شام میں داعش کے حراستی کیمپوں سے وطن واپس آنے والے ایک درجن امریکی کون ہیں؟

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/وی او اے) امریکہ نے منگل کو اعلان کیا ہےکہ وہ شمال مشرقی شام میں داعش کے دو حراستی کیمپوں سے، ایک پیچیدہ کارروائی کے ذریعہ دو درجن مغربی شہریوں کو واپس لایا ہے، جن میں سے نصف امریکی ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپ ایک عرصے سے ان کیمپوں کے سنگین حالات اور بچوں کو درپیش خطرات سے خبر دار کرر ہے تھے۔

مشرقی شام میں کرد جنگجوؤں نے داعش کی شکست کے بعد اس سےمبینہ یا بظاہر تعلق کی بنیاد پر 56,000 سے زیادہ افراد کو داعش کے کیمپوں میں حراست میں رکھا ہوا ہے جہاں ہزاروں لوگوں نے انتہائی سنگین حالات میں زندگی گزاری ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ، امریکی ایجنسیوں، کویت اور امریکہ کے حامی کرد جنگجوؤں پر مشتمل ایک پیچیدہ آپریشن کے ذریعہ، امریکہ پانچ بچوں سمیت 11 امریکی شہریوں اور ایک امریکی شہری کے نو سالہ غیر امریکی رشتہ دار کو واپس لایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی کارروائی میں امریکہ نے چھ کینیڈین، چار ڈچ اور ایک فن لینڈ کے شہری کی وطن واپسی میں بھی سہولت فراہم کی، جن میں سے آٹھ بچے تھے۔

شام میں داعش سےتعلق رکھنے والے امریکی شہریوں کی وطن واپسی کی یہ اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے اور یہ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب انسانی حقوق کے گروپ ان کیمپوں کے سنگین حالات سے خبر دار کرر ہے تھے جو شام میں اس انتہائی پر تشدد انتہا پسند تحریک کی جانب سے اپنا آخری علاقہ کھونے کے پانچ سال بعد بھی اب تک زیر استعمال ہیں۔

بلنکن نے ایک بیان میں کہا، “شمال مشرقی شام میں بے گھر افراد کے کیمپوں اور حراستی مراکز میں انسانی ہمدردی اور سیکیورٹی کے بحران کا واحد پائیدار حل ملکوں کے لیے ان کی وطن واپسی، بحالی، دوبارہ انضمام اورجہاں مناسب ہو غلط کاموں کی جواب دہی کو یقینی بنانا ہے۔”

امریکہ، جہاں داعش کےجنگجو بننے والے شہریوں کی تعداد بہت محدود رہی ہے، طویل عرصے سے یورپی حکومتوں پر دباؤ ڈالتا رہا ہے کہ وہ ان کیمپوں میں زیر حراست اپنے شہریوں کو واپس لائیںخاص طور پر جنگجووں کے بچوں کو۔

بیشتر یورپی ملکوں نے ایسا کیا ہے لیکن آہستہ آہستہ اور ابتدائی تحفظات کے باوجود ،خاص طور پر ان ممالک نے جہاں جہادی حملوں کی ایک تاریخ رہی ہے مثلاً فرانس اور برطانیہ۔

ان کیمپوں کا انتظام کون چلاتا ہے

کردوں کے زیرقیادت شامی ڈیموکریٹک فورسز ان کیمپوں کا انتطام چلاتی ہیں اور انہوں نے تازہ ترین وطن واپسی کی تصدیق کی ہے۔ ان فورسز نے داعش کو کچلنے میں امریکی افواج کی مدد کی تھی جس کاکبھی شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر کنٹرول تھا۔

لیکن کرد انتظامیہ کے اہلکار فانر ال کائیت نے مختلف ملکوں کی جانب سے اپنے شہریوں کی وطن واپسی کی کوششوں کو “ناکافی” قرار دیا اور عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے کا “جامع” حل تلاش کرے۔

کرد جنگجوؤں نے داعش سےمبینہ یا بظاہر تعلق کی بنیاد پر 56,000 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا ہوا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، تقریباً 29,000 بچوں کو دو سب سے بڑے کیمپوں میں رکھا گیا ہے، جو کہ “دنیا میں کسی بھی جگہ اپنی آزادی سے جبراّ محروم کئے گئے بچوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔”

وطن واپس آنے والوں کی شناخت

بلنکن نے وطن واپس لائےجانے والے لوگوں کی شناخت کےبارےمیں تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

نیویارک ٹائمز اور نیشنل پبلک ریڈیو نے کہا کہ وطن واپس لائےگئے امریکیوں میں، جو نیویارک کے جان ایف کینیڈی ہوائی اڈے پر اترے، ایک خاتون اور اس کے نو بچے شامل تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، امریکی خاتون برینڈی سلمان کی شادی ایک ترک شخص سے ہوئی تھی جو خاندان کو شام میں داعش کے علاقے میں لے گیا تھا، ممکنہ طور پر ان سےیہ جھوٹ بول کر کہ وہ کیمپنگ پر جا رہے ہیں۔ وہاں شوہر کی ہلاکت کے بعد خاندان کو کیمپوں میں بھیج دیا گیا۔

واپس لائے گئے ایک اور امریکی کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ داعش کے ایک سابق رکن کا بیٹا ہے جسے خود 2020 میں واپس بھیج دیا گیا تھا۔

ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل دونوں، کیمپوں کے بگڑتے ہوئے حالات سے خبردار کر چکے ہیں اور انہوں نے لوگوں خصوصاً بچوں کو بغیر کسی الزام کے طویل عرصے تک حراست میں رکھنے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھایا ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے گزشتہ سال اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ “صرف خاندانی تعلق کی بنیاد پر حراست، اجتماعی سزا کی ایک شکل ہے، جو ایک جنگی جرم ہے۔”

گروپ نے کہا کہ ان جنگجووں کے بچے سب سے بڑے کیمپ الہول میں مر رہے ہیں ۔ وہ قابل علاج بیماریوں، شدید سردی اور خیموں میں آتشزدگی کےواقعات میں یا سیوریج کے گڑھوں میں ڈوب کر ہلاک ہو رہے ہیں۔

شام کا ہمسائہ ملک عراقایسا واحد ملک ہے جو بڑی تعداد میں اپنے شہریوں کو واپس لا رہا ہے۔ وہ گزشتہ ماہ الہول سے 700 افراد کو واپس لایا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں