ سنگین جوابات جمع کرائے ہیں، ایک ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ مداخلت آئین کے ساتھ کھلواڑ ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ مداخلت نہ فیض آباد دھرنا کیس سے رکی نہ کسی اور چیز سے، ججز نے ہائی لائٹ کیا کہ مداخلت ایک جاری سلسلہ اور رجحان ہے۔ آپ بتائیں ایسا کیا ڈر پیدا کیا جائے کہ یہ سلسلہ رکے؟ اٹارنی جنرل خود مان چکے ہیں کہ 2018 میں کیا کچھ ہو رہا تھا۔ 2018 اور 2019 میں ہائی کورٹ کے آزاد ججز کے لیے بڑا چیلنج سپریم کورٹ کی ملی بھگت تھی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کو حقیقت بتانے سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے ہمیں ملی بھگت کا اعتراف کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے جواباً کہا اگر ملی بھگت ہے تو پھر بینچ میں بیٹھنے کا کوئی جواز نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس رہا ہوں، اگر کسی سول جج کو کوئی جوتا مار دیتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ مک مکا کر لیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ڈسٹرکٹ جج قتل کے مقدمات سنتے ہیں، موت کی سزائیں سناتے ہیں۔ ان پر بھی تو پریشر ہوتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے درست کہا ہے کہ زیادہ خرابی ہمارے اپنے اندر ہے۔

‘مداخلت کے خلاف بس جج کو تگڑا ہونا چاہیے’

اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے وکیل احمد حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان پہلا ملک نہیں جہاں ایسے اقدامات ہوئے، میں نے ایک فہرست بنائی ہے کہ کن کن ممالک میں ایسا ہوا۔ امریکہ سمیت مختلف یورپی ممالک میں بھی ایسے واقعات ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جو غلطی ہو اس کی نشان دہی کا ہمیشہ کہتا ہوں، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چھ ججز کا خط ایک حقیقت ہے اس کو دیکھیں، ایسی صورتِ حال میں خوف کا تصور کیسے ہو گا؟

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ ذاتی طور پر ہر جج اپنے آپ کو مضبوط کر لے کہ کوئی رابطے کی کوشش نہ کرے، یا پھر کوئی ڈر ہو کہ کرے گا تو یہ ہو گا۔ اگر میں کمزور ہوں تو وہ کامیاب ہو جائے گا۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے دریافت کیا کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں مداخلت ہو بس ہمیں تگڑا ہونا چاہیے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل صاحب آپ دلائل دیں ورنہ ہم آپس میں لگے رہیں گے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمارے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ ملک آئین کے تحت چل رہا ہے یا نہیں،گزشتہ سماعت پر پوچھا گیا کہ خفیہ ادارے کس قانون کے تحت چل رہے ہیں؟ مداخلت ہو ہی کیوں رہی ہے؟ سیاسی جماعتیں مداخلت ختم نہیں کرنا چاہتیں، 2018 کی مداخلت سے کسی ایک سیاسی جماعت کو فائدہ ملا آج کسی اور کو مل رہا ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ مداخلت ان کے لیے کی جائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ فرض کریں کہ مجھے دھمکی آتی ہے کہ اس کیس کا یہ فیصلہ کر دیں، میں شکایت دائر کروں وہ بہتر ہے یا وہ اختیار جو میں خود استعمال کر سکتا ہوں، میں اپنے اختیارات کسی کمیشن کو کیوں دوں؟

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم کو اسی لیے بلایا تھا کہ وہ پوچھتے کہ کس نے مداخلت کی ہے، کیا انہوں نے کچھ کیا۔

بعد ازاں، سپریم کورٹ نے عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی۔عدالت کا کہنا تھا کہ کیس کی آئندہ تاریخ بینچ کی دستیابی کی صورت میں دی جائے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں