اسرائیل کے پاس غزہ کی جنگ کے خاتمے کیلئے صرف ’برے آپشنز‘

تل ابیب (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے) اسرائیل کی غزہ میں سات ماہ سے جاری عسکری کارروائیوں میں ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کے باوجود حماس کو تاحال شکست نہیں ہو سکی۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے پاس موجود اس جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی حوصہ افزا راستے دکھائی نہیں دیتے۔

فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی اسرائیل کے ساتھ سات ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری خونریز جنگ میں حماس کی عسکری طاقت میں کمی تو ہوئی ہے لیکن یہ ختم ابھی تک نہیں ہوئی۔ حماس کے جنگجو ابھی تک اسرائیلی فوج کے خلاف لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

یہ جنگجو اس جنگ کے دوران غزہ کے سب سے زیادہ متاثرہ شمالی علاقوں میں دوبارہ منظم ہو رہے ہیں اور غزہ کی سرحد کے قریب اسرائیلی علاقوں پر دوبارہ راکٹ حملے بھی کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے ابتدائی طور پر حماس کے خلاف حکمت عملی میں زمینی پیش قدمی کرنے سے پہلے فضائی بمباری کی، جس کے بعد زمینی دستوں کے لیے غزہ میں داخلے کی راہ ہموار ہوئی۔

لیکن ان ابتدائی کامیابیوں کے بعد اب اسرائیل کو حماس کی مسلح مزاحمت کے خلاف سخت جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے اور بہت سے اسرائیلیوں میں یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ ان کی فوج کو اب صرف ‘برے آپشنز‘ کا سامنا ہے اور وہ اس سلسلے میں غزہ میں جاری جنگ کا عراق اور افغانستان میں امریکی جنگوں سے موازنہ بھی کر رہے ہیں۔

غزہ میں اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں اب تک ساڑھے پینتیس ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں بہت بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ سات اکتوبر کو فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل میں ایک دہشت گردانہ حملے میں قریب بارہ سو اسرائیلی شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا جب کہ وہ تقریباﹰ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ بھی لے گئے تھے۔ اس کے فوراﹰ بعد اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے حماس کے خلاف اس کے مکمل خاتمے کا عزم لیے غزہ پٹی میں فوجی کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔

تاہم اب نیتن یاہو کی تین رکنی جنگی کابینہ میں شامل دو اراکین یوآو گیلنٹ اور بینی گینٹس کو غزہ پٹی پر دوبارہ قبضے کی ایک طویل اور مہنگی مہم کا خدشہ لاحق ہے۔ وہ ایسے عسکری انخلا کے بھی مخالف ہیں جس سے وہاں حماس کا دوبارہ کنٹرول ہو جائے یا جس سے ایک خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہو۔ اس صورت حال سے بچنے کے لیے ان دونوں نے ایسے متبادل پیش کیے ہیں، جنہیں بہت سے اسرائیلی غیر حقیقی سمجھتے ہیں۔ اس دوران حماس نے جنگ کے بعد کا اپنا ایک منصوبہ بھی تجویز کیا ہے۔ آئیے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے چار ممکنہ امکانات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

مکمل فوجی قبضہ

نیتن یاہو نے حماس کے خلاف ”مکمل فتح‘‘ کا وعدہ کیا ہے، جو حماس کے اقتدار کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فوجی صلاحیتوں کو ختم کر دے گی اور حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں کی واپس کو بھی یقینی بنائے گی۔ وزیر اعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل رفح پر بڑے پیمانے پر فوجی حملہ کرتا ہے، تو اسے چند ہفتوں کے اندر اندر فتح حاصل ہو سکتی ہے۔

نیتن یاہو کے حکومتی اتحاد میں انتہائی دائیں بازو کے ارکان نے غزہ پر مستقل قبضے، بڑی تعداد میں فلسطینیوں کی ‘رضاکارانہ ہجرت‘ اور غزہ میں یہودی بستیوں کی تعمیر نو کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم زیادہ تر اسرائیلی شہری 2.3 ملین فلسطینی آبادی والی غزہ کی ساحلی پٹی میں ہزاروں فوجیوں کی تعیناتی کے لیے بے پناہ اخراجات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس ممکنہ اقدام کی مخالفت کرتے ہیں۔ پھر اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ اس طرح کے اسرائیلی قبضے سے غزہ پٹی میں حماس کا خاتمہ ہو جائے گا۔

بالواسطہ کنٹرول

نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ پٹی پر سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھے گا لیکن شہری انتظامیہ حماس یا مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی سے غیر وابستہ مقامی فلسطینیوں کو سونپے گا۔ خود مختار فلسطینی اتھارٹی مقبوضہ مغربی کنارے کے محض کچھ حصوں پر حکومت کرتی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ عرب اور دیگر ممالک غزہ پٹی میں حکومت سازی اور تعمیر نو میں مدد کریں۔

لیکن اب تک کسی نے بھی اس حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ کسی بھی فلسطینی نے اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون کرنے کی پیشکش نہیں کی۔

عرب ریاستوں نے بھی اس ممکنہ منظر نامے کو یکسر مسترد کر دیا ہے، حتیٰ کہ متحدہ عرب امارات نے بھی، جو اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے والے چند عرب ممالک میں سے ایک ہے اور اس کے ساتھ قریبی تعلقات کا حامل بھی ہے۔

کوئی بڑی سودے بازی

عرب ریاستیں البتہ اس امریکی تجویز سے اتفاق کرتی ہیں، جس کا مقصد کئی دہائیوں پرانے تنازعے کو حل کرنا اور مشرق وسطیٰ کو تبدیل کرنا ہے۔ اس منصوبے کے تحت ایک اصلاح شدہ فلسطینی اتھارٹی سعودی عرب سمیت عرب اور مسلم ممالک کی مدد سے غزہ پر حکومت کرے گی۔ تاہم نیتن یاہو نے اس طرح کے منظر نامے کو مسترد کر دیا ہے۔

اسرائیلی جنگی کابینہ کے ارکان گیلنٹ اور گینٹس کا بھی یہی ماننا ہے کہ اس طرح کی کسی ڈیل سے حماس کو انعام ملے گا اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی سرحدوں پر عسکریت پسندوں کے زیر انتظام ایک ریاست قائم ہو جائے گی۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے کئی دہائیوں سے غزہ، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضے کا خاتمہ اور ایک مکمل خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام خونریزی کے سلسلے کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہیں۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ کم از کم عبوری بنیادوں پر دو ریاستی حل کو قبول کر سکتی ہے لیکن اس کا سیاسی پروگرام اب بھی ”فلسطین کی مکمل آزادی‘‘ پر زور دیتا ہے، اور اس علاقے میں اسرائیل بھی شامل ہے۔ حماس نے یہ بھی کہا ہے کہ اسے جنگ کے بعد کے کسی بھی تصفیے کا حصہ ہونا بھی چاہیے۔

حماس کے ساتھ معاہدہ

حماس نے ایک بہت ہی مختلف قسم کی سودے بازی کی پیشکش کی ہے، جو شاید اسرائیلیوں کے لیے سعودی امریکی معاہدے سے بھی زیادہ خوش آئند ہو سکتی ہے۔ اس عسکریت پسند گروپ نے ایک ایسے مرحلہ وار معاہدے کی تجویز پیش کی ہے، جس میں سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، غزہ سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور ایک طویل جنگ بندی بھی شامل ہو اور پھر غزہ پٹی کی تعمیر نو کے بدلے حماس تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کر دے۔

حالیہ ہفتوں میں ہزاروں اسرائیلی مظاہرین سڑکوں پر نکل کر اپنے رہنماؤں سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ ایسا کوئی معاہدہ کر لیں، کیونکہ یہی حماس کے قبضے سے اسرائیلی یرغمالیوں کی واپسی کا شاید واحد راستہ ہے۔ یہ اسرائیلی مظاہرین الزام لگاتے ہیں کہ نیتن یاہو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اس طرح کے کسی بھی معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

تاہم اگر اسرائیل حماس کی تجویز کردہ ڈیل سے اتفاق کر لیتا ہے تو یہ حماس کو نہ صرف غزہ میں مقتدر رکھے گی بلکہ یہ فلسطینی گروپ اپنی فوجی قوت بھی دوبارہ جمع کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حماس کی طرف سے اسرائیل کے مقابلے میں ایسی کسی بھی ڈیل کو اپنی فتح سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں