امریکی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ کی جنرل عاصم منیر سے ملاقات

راولپنڈی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی ای) امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر مائیکل ایرک کوریلا نے جمعرات کو پاکستان کے دورے کے دوران افواج پاکستان کے سربراہ جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی فوج کی کامیابیوں کی تعریف کی۔

امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل ایرک کوریلا نے ملک کے آرمی چیف سے بات چیت کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔ جمعرات کو جنرل عاصم منیر کے ساتھ ملاقات کی۔

پاکستانی فوج کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے ”مشترکہ مفادات، بالخصوص علاقائی سلامتی میں تعاون جیسے اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا۔‘‘ جنرل ایرک کوریلا نے خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستانی فوج کی کوششوں اور پاکستان اور امریکی افواج پاکستان کے درمیان تعاون کی تعریف کی۔

CENTCOM کے ایک بیان کے مطابق، کوریلا نے افغانستان کی سرحد سے متصل شمال مغرب میں مختلف مقامات کا دورہ بھی کیا۔ اس دوران امریکی جنرل نے پاکستانی علاقائی کمانڈرز کے ساتھ ان سرحدی علاقوں میں انسداد دہشت گردی آپریشنز کے بارے میں تبادلہ خیال بھی کیا۔

جنرل کوریلا کے ایک بیان کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے پاکستان کی مسلح افواج کی ”قابلیت، اہلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کو غیر معمولی قرار دیا۔‘‘

امریکی سنٹرل کمانڈ کے کمانڈر مائیکل ایرک کوریلا کا پاکستان کا دورہ ایک ایسے وقت میں عمل میں آیا جب پاکستان کے عدم استحکام کے شکار صوبے خیبر پختونخواہ میں شمالی وزیرستان کے قصبے شاوال میں بدھ کو عسکریت پسندوں نے ایک بم دھماکہ کیا۔ اس حملے میں شاوال کے ایک قصبے میں قائم لڑکیوں کے واحد اسکول کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس کے مطابق اس اسکول کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔ تاہم پولیس نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا کہ رات گئے ہونے والے اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ مقامی پولیس چیف امجد وزیر نے بتایا کہ یہ حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول نہیں کی۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کا ضلع شمالی وزیرستان افغانستان کی سرحد سے ملحق ہے۔

دریں اثناء اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے اس بم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ”قابل نفرت اور بزدلانہ فعل قرار دیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا اس دہشت گردانہ حملے سے بہت سی نوجوان اور باصلاحیت لڑکیوں کے مستقبل کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ پولیس چیف کے مطابق حملہ آوروں نے پہلے اسکول کے گارڈ کو مارا پیٹا پھر اس کی عمارت میں دھماکہ خیز مواد رکھا۔ اس دہشت گردانہ حملے کا ہدف شاوال کے ایک قصبے میں قائم لڑکیوں کا واحد نجی ”عافیہ اسلامک گرلز ماڈل اسکول‘‘ تھا جس میں 150 طالبات تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔

اس دہشت گردانہ حملے کے پیچھے اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کا ہاتھ ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں، جو ماضی میں اس صوبے میں لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ کے انتہا پسندوں کا ماننا ہے کہ خواتین کو تعلیم نہیں دینی چاہیے۔ یعنی لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھا جانا چاہیے۔

دریں اثناء یونیسیف کے نمائندے عبداللہ فاضل نے ایک بیان میں کہا، ”ایک دور دراز مقام پر قائم لڑکیوں کے اسکول کی تباہی ایک گھناؤنا جرم ہے جو ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘

یونیسیف کے نمائندے نے بُدھ کو وزیر اعظم شہباز شریف کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کرتے ہوئے 26 ملین اسکول سے باہر بچوں کے اندراج کو ممکن بنانے کا عہد کیا ہے۔

پاکستان میں 2019ء تک لڑکیوں کے اسکولوں پر متعدد حملے ہوتے رہے ہیں۔ بالخصوص وادی سوات اور دیگر شمال مغربی علاقوں میں جہاں پاکستانی طالبان طویل عرصے سے سابق قبائلی علاقوں پر قابض تھے۔ 2012ء میں باغیوں نے ایک نوعمر طالب علم اور لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنے والی ملالہ یوسفزئی پر حملہ کیا تھا۔ جنہیں اپنی خدمات کے لیے امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں