خیبرپختونخوا: دو روز کے دوران ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں آٹھ افراد کی ہلاکت

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں دو روز کے دوران گھات لگا کر قتل کی مختلف وارداتوں میں آٹھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

قتل کیے جانے والے افراد میں ایک نوجوان صحافی اور مذہبی سیاسی جماعت کا ایک اہم مقامی رہنما بھی شامل ہے۔

گھات لگا کر قتل کا تازہ ترین واقعہ بدھ کی صبح میر علی شہر میں پیش آیا جہاں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں کی فائرنگ سے دو نوجوان جان کی بازی ہار گئے۔ پولیس کے مطابق واقعے کے بعد حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

پولیس کے مطابق منگل کو گھات لگا کر قتل کے واقعات میں شمالی وزیرستان میں تین جب کہ جنوبی وزیرستان، اورکزئی اور بنوں میں ایک، ایک واقعہ پیش آیا۔

دو روز قبل کرک کے بنوں سے ملحقہ علاقے لتمبر میں گھات لگا کر قتل کی ایک واردات میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک مقامی رہنما ہلاک ہو گئے تھے۔

شمالی وزیرستان کے ضلعی پولیس دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق منگل کو گھات لگا کر قتل کی واردات کا واقعہ ضلع کے مرکزی انتظامی شہر میران شاہ سے ملحقہ گاوں تپی میں پیش آیا۔ جہاں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ایک نوجوان صحافی اور سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کامران داوڑ کو قتل کر دیا۔

دوسرے واقعے میں تھانہ حدود میر علی گاؤں حیدرخیل میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک قبائلی رہنما شیر فیاض ہلاک ہو گئے۔

پولیس کے مطابق گھات لگا کر قتل کا تیسرا واقع میران شاہ تحصیل کے ایک دور افتادہ علاقے میں ہوا ہے جس کی تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔

ضلعی پولیس افسر روخان زیب کے مطابق ان واقعات کے مقدمات درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

مقامی آبادی میں خوف و ہراس

شمالی وزیرستان میں گھات لگا کر قتل کی وارداتوں میں اضافے کے باعث عام لوگ خوف و ہراس کا شکار ہیں۔

ایک مقامی صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ رواں ماہ کے دوران گھات لگا کر قتل کے واقعات میں مجموعی طور پر 12 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

دہشت گردی میں 76 فیصد اضافہ

خیبرپختونخوا پولیس کے مطابق 2023 میں دہشت گردی کے واقعات میں 2022 کے مقابلے میں 76 فیصد اضافہ ہوا۔

سن 2022 میں دہشت گردی کے واقعات میں 527 افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں 119 عام لوگ، 173 سیکیورٹی فورسز کے اہل کار اور 235 دہشت گرد شامل تھے۔

سن 2023 کے واقعات میں ہلاک ہونے والے 929 افراد میں 193 عام شہری، 329 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 407 عسکریت پسند شامل تھے۔

پولیس رپورٹ کے مطابق رواں سال دہشت گردوں کے 77 حملوں میں مجموعی طور پر 70 شہری اور 31 سیکیورٹی اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلٰی علی امین گنڈاپور نے چند روز قبل جاری کر دہ بیان میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے واقعات کو حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج قرار دیا تھا۔

خیبرپختونخوا پولیس کے انسپکٹر جنرل اختر حیات گنڈا پور کہتے ہیں کہ ماضی کی نسبت دہشت گردی کے حملوں کو پسپا کرنے کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا عمل جاری ہے۔

شمالی وزیرستان کے نوجوان صحافی کامران داوڑ کی ہلاکت پر مختلف صحافتی تنظیموں کے عہدے داروں نے غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کرک کے پریس کلب کے صدر خالد خٹک کہتے ہیں کہ نوجوان صحافی کا قتل ناقابلِ قبول ہے۔ ملوث ملزمان کو سخت سزا دی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں