امریکہ کو افغانستان اور پاکستان سے اُبھرتے ہوئے نئے خطرات کا سامنا

برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) ایک تازہ مطالعے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ امریکہ کو دو دہائیوں پر محیط جنگ کے’ صدمے‘ سے نکلتے ہوئے افغانستان اور پاکستان سے اُبھرتے نئے خطرات کا سامنا کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کو تیز کرنا چاہیے۔

سابق سینئر امریکی پالیسی سازوں کی سربراہی میں ایک اسٹڈی گروپ تشکیل دیا گیا تھا، جس نے ایک نئی مطالعاتی رپورٹ جاری کی ہے۔ یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس کے تحت سن 2022 میں بلائے گئے ایک اسٹڈی گروپ نے کہا ہے، ”فیصلہ سازوں اور قومی سلامتی کے اداروں میں کام کرنے والے بہت سے لوگوں میں 20 سالہ طویل انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اجتماعی صدمے جیسی کسی چیز کے آثار دکھاتے ہیں۔‘‘

اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ”افغانستان میں امریکی مداخلت کے المناک انجام نے بھی اسے ایک زہریلا مسئلہ بنا دیا ہے۔ اس طرح اس خطے کو پالیسی ایجنڈے اور عوام کے ریڈار سے دور رکھنے کے رجحانات کو تقویت ملی ہے۔‘‘

رپورٹ کے مطابق، ”اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ شدت پسند تحریکیں ایسے طریقوں سے طاقت حاصل کر رہی ہیں، جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ انہیں افغانستان میں دوبارہ منظم ہونے کے ساتھ ساتھ سازش اور تعاون کرنے کے نئے مواقع میسر آئے ہیں۔‘‘

رپورٹ میں ”اسلامک اسٹیٹ آف خراسان ‘‘کا حوالہ دیا گیا ہے، جو طالبان مخالف ہے لیکن اسے افغانستان میں پناہ گاہیں میسر ہیں۔ یہی جنگجو گروپ مارچ میں ماسکو میں ہونے والے ایک بڑے حملے میں ملوث تھا۔ اسی طرح تحریک طالبان پاکستان کی مثال دی گئی ہے، جو اسلام آباد حکومت کے خلاف مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

رپورٹ میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں خطرات کے خلاف طاقت کا استعمال کرنے کے ”آپشن کھلے‘‘ رکھے۔ رپورٹ میں کسی روایتی جنگ کی طرف واپسی کی بجائے امریکہ کو درپیش براہ راست خطرات کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔

ڈرون اڑانے اور پاکستان کے ساتھ تعاون کی تجویز

امریکہ سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ ”طاقت کے مظاہرے‘‘ اور طالبان رہنماؤں پر القاعدہ کے ساتھ مستقل تعلقات نہ رکھنے کے لیے دباؤ ڈالے اور اس مقصد کے لیے ڈرون اڑانے پر غور کرے۔

اس رپورٹ کے مطابق افغانستان سے انخلا کے بعد سے امریکی انٹیلی جنس اور دیگر صلاحیتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس تحقیق میں امریکہ سے دوبارہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس خطے میں عسکریت پسندوں سے لڑنے اور پاکستانی فضائی حدود تک طویل المدتی امریکی رسائی کو محفوظ بنانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔

افغانستان جنگ کے دوران پاکستان سب سے زیادہ امریکی امداد وصول کرنے والا ملک تھا لیکن امریکی حکام طویل عرصے سے یہ سمجھتے رہے کہ اسلام آباد ڈبل گیم کھیل رہا ہے اور طالبان کے تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے ابھی تک پاکستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور تعاون میں بہت کم دلچسپی ظاہر کی ہے۔ دوسری جانب دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک کے اندر ہنگامہ خیز سیاست کی وجہ سے بھی بائیڈن انتظامیہ کا اس کی طرف جھکاؤ کم رہا ہے۔

امریکی عہدیداروں کی پاکستان سے ‘نفرت‘

لورل ملر اس اسٹڈی گروپ کی شریک سربراہ ہیں۔ وہ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کی بطور خصوصی نمائندہ بھی کام کر چکی ہیں اور اب ایشیا فاؤنڈیشن کی صدارت سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”آپ کے پاس اس وقت امریکی حکومت کی اعلیٰ ترین سطحوں پر خدمات انجام دینے والے بہت سے ایسے لوگ ہیں، جو افغانستان میں 20 سال کے تجربے کی بنیاد پر پاکستان سے سخت نفرت رکھتے ہیں۔‘‘

اس خاتون سفارت کار کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”پاکستان کے بارے میں ایک شدید احساس ہے کہ کم از کم امریکہ کے ساتھ یہ مکاری سے کام لیتا ہے۔‘‘

لورل ملر مزید کہتی ہیں، ”لیکن کچھ ناقابل تردید حقائق ہیں، جن میں یہ بھی شامل ہے کہ پاکستان افغانستان سے اگلا دروازہ ہے، جو اس وقت دہشت گرد گروہوں کی پناہ گاہ ہے۔ اس لیے میرے خیال میں پاکستان کے ساتھ اس قسم کے تعلقات رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے، جو امریکہ کو خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے قابل بنائے۔‘‘

وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے بارے میں امریکی پالیسی بھارت کے ‘زیرو سم ویو‘ سے بھی متاثر ہوئی ہے۔ بھارت واشنگٹن کا ایک مضبوط ہوتا ہوا پارٹنر ہے اور یہ طویل عرصے سے اپنے پڑوسی اور روایتی مخالف کے ساتھ امریکی تعلقات پر تنقید کرتا آیا ہے۔

اسٹڈی میں امریکہ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اسلام آباد پر واضح کر دے کہ اگر پاکستان میں مقیم عسکریت پسندوں نے بھارت پر دوبارہ حملہ کیا تو اس کے ”سنگین منفی اثرات‘‘ مرتب ہوں گے۔

اس رپورٹ کے دوسرے شریک چیئرمین مائیکل ناگاٹا ہیں، جو ایک ریٹائرڈ آرمی لیفٹیننٹ جنرل ہیں اور ان کا انسداد دہشت گردی میں وسیع تجربہ ہے۔ گروپ کے دیگر ارکان میں این پیٹرسن اور مائیکل میک کینلے بھی شامل ہیں، جو بالترتیب پاکستان اور افغانستان میں بطور امریکی سفیر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ کئی اعلیٰ پروفیسروں نے بھی اس مطالعے میں حصہ لیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں