افضل کوہستانی کے بھائی بن یاسر کا قتل کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ

پشاور (ویب ڈیسک) کوہستان ویڈیو اسکینڈل سامنے لانے والے مقتول افضل کوہستانی کے بھائی بن یاسر نے اپنے بھائی کے قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کردیا۔

پشاور پریس کلب میں افضل کوہستانی کے بھائی بن یاسر نے پریس کانفرنس میں بتایا افضل نے کئی برسوں تک فرسودہ نظام اور اس کے رواج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے اسے قتل کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے میں ہمارے 4 بھائیوں کو قتل کیا گیا، ہمارا پورا گھرانہ خوف میں رہ رہا ہے اور گزشتہ 10 برسوں میں اسی خوف کی وجہ سے 3 مرتبہ اسلام آباد جانا پڑا تھا۔

خیال رہے کہ 2013 جنوری میں بن یاسر کے 3 دیگر بھائی شاہ فیصل، شیر ولی اور رفیع الدین کو ان کے گھر میں قتل کردیا گیا تھا۔بن یاسر نے مزید کہا کہ ’مجھے معلوم ہے کہ کوہستان ویڈیو اسکینڈل کیس بہت حساس ہے اور ایک دن مجھے بھی قتل کردیا جائے گا‘ لیکن انصاف کے حصول کے لیے میں یہ جدو جہد جاری رکھوں گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ 6 مارچ کو سربان چوک کے انتہائی گنجان آباد علاقے میں رات 8 بجکر 10 منٹ کے قریب نامعلوم افراد نے افضل کوہستانی پر فائرنگ کردی تھی اور فرار ہوگئے تھے۔

واقعے سے متعلق عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ افضل کوہستانی پر متعدد مرتبہ فائر کیا گیا اور وہ موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ 3 راہگیر بھی زخمی ہوئے۔

اس بارے میں کینٹ پولیس اسٹیشن کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) غفور کا کہنا تھا کہ افضل کوہستانی اپنے بھتیجے کے ہمراہ تھے۔

بن یاسر کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے ان کے بھائی کے قتل میں استعمال ہونے والا اسلحہ تک برآمد نہیں کیا‘ جبکہ اہل خانہ کو مقامی پولیس پر بالکل بھروسہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس ان کے بتھیجے کو افضل کوہستانی کے قتل کے الزام میں پھنسا کر کیس کو خراب کرنے کی کوشش کرنا چاہتی ہے۔

واضح رہے کہ افضل کوہستانی کے قتل کے اگلے روز پولیس نے ان کے بھتیجے کو قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔

اس موقع پر سماجی کارکن قمر نسیم نے پریس کانفرنس میں کہا کہ 7 برسوں تک عدالتوں کو کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے بارے میں گمراہ کیا گیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ کمیشن کے سامنے جن خواتین کو پیش کیا گیا وہ 2012 کی ویڈیو میں دکھائی گئی خواتین نہیں تھیں، ساتھ ہی یہ بھی الزام لگایا افضل کوہستانی کے قتل کے کیس میں ایس ایچ او سمیت مقامی پولیس پیسے لے کر دوسری پارٹی سے ملی ہوئی ہے۔علاوہ ازیں قمر نسیم نے مطالبہ کیا کہ اس کیس کو کرائم برانچ منتقل کیا جانا چاہیے تاکہ انصاف فراہم ہوسکے۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان کے ایک نوجوان نے 2012 میں میڈیا پر آکر یہ الزام عائد کیا تھا کہ ان کے 2 چھوٹے بھائیوں نے شادی کی ایک تقریب میں رقص کیا تھا اور وہاں موجود خواتین نے تالیاں بجائی تھیں۔

تقریب کے دوران موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو بعد میں مقامی افراد کے ہاتھ لگ گئی، جس پر مقامی جرگے نے ویڈیو میں نظر آنے والی پانچوں لڑکیوں کے قتل کا حکم جاری کیا اور بعد میں ان لڑکیوں کے قتل کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔

قبائلی افراد کی جانب سے ویڈیو میں موجود لڑکوں اور لڑکیوں کو قتل کرنے کے احکامات جاری ہونے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے 2012 میں معاملے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

اس وقت کی وفاقی اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے واقعے کی تردید کی تھی، جبکہ سپریم کورٹ کے حکم پر کوہستان جانے والی ٹیم کے ارکان نے بھی لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ میں زیر سماعت کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے معاملے پر سماجی رضاکار فرزانہ باری نے لڑکیوں کے قتل سے متعلق شواہد پر مبنی دستاویزات اور ویڈیو عدالت میں جمع کرائی تھیں، جس کے مطابق جو لڑکیاں کمیشن کے سامنے پیش کی گئی تھیں وہ ویڈیو میں نہیں تھیں۔

ویڈیو میں دکھائی دینے والے لڑکوں میں سے ایک لڑکے کے بھائی محمد افضل کوہستانی نے قتل سے قبل بذریعہ میڈیا اپنے بھائی کی جان بچانے کی درخواست بھی کی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ نے 28 مارچ 2017 کو کوہستان سیش کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 3 لڑکوں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث گرفتار ملزمان کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ کوہستان کی سیشن عدالت نے مکمل ٹرائل کے بعد گرفتار 6 ملزمان میں سے ایک کو سزائے موت اور 5 کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اور ملزمان کو 2،2 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

بعد ازاں کوہستان ویڈیو کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں خیبر پختونخوا (کے پی) کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے انکشاف کیا تھا کہ پولیس نے اپنی تفتیش میں کہا ہے کہ 2011 میں کوہستان میں سامنے آنے والی ویڈیو میں رقص کرنے والی پانچوں لڑکیوں کو قتل کردیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں