دستکار، ٹیکسی ڈرائیور، معمار اور حجام سے شدت پسند بننے کا سفر: تاجک شہری داعش کیلئے آسان ہدف کیوں ہیں؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) محمد صابر فیاضوف کی عمر محض 19 سال تھی جب انھیں جدید روس کی تاریخ کے سب سے بہیمانہ دہشت گردانہ حملوں کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ صابر فیاضوف پر کروکس سٹی ہال میں منعقدہ ایک کنسرٹ میں آنے والوں کے قتل اور ہال کو نذرآتش کرنے کا الزام ہے۔

ان کے رشتہ دار اور پڑوسیوں کے مطابق صابر ایک باشعور گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انھیں مذہب میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور وہ اس قسم کے بھیانک جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتے لیکن ایسے ہی الفاظ اپنے گھروں سے دور جہادی گروپوں میں بھرتی ہونے والے ان درجنوں تاجک باشندوں کے لیے اس سے قبل بھی ان کے رشتہ دار کی جانب سے کہے جاتے رہے ہیں۔

سنہ 2010 کی دہائی کے اوائل سے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد اس سے بننے والے اس چھوٹے سے ملک کے ہزاروں شہری جہادی گروپوں، خاص طور پر افغانستان اور وسطی ایشیا میں سرگرم نام نہاد دولت اسلامیہ سے وابستہ گروپوں کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کو اس وقت بھرتی کیا گیا جب وہ روس میں برسر روزگار تھے۔

واضح رہے کہ نام نہاد دولت اسلامیہ پہلے ہی رواں سال روس اور ایران میں حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے اور ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یورپ ان کا اگلا ہدف ہو گا۔

دستکار، ٹیکسی ڈرائیور، معمار اور حجام

22 مارچ کو ماسکو میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے نامزد چار ملزمان میں فیاضوف سب سے کم عمر ہیں۔ انھیں کمرہ عدالت میں سٹریچر پر اس حالت میں لایا گیا تھا کہ ان کے جسم سے پیشاب کی تھیلی لگی تھی۔ گرفتاری کے دوران انھیں اس قدر مارا گیا تھا کہ ان کی ایک آنکھ باہر آ گئی۔

تین دیگر ملزمان پر بھی مار پیٹ کے نشانات واضح تھے۔ روسی سکیورٹی فورسز نے 30 سالہ سیداکرامی مراد علی رجب علیزادے اور 25 سالہ شمس الدین فریدونی پر ہونے والے تشدد کی ویڈیو ٹیلی گرام چینلز پر جاری کر دی تھیں۔

لیکن گرفتاری سے قبل تک فیاضوف اور دیگر ملزمان کے درمیان کوئی مماثلت نہیں تھی۔

شمس الدین فریدونی کی عمر 25 سال تھی اور انھوں نے اپنے آبائی علاقے تاجکستان میں جنسی زیادتی کے الزام میں طویل قید کی سزا کاٹ رکھی تھی۔

جیل سے رہائی کے بعد انھوں نے شادی کر لی اور اپنے گاؤں کے قریب ترین شہر حسار میں ایک بیکری میں کام شروع کردیا۔ ان کا ایک بچہ ہے۔ آخری بار روس آنے سے پہلے شمس الدین تین بار وہاں کام کے سلسلے میں پہنچے تھے۔

حملے میں نامزد 33 سالہ دلیردزون مرزویف سنہ 2010 کی دہائی کے اوائل سے ہی روس کا سفر کرتے رہے ہیں۔ بی بی سی کے ساتھ بات چیت میں ان کے رشتہ داروں نے میڈیا میں گردش کرنے والی ان اطلاعات کی تصدیق کی کہ مرزویف کے بڑے بھائی روس جانے کے بعد لاپتہ ہو گئے تھے۔

تاجکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ سنہ 2016 میں دولت اسلامیہ کی جانب سے لڑنے کے لیے شام روانہ ہو گئے تھے لیکن ان کے خاندان کو اس کا علم نہیں اور ان کی روانگی کی آزادانہ تصدیق نہیں ہو سکی۔ رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ دلیردزون کا اپنے بھائی سے رابطہ نہیں تھا۔

دوسری جانب رجب علیزادے 18 سال کی عمر سے ہی روس میں کام کرنے جانے لگے تھے۔ وہ تعمیراتی کام کرتے تھے لیکن پھر انھیں سنہ 2018 میں امیگریشن قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر ملک بدر کر دیا گیا اور پانچ سال تک ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

پھر انھیں اپنے آبائی گاؤں وخدت کے قریب ترین علاقائی مرکز میں سامان اتارنے چڑھانے کی نوکری مل گئی۔ ان کے دو بچے ہیں اور رجب علیزادے کی ماں ان کے ساتھ رہتی ہیں۔

رواں سال جنوری میں ان پر روس میں داخلے کی پابندی کی مدت ختم ہو گئی اور اس طرح رجب علیزادے دوبارہ کام کے سلسلے میں روس چلے گئے۔ انھوں نے 9 جنوری کو اپنے بھائی کو فون کیا اور اطلاع دی کہ وہ باحفاظت روس پہنچ ‏گئے ہیں۔ اس کے بعد ان کے رشتہ داروں نے انھیں خبروں میں ہی دیکھا۔

محمد صابر کی مختلف کہانی

محمد صابر فیاضوف کی کہانی دیگر ملزمان سے مختلف ہے۔ وہ دارالحکومت دوشنبے کے قریب مخمودشوئی پویون گاؤں کے رہائشی ہیں اور اپنے خاندان کے پانچویں اور سب سے چھوٹے بچے تھے۔

ان کے والد ایک مقامی سکول میں روسی زبان کے استاد تھے لیکن پھر اپنے خاندان کی کفالت کے لیے انھوں نے تجارت شروع کی اور روس میں کام کرنے چلے گئے۔ ان کی والدہ بھی ایک مقامی سکول میں پڑھاتی تھیں اور سکول کی لائبریرین بھی تھیں۔

مقامی مسجد کے امام نے بی بی سی سے بات چیت میں فیاضوف کے خاندان کو ذہین اور باشعور خاندان قرار دیا اور ان کے مطابق ان میں سے کسی کو انتہا پسندوں سے ہمدردی نہیں رہی۔

محمد صابر کی والدہ نے تاجک وزارت داخلہ میں پوچھ گچھ کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

ان کے ایک بھائی نے صرف اتنا کہا کہ صابر مذہبی نہیں تھے۔جبکہ ان کی دادی نے بتایا کہ صابر کو فٹبال کھیلنے کا بہت شوق تھا۔

سکول کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے بی بی سی کو بتایا کہ محمد صابر نے سنہ 2022 میں سکول پاس کیا۔ وہ میڈیکل میں دلچسپی رکھتے تھے اور میڈیکل کالج میں داخلہ لینا چاہتے تھے لیکن ان کی مذہب میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور نہ ہی نماز پڑھنے کی عادت تھی۔

بہرحال میڈیکل کالج جانے کی بجائے فیاضوف روس میں کام کرنے چلے گئے، جہاں انھوں نے حجام کے طور پر کام کیا۔ اس بات کا علم ان کے رشتہ داروں کے علاوہ سوشل میڈیا سے بھی ہوتا ہے۔

وہ آخری بار ایوانو علاقے کے ٹیکووو قصبے میں مائی سٹائل نامی حجام کی دکان میں کام کر رہے تھے۔

ان کی دکان شاپنگ سینٹر کی ایک منزلہ عمارت میں ایک کمرے پر مشتمل تھی جو پارکنگ کی جانب تھا۔ اس دکان کے سامنے ایک بیئر شاپ، پھولوں کی دکان، ایک حقہ بار، چھوٹے قرض دینے کی ایک دکان کے ساتھ شوارما کھانے کی جگہ تھی۔

کروکس سٹی ہال کے واقعے کے بعد غصے اور ناراضگی سے بھرے خطوط موصول ہونے کے بعد حجام کی دکان بند ہو گئی۔

بھرتیوں کیلئے زرخیز زمین

تاجکستان اور وسطی ایشیا کا مطالعہ کرنے والے ٹیکساس یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈورڈ لیمن کا کہنا ہے کہ محققین نے دہشت گردی کے الزام میں دوسرے تاجک باشندوں اور اچھے خاندانوں سے آنے والے لڑکوں کی کہانیاں سنی ہیں جنھیں مذہب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر آپ حالیہ برسوں میں عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے لیے لڑنے والوں کے رشتہ داروں کی شہادتوں پر نظر ڈالیں تو آپ ان کو یہ کہتے پائیں گے یہ اپنی اپنی پسند کی بات ہے یعنی وہ ایک اچھا لڑکا تھا، وہ مشکلات میں نہیں پڑتا تھا اور خاص طور پر یہ کہ وہ مذہبی نہیں تھا۔‘

ماہرین کا خیال ہے کہ ان کے الفاظ کے پیچھے صرف انکار یا کسی پیارے کی حفاظت کی خواہش نہیں بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہے۔ وہاں موجود عوامل اور محرکات نے تاجکستان کے باشندے اور تارکین وطن کو انتہا پسند گروہوں کی صفوں میں بھرتی کرنے کے لیے حالات پیدا کیے ہیں۔

ان محرکات میں سوویت دور کے بعد ان ممالک میں ریکارڈ غربت اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، افغانستان کے ساتھ ایک طویل سرحد اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سے ایک طویل خانہ جنگی اور ناقابل تبدیل اقتدار، جو مذہبی احیا کی کوششوں کو سختی سے دباتی ہے، وغیرہ شامل ہیں۔

صرف تاجکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار سے زیادہ تاجک شام اور عراق میں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ساتھ مل کر لڑے ہیں۔ جب اس گروپ کو شکست ہوئی تو افغانستان میں ان کا دولت اسلامیہ خراسان سے الحاق ہو گیا اور یہ ان کے لیے کشش کا نیا مرکز بن گیا۔

خبر رساں ادارے نیو یارک ٹائمز کے مطابق اب تاجکستان کے مقامی باشندے اس گروپ میں نصف سے زیادہ کی تعداد میں ہیں۔

ایڈورڈ لیمن کا کہنا ہے کہ اس کے متعلق صحیح اعداد و شمار موجود نہیں تاہم اگر کوئی اس میں نہ صرف تاجکستان کے شہریوں بلکہ شمالی افغانستان کے مقامی نسلی تاجکوں کو بھی شمار کرے تو یہ ایک حقیقت پسندانہ اندازہ ہو سکتا ہے۔

کروکس ہال کے حملے کے علاوہ رواں سال تاجک شہریوں کا نام ایران کے شہر کرمان میں ہونے والے بم دھماکوں (جن میں 94 افراد ہلاک ہوئے)اور ترکی میں کیتھولک چرچ پر ہونے والے حملے میں بھی سامنے آیا۔

بنیاد پرستی کی وجوہات

تاجکستان میں بنیاد پرستی کی وجوہات میں سے ایک مذہب کو ریاست کے تابع کرنا ہے۔ غربت اور وسیع پیمانے پر نقل مکانی بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔ تاجکستان کے معاشی حالت سوویت یونین کے ختم ہونے کے بعد وجود میں آنے والی تمام ریاستوں سے بدتر ہیں۔

ایک جانب وہاں ملک کی آبادی بڑھ رہی ہے تو وہیں روزگار کی بے انتہا کمی ہے اور اس کا حل بیرون ملک کام کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہے جس کے لیے بنیادی طور پر یہاں کے لوگ روس جاتے ہیں۔

تاجکستان کاغذ پر روس کا قریبی اتحادی ہے۔ دونوں ممالک سی ایس ٹی او کے رکن ہیں۔ یہ بلاک سوویت یونین کے بعد نیٹو کے ردعمل کے طور پر بنایا گیا تھا۔ روسی سرزمین سے باہر روس کا سب سے بڑا فوجی اڈہ تاجکستان کی سرزمین پر واقع ہے (یہاں یوکرین کے مقبوضہ علاقوں کو شمار نہیں کیا جا رہا ہے)۔

لیکن اتحادی ممالک میں تاجک شہریوں کو امتیازی سلوک اور استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات وہ دھوکہ بازوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ غلامی جیسے ناروا سلوک کیے جاتے ہیں۔

ایسی ہی صورتحال میں وہ جہادیوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہوتے ہیں جو مایوس مہاجروں کو اپنی صفوں میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ جس ناانصافی کے بارے میں بات کرتے ہیں اسے مجبور تاجک سمجھتے ہیں۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر تاجک جو انتہا پسند گروپوں کے رکن بنے وہ روس میں بھرتی کیے گئے تھے۔

آریائی تہذیب بمقابلہ اسلام

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد تاجکستان خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔ وہاں دو دھڑے سرگرم رہے ہیں۔ ایک اسلامی نشاۃ ثانیہ پارٹی ہے جس کی قیادت حزب اختلاف کر رہی ہے اور دوسری امام علی رحمانوف کی زیر قیادت مرکزی حکومت ہے۔

رحمانوف ملک کے صدر رہے اور انھوں نے کبھی یہ عہدہ نہیں چھوڑا۔ حزب اختلاف نے پارلیمنٹ میں نشستیں حاصل کیں لیکن 2015 میں آخر کار اعتدال پسند اسلام پر پابندی لگا دی گئی۔ اسلامی نشاۃ ثانیہ پارٹی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا۔

روس کی طرح تاجکستان میں بھی آئین کو صدارتی مدت کی حدود کو ختم کرنے کے لیے کئی بار تبدیل کیا گیا، یہاں تک کہ آخر کار رحمانوف کو ’امن اور قومی اتحاد کا بانی یا قوم کا رہنما‘ قرار دیا گیا ۔

’قائدِ قوم ‘ نے ایک ایسا نظام بنایا، جس میں سیاسی اسلام مکمل طور پر ممنوع ہے اور مذہب کو ریاست کے ماتحت کر دیا گیا اور معاشرے میں اس کے کردار کو سختی سے منظم کیا گیا۔

وہاں اسلام کو ریاستی مذہب کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اوررحمانوف نے خود چار بارحج کیا۔ وسطی ایشیا کی سب سے بڑی مساجد میں سے ایک دوشنبہ میں تعمیر کی گئی، جس میں ایک لاکھ سے زائد افراد کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔

لیکن دوسری طرف ریاست سیکولر طرز زندگی، ظاہری شکل اور طرز عمل پر زور دیتی ہے۔ حتیٰ کہ حجاب یا لمبی داڑھی رکھنا بھی خلاف قانون ہے۔

معاشرے میں مذہب کو جو مقام دیا گیا، وہ مسلسل کم ہو رہا ہے۔ سینکڑوں مساجد کو بند کر دیا گیا، خواتین اور نابالغوں کے ان میں آنے پر پابندی لگا دی گئی ہے اور حکام کی طرف سے خطبے کے موضوعات کی منظوری دی جاتی ہے جبکہ اماموں کو ریاست سے تنخواہ ملتی ہے۔

2000 کی دہائی کے وسط میں رحمانوف نے اپنا قومی خیال پیش کیا جس میں تاجکستان کے عظیم آریائی ماضی کی بات کہی۔ انھوں نے سنہ 2006 کو ’آریائی تہذیب کا سال‘ قرار دیا۔

سڑکوں کو تاجکوں کے آریائی آباؤ اجداد کے مخصوص پوسٹروں سے سجایا گیا تھا۔ صدر نے اپنے روسی انداز کے نام رحمانوف کو ختم کر دیا اور صرف رحمان رہنے دیا اور انھوں نے ’قدیم آریائی‘ تعطیلات منانے کا فیصلہ کیا۔

تاجکستان میں معروف اسلام پسند بلاگرز کے لاکھوں سبسکرائبرز ہیں اور وہ ایسے موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں جو پوری اسلامی دنیا کے لیے اہم ہیں، جیسے کہ حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ۔

ان میں سے سب سے زیادہ بنیاد پرست لوگ قدامت پسند مسلمانوں کے خلاف حکومتی جبر کے بارے میں بات کرتے ہیں اور رحمان کو حقیقی عقیدے کا دشمن قرار دیتے ہیں۔

پروفیسر ایڈورڈ لیمن نے سنہ 2015 میں لکھا کہ ’تاجکستان میں مذہب کو سختی کے ساتھ حکومت کی ماتحتی میں لانے کا الٹا اثر ہوا اور اس نے زیادہ تر شہریوں کو بنیاد پرست گروہوں کے ہاتھوں میں دھکیل دیا۔ تاجکستان کے جنگجوؤں کی کہانیوں کا جائزہ لینے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ انھوں نے پسماندگی اور کمزوری کے مرکب کے زیر اثر شام اور عراق کا سفر کیا۔‘

پھر دولت اسلامیہ کے عسکریت پسندوں نے ان ممالک کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا اور وہاں اپنی ’خلافت‘ کا اعلان کر دیا۔

خلافت کی بحالی طویل عرصے سے جہادیوں کا پسندیدہ خواب رہا ہے اور دولت اسلامیہ کے اعلان نے پوری دنیا سے ہزاروں رضاکاروں کو ان کی جانب راغب کیا۔

سنہ 2019 کے آتے آتے خود ساختہ ’خلافت‘ کو دولت اسلامیہ مخالف اتحادی افواج نے شکست دی اور اس کے ’خلیفہ‘ نے امریکی خصوصی افواج کے ایک چھاپے کے دوران موت کو گلے لگا لیا۔

اس کے بعد مغرب میں بہت سے لوگوں کو ایسا لگنے لگا کہ دہشت گردی کا خطرہ ٹل گیا لیکن افغانستان میں دولت اسلامیہ کی شاخ بچ گئی اور تاجکستان سمیت سوویت یونین کے بعد وجود میں آنے والی ریاستوں سے بھرتی ہونے والے مردوں کے لیے ایک نئی منزل بن گئی۔

غربت روس سے ہوتی ہوئی افغانستان تک کیسے جاتی ہے؟

سوویت یونین کے بعد کی تمام ریاستوں میں تاجکستان سب سے غریب ہے اور ہر سال لاکھوں تاجک کام کرنے کے لیے روس جاتے ہیں، جہاں انھیں کام کرنے کے سخت حالات، دشمنی پر مبنی رویے اور دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح کے سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دس لاکھ سے زائد تاجک شہری روس میں کام کرتے ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ روسی فیڈریشن میں مزدور تارکین وطن کی کل تعداد کا تخمینہ 12 سے 14 ملین ہے، جن میں سے 40 لاکھ تک کے پاس ضروری دستاویزات نہیں۔

ایک غریب اور پدر شاہی ملک میں نوجوان تاجک مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمائیں اور اپنی کمائی کو اپنے خاندان کے ساتھ بانٹیں اور اگر روس میں رہتے ہوئے وہ اپنی ملازمتوں سے محروم ہو جاتے ہیں تو وہ اہلخانہ کے لیے گزارے کی رقم گھر منتقل نہیں کر سکتے اور اس طرح یہ ان کے اہلخانہ کے لیے مسائل پیدا کرتا ہے۔

خواتین روایتی طور پر گھر میں رہتی ہیں اور پیسے کی کمی کے سبب ازدواجی مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔ بزرگ رشتہ داروں کو بعض اوقات مستقل طبی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کے حالات کا دباؤ مہاجرین کو ایک مشکل نفسیاتی حالت میں لے جا سکتا ہے۔

اکثر بحران ایسے وقت میں آتے ہیں اور لوگ مذہب کی دوبارہ دریافت کرتے ہیں۔ تاجکستان میں مکمل اسلامی تعلیم کی عدم موجودگی میں انتہا پسندوں کی طرف سے پیش کیے جانے والے ’برائی کے خلاف اچھائی کی جدوجہد‘ کے نظریے کی جانب نوجوان راغب ہوتے ہیں۔

تاہم، یہ صرف مہاجر، مزدور اور غریب دیہات کے نوجوان ہی نہیں جو بنیاد پرستی کا شکار ہیں۔

ایڈورڈ لیمن اور ان کے ساتھی دولت اسلامیہ میں تاجکستان سے بھرتی ہونے والے افراد کا ڈیٹا بیس جمع کرتے ہیں، جس میں سرکاری اہلکاروں کے بچوں سے لے کر متوسط طبقے کے طالب علموں سے لے کر ملک کے دوسرے شہر دوشنبے اور خجند کے رہائشی بھی شامل ہیں۔

لیمن کے مطابق زیادہ تر جہادیوں کو روس میں بھرتی کیا جاتا ہے اور وہاں سے انھیں اکثر ترکی کے راستے ان کے ٹھکانوں پر بھیجا جاتا ہے۔

طالبان (کالعدم دہشت گرد تنظیم) کے کابل پر قبضے کے بعد اب ایسے گروہوں کا ٹھکانہ افغانستان بن گیا ہے۔ ملک میں اسلامی امارت قائم ہو چکی ہے اور اقوام متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ ملک ایک بار پھر القاعدہ کے دہشت گردوں (کالعدم دہشت گرد تنظیم) کی پناہ گاہ بن گیا ہے۔

طالبان دولت اسلامیہ کے ساتھ تعاون نہیں کرتے بلکہ اس کے دشمن ہیں۔ وہ مختلف نظریات کے حامل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور طالبان دولت اسلامیہ کو افغانستان سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ان کا سارے علاقے پر مکمل کنٹرول نہیں اور ان کے پاس ایسے ڈرونز اور دیگر وسائل بھی نہیں ہیں جنھیں دولت اسلامیہ مخالف اتحاد شام اور عراق میں استعمال کرتے تھے۔

سی ایس ٹی او ماسکو کی قیادت میں ایک فوجی اتحاد ہے جس میں تاجکستان شامل ہے۔ اس نے بھی افغانستان سے بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے خطرے کی اطلاع دی۔

تنظیم کے مطابق تاجکستان کی سرحد کے قریب شمالی افغانستان میں شدت پسندوں کے تربیتی کیمپوں کا نیٹ ورک پروان چڑھ رہا ہے۔

’شہادت کی خواہش‘

صوبہ خراسان میں دولت اسلامیہ کا نام (دولت اسلامیہ خراسان) اس تاریخی خطے کے نام پر رکھا گیا ہے جس پر یہ گروپ کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ یہ جدید دور کے افغانستان، تاجکستان اور پاکستان کے علاقوں پر پھیلا ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کے ماہرین نے لکھا کہ کچھ عرصہ پہلے تک دولت اسلامیہ کے رہنماؤں میں سے ایک تاجکستان کا شہری سیولی شفیف تھا جنھیں سنہ 2023 میں ترکی میں گرفتار کیا گیا تھا۔ جنوری میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی ایک رپورٹ میں تاجکستان کے ایک اور باشندے کو گروپ کے سب سے زیادہ فعال پروپیگنڈوں اور سینیئر بھرتی کرنے والوں میں سے ایک کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔

رواں سال مارچ میں پروپیگنڈا میگزین ’وائس آف خراسان‘ کا پہلا شمارہ تاجک زبان میں ٹیلی گرام چینل پر شائع ہوا، جس میں لوگوں کو جہاد میں شامل ہونے اور ان کی صفوں میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی۔

’کیا آپ کو شوق شہادت ہے؟‘ کے تحت مصنفین قارئین کو مخاطب کرتے ہوئے جہاد کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

میگزین نے صدر رحمان کو ’شیطان‘ کہا اور ان کی حکومت کو سیکولر قوانین اور ’اسلام سے غداری‘ کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھیں روسی صدر ولادیمیر پوتن کی کٹھ پتلی کے طور پر پیش کیا گیا۔

گروپ کے پروپیگنڈے میں روس کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا اکثر ذکر ہوتا ہے۔ وہ ماسکو پر افغانستان، چیچنیا اور شام کی جنگوں کے دوران مسلمانوں کو قتل کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پروپیگنڈہ ویڈیوز روسی حکام اور طالبان کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کی فوٹیج پر مشتمل ہوتی ہیں۔

اگلا ہدف کون؟

مارچ کے آخر میں شائع ہونے والی دولت اسلامیہ کی پروپیگنڈہ تصویر میں ایک نامعلوم شخص سکرینوں کی طرف دیکھ رہا ہے اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں عربی میں درج عنوان پڑھتا ہے کہ ’ماسکو کے بعد اگلا ہدف کون ہے؟‘

ے۔ جولائی 2023 میں جرمن اور ڈچ قانون نافذ کرنے والے افسران نے کرغزستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے شہریوں کو دہشت گردانہ حملوں کی تیاری کے شبے میں حراست میں لیا تھا۔

لیکن جو چیز یورپ کو سب سے زیادہ پریشان کر رہی ہے وہ جہادیوں کا جون اور جولائی میں جرمنی میں ہونے والی یورپی فٹبال چیمپیئن شپ اور خاص طور پر پیرس اولمپکس کے دوران حملے کرنے کا عہد ہے۔

کروکس حملے کے بعد فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں نے ایک ہنگامی اجلاس بلایا اور دہشت گرد حملے کے خطرے کی سطح کو ’ہنگامی صورتحال‘ تک بڑھا دیا۔ انھوں نے کہا کہ اسی گروپ نے پہلے بھی ان کے ملک کے خلاف دہشت گردانہ حملے کرنے کی کوشش کی تھی۔

پیرس اولمپکس کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے پہلے ہی 45 ممالک سے پولیس اور سویلین ماہرین کو بھرتی کیا جا چکا ہے۔ اس میں غیر ملکی فوجی اہلکار بھی فرانسیسیوں کی مدد کر رہے ہیں۔

امریکی سیاست دان اور سکیورٹی حکام بھی اس گروپ کی سرگرمیوں پر تشویش کا شکار ہیں۔

کروکس سٹی ہال حملے سے ایک روز قبل امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کریلا نے کہا کہ افغانستان سے حملے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

امریکی فوج نے زور دے کر کہا کہ ’ہمارے جائزے میں دولت اسلامیہ خراسان اگلے چھ مہینوں میں بیرون ملک ہم پر اور مغربی مفادات پر حملہ کرنے کی صلاحیت اور خواہش کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور عملی طور پر کوئی انتباہ بھی نہیں۔‘

واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار ڈیوڈ اگنٹیئس لکھتے ہیں کہ اپریل میں امریکی قومی سلامتی کونسل نے دولت اسلامیہ پر علیحدہ اجلاس وقف کیا تھا۔ ان کی معلومات کے مطابق امریکی انٹیلیجنس کو یورپ میں دہشت گردانہ حملے کا خدشہ ہے، جس میں یہ گروپ اپنے ذریعے بھرتی کیے گئے وسطی ایشیا سے آنے والے تارکین وطن کا استعمال کر سکتا ہے۔

ریٹائرڈ امریکی ایڈمرل جیمز اسٹاوریڈس لکھتے ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے امریکہ کو روس، چین اور یہاں تک کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت سمیت اپنے مخالفین کے ساتھ بھی زیادہ فعال تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’جب میں نیٹو افواج کا کمانڈر تھا، میں نے مسلح افواج کی قیادت سمیت اعلیٰ روسی حکام کے ساتھ انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کے بارے میں نتیجہ خیز مذاکرات کیے تھے۔‘

امریکی اخبارات نے سینیئر حکام کے حوالے سے لکھا کہ رواں سال کے شروع میں امریکی انٹیلیجنس سروس سی آئی اے نے روسی انٹیلیجنس سروسز کو ماسکو میں حملے کی تیاری کے بارے میں خبردار کیا تھا اور ممکنہ اہداف میں کروکس سٹی ہال کا نام بھی بتایا تھا۔

لیکن ماسکو اب تعاون جاری رکھنے کے لیے تیار نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حملے کے لیے وہ امریکہ اور یوکرین کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ واضح کر رہا ہے کہ اس کا مغرب کے ساتھ تنازعہ ہے اور یہ کہ ان کے پاس اس کے بارے میں مزید بات کرنے کے لیے کچھ نہیں۔

ایڈورڈ لیمن کا کہنا ہے کہ ’روس اس بیانیے کو فروغ دے رہا ہے کہ امریکہ نے روس اور اس کے اتحادیوں کو کمزور کرنے کے لیے دولت اسلامیہ اور اس کے افغان ساتھیوں کی سرپرستی کی، اس لیے اسے یقین نہیں کہ امریکا ان گروہوں سے لڑنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں