بقا کا خطرہ ہوا تو ایرانی جوہری نظریہ بدل جائے گا، کمال خرازی

دبئی (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز/اے پی) ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے ایک مشیر کے مطابق اگر ایران کی ریاستی بقا کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو تہران کا جوہری عسکری نظریہ بھی بدل جائے گا۔ اس تازہ بیان سے ایران کے پرامن جوہری پروگرام پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

دبئی سے جمعرات نو مئی کو موصولہ نیوز ایجنسی رائٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے مشیر کمال خرازی کے الفاظ میں اگر اسرائیل کی وجہ سے ایران کا وجود خطرے میں پڑ گیا، تو جوہری عسکری سطح پر ایران کا وہ نظریہ اور سوچ بھی بدل جائیں گے، جن پر تہران اب تک کاربند ہے۔

تہران میں ملکی قیادت نے ہمیشہ کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی تیاری یا حصول کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم کئی مغربی ممالک کی حکومتوں کا شبہ ہے کہ ایران اپنے ہاں جوہری ٹیکنالوجی کو بم بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اسی پس منظر میں ایرانی جوہری پروگرام ایک ایسا دیرینہ تنازعہ ہے، جس کی وجہ سے ایران پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں۔

کمال خرازی نے کیا کہا؟

گزشتہ ماہ جب اسلامی جمہوریہ ایران اور اسرائیل کے مابین کشیدگی بہت زیادہ ہو گئی تھی، ایران کے محافظین انقلاب دستوں کے ایک سینیئر کمانڈر نے بھی کہا تھا کہ اسرائیلی کے باعث لاحق خطرات تہران کے جوہری عسکری نظریے میں تبدیلی کا سبب بن سکتے ہیں۔

اب ایران کے اسٹوڈنٹ نیوز نیٹ ورک نامی خبر رساں ادارے کی آج جمعرات کی ایک رپورٹ کے مطابق علی خامنہ ای کے مشیر کمال خرازی نے کہا ہے، ”ہم نے نیوکلیئر بم بنانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ لیکن اگر ایران کے وجود کو خطرہ ہوا، تو ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں ہو گا کہ ہم اپنا جوہری عسکری نظریہ بھی بدل لیں۔‘‘

آیت اللہ علی خامنہ ای کے اسی مشیر نے 2022ء میں بھی کہا تھا کہ ایران تکنیکی حوالے سے ایٹم بم بنانے کی اہلیت رکھتا ہے، تاہم ابھی تک ایسے کسی بم کی تیاری کا کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔‘‘

خامنہ ای کا موقف اور اختیارات

ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای وہ واحد شخصیت ہیں، جنہیں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق کسی بھی قسم کے فیصلے کا حتمی اختیار حاصل ہے۔ مگر وہ سن 2000 کی دہائی کے اوائل میں ایک ایسا فتویٰ بھی جاری کر چکے ہیں، جس کے تحت ممکنہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری ممنوع قرار دے دی گئی تھی۔

پھر 2019ء میں ایک موقع پر خامنہ ای نے اپنا یہی موقف دہراتے ہوئے کہا تھا کہ جوہری بم تیار کرنا اور ذخیرہ کرنا ”غلط ہے اور ان کا استعمال حرام ہے۔‘‘

دوسری طرف 2021ء میں ایران کے اس وقت کے انٹیلیجنس کے وزیر نے بھی کہا تھا کہ مغربی دنیا کا دباؤ ایران کو مجبوراﹰ جوہری ہتھیاروں کی طرف لے جا سکتا ہے۔

اسی طرح کی سوچ کے تسلسل میں اب کمال خرازی نے بھی کہہ دیا ہے، ”صیہونی حکومت کی طرف سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی صورت میں ہماری (دوسروں کو خبردار کیے رکھنے کے ذریعے حملوں سے) باز رکھنے کی سوچ بھی بدل جائے گی۔‘‘ اس ایرانی اہلکار نے اپنے بیان میں اسرائیلی ریاست کا باقاعدہ نام تو نہ لیا، لیکن ‘صیہونی حکومت‘ کی جو اصطلاح استعمال کی، وہ ایران میں صرف اسرائیلی حکومت کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

ایران اور اسرائیل دیرینہ دشمن

ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے بڑے اور دیرینہ دشمن ہیں۔ لیکن دونوں کے مابین جو کشیدگی عشروں سے ”شیڈو جنگ‘‘ کی صورت میں دیکھنے میں آتی تھی، وہ گزشتہ ماہ اپریل میں اس وقت ایک کھلا تصادم بن گئی تھی، جب شامی دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ پر مشتبہ لیکن ہلاکت خیز اسرائیلی حملے کے جواب میں ایران نے اسرائیل کی طرف تقریباﹰ 300 تک ڈرونز بھیجے اور میزائل فائر کیے تھے۔ پھر اس عسکری کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے ایرانی سرزمین پر حملہ کیا تھا۔

ایران اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو 60 فیصد کی شرح تک افزودہ بنا رہا ہے جبکہ جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کے لیے یورینیم کو قریب 90 فیصد تک افزودہ کیا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے آئی اے ای اے کی سرکاری طور پر جمع کردہ تکنیکی معلومات کے مطابق ایران کے پاس موجودہ جوہری مادوں کو اگر مزید افزودہ بنایا جائے تو وہ دو ایٹمی ہتھیار بنانے کے لیے کافی ثابت ہو سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں