بھارتی کشمیر میں عسکریت پسندوں کا بس پر حملہ، 10 ہندو یاتری ہلاک، 33 زخمی

سرینگر (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے/اے ایف پی) بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے جموں میں ہندو زائرین پر ہوئے ایک حملے کے نتیجے میں کم از کم نو افراد مارے گئے ہیں۔ ہندو اکثریتی ڈسٹرکٹ ریاسی کے علاقے میں رونما ہونے والے اس واقعے میں تیس سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔

https://x.com/AdityaRajKaul/status/1799823744392970633?t=nRtxeYZCjKkQKv2jBj0JEQ&s=19

جموں کے حکام نے بتایا ہے کہ ہندو یاتریوں کو لے جانے والی ایک بس پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ اس بس پر فائرنگ کی گئی تو بس ڈرائیوار کنٹرول کھو بیٹھا اور بس گہری کھائی میں جا گری۔

ایک پولیس اہلکار نے بتایا ہے کہ کچھ لوگ گولیاں لگنے سے بھی ہلاک ہوئے جبکہ زیادہ تر بس کے کھائی میں گرنے کی وجہ سے مارے گئے۔ کچھ ذرائع کے مطابق اس واقعے میں دس افراد ہلاک جبکہ تینتیس زخمی ہوئے ہیں۔

مقامی میڈیا کے مطابق شیو کھوڑی مندر میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد عقیدت مند ایک بس میں سوار ہو کر ماتا ویشنو دیوی کے درشن کے لیے جا رہے تھے کہ کٹرہ میں ایک جنگلاتی علاقے میں عسکریت پسندوں نے اس بس پرفائرنگ شروع کردی۔

حملہ اسی دن ہوا جب مودی نے حلف اٹھایا

جموں میں یہ واقعہ ایک ایسے وقت میں رونما ہوا ہے، جب ہندو قوم پرست رہنما نریندر مودی نے تیسری مدت کے لیے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ہے۔ مودی کے دوسری مدت اقتدار میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر کشمیری مسلمانوں میں غم و غصہ ابھی برقرار ہے۔

پولیس نے اس حملے کی ذمہ داری مسلم جنگجوؤں پر عائد کی، جو کشمیر میں بھارتی حکمرانی کے خلاف بغاوت کیے ہوئے ہیں۔ تاہم اتوار کو رونما ہونے والے اس حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی نے قبول نہیں کی ہے۔

کشمیر میں باغی گروہ سن 1989 سے آزادی کی مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جموں و کشمیر کے زیادہ تر مسلمان ان باغی گروہوں کی حمایت کرتے ہیں۔ وہ چاہتے کہ کہ پاکستان اور بھارت کے مابین منقسم کشمیر کا خطہ ایک ہو جائے۔ وہ اس علاقے کا پاکستان کے ساتھ الحاق یا پھر آزاد ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔

نئی دہلی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے تشدد کے ایسے واقعات دراصل ‘پاکستانی سپانسرڈ دہشت گردی‘ کا نتیجہ ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں