افغانستان میں خواتین سفری پابندیوں کا شکار

کابل (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اے ایف پی) افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد سے شرعی قوانین نافذ ہیں، جس کے تحت خواتین کو محرم کے بغیر سفر کی بھی اجازت نہیں ہے۔ یہ پابندی ان کی سماجی ، مذہبی اور روزمرہ کی زندگی پر بری طرح اثرانداز ہورہی ہے۔

طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے، افغان خواتین کو طویل سفر پر جانے، ہوائی جہاز میں سفر کرنے حتٰی کہ سرکاری عمارتوں میں داخل ہونے سے اُس وقت تک روک دیا گیا ہے جب تک کہ ان کے ساتھ کوئی مرد نہ ہو۔

طالبان حکومت کی اسلامی قانون کی سخت تشریح کے تحت، افغان معاشرے میں طویل عرصے سے سفر میں ”محرم‘‘ کا ساتھ ہونا لازمی ہے۔

مریم ( فرضی نام) کی ایک طالبہ اوران کی ایک سہیلی کو کابل میں ان کی سابقہ ​​یونیورسٹی کے حالیہ دورے پر، ضروری دستاویزات جمع کرنے کے لیے عمارت میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ وجہ یہ تھی کہ اُن کے ساتھ کوئی محرم نہیں تھا۔ انہوں نے اے ایف پی کو انٹرویو میں کہا، ”لیکن میرا بھائی کام پر تھا، میری دوست کا بھائی کم عمر ہے، اور اس کے والد کا انتقال ہوچُکا ہے۔‘‘ مریم نے مزید کہا، ”میں نے سڑک پر ایک لڑکے کو دیکھا اور وہ ہماری مدد کرنے پر راضی ہو گیا۔ ہم نے اندر داخل ہونے کے لیے ہمت کرکے اسے اپنے بھائی کے طور پیش کیا۔‘‘

اسلام میں محرم عام طور پر شوہر، بھائی، باپ، بیٹا، دادا یا چچا، ہوتا ہے یعنی وہ مرد جس کے ساتھ عورت حجاب پہننے کی پابند نہیں ہے اور جس کےساتھ اُس کا نکاح جائز نہیں ہے۔

افغانستان میں، سخت اسلامی قوانین نافذ ہیں جن کے تحیت انہیں روزمرہ زندگی گزارنے کے لیے قوانین و ضوابط کا پابند کر دیا جاتا ہے۔ ان قوانین کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ خواتین اور ان کے پورے خاندان کی عزت کی ضمانت دیتے ہیں۔

طالبان حکام، جو2021ء سے دوبارہ اقتدار میں ہیں، نے اس بارے میں بین الاقوامی تنقید کا یہ کہہ کر جواب دیا ہے کہ افغانستان کے قوانین اسلام کی پیروی کرتے ہیں اور شریعت کے تحت شہریوں کے تمام حقوق کی ضمانت دیتے ہیں۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے اے ایف پی کو بتایا، ”بدقسمتی سے، بیرونی حلقوں کی اپنی حساسیت ہے اور وہ حسد اور تعصب پر مبنی غلط تشریحات پیش کرتے ہیں۔ انہیں اسلامی قوانین کا احترام اور قدر کرنی چاہیے۔‘‘

ایک ایسے ملک میں جہاں چالیس سال سے زائد عرصے کے تنازعات میں لاکھوں خواتین بیوہ ہوچُکی ہیں بہت سی خواتین کے لیے محرم تلاش کرنا حقیقتاً ایک چیلنج ہو سکتا ہے۔

پچیس سالہ شیریں جو یونیورسٹی میں حکام کی جانب سے پابندی کے بعد ماسٹر ڈگری کے لیے آن لائن تعلیم حاصل کر رہی ہیں کا کہنا ہے، ”بہت سی خواتین کے گھر میں مرد نہیں ہوتے۔ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے یا ان کا بیٹا بہت چھوٹا ہے وہ اپنے خاندان کی سربراہ ہیں، ان کا محرم کہاں سے آسکتا ہے؟‘‘

کئی افغان خواتین نے اے ایف پی کو بتایا کہ محرم کے بغیر سفر کرنے کے نتیجے میں خواتین کی گرفتاری ہو سکتی ہے، خاص طور پر قصبوں اور دیہی علاقوں میں چیک پوائنٹس پر سخت جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے۔

دسمبر 2021 ء میں، طالبان کی حکومت نے 72 کلومیٹر سے زیادہ طویل سفر کرنے والی کسی بھی خاتون کے لیے محرم کا ساتھ ہونا لازمی قرار دیا تھا۔

مارچ 2022ء میں، طالبان حکومت نے خواتین پر ملکی اور بین الاقوامی دونوں پروازوں پر اکیلے سفر کرنے پر پابندی لگا دی، جس سے کچھ خواتین کی بیرون ملک یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ملنے والی اسکالرشپس ضائع ہو گئیں۔

اسلامی سکالر اور مصنف سلیمان زیغدور نے کہا، زیادہ تر مسلم دنیا میں محرم کا ساتھ ہونا لازمی نہیں ہے اس قانون کو چند حکومتوں کی طرف سے نافذ کیا گیا ہے۔

لیکن چونکہ افغانستان میں شرعی قوانین نافذ ہیں تو یہاں اس کی پاسدرای کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، جوخواتین کے حقوق کے حوالے سے دنیا کے سب سے زیادہ سخت ممالک میں سے ایک تھا، اب خواتین کو بغیر سرپرست کے مکہ مکرمہ کی زیارت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن افغان خواتین کو اب بھی ایسا کرنے سے روکا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں