اسلام آباد (ویب ڈیسک) پاکستان میں حوا کی بیٹیاں آئے روز غیرت کے نام پر قتل کر دی جاتیں اور طرح طرح کے ظلم سہتی ہیں۔ خواتین پر تشدد کا سدباب تو دور کی بات، ان سنگین جرائم کے درست اعدادوشمار تک موجود نہیں ہیں۔
اسی لئے ملکی تاریخ میں پہلی بار خواتین کے خلاف جرائم سے متعلق قومی سروے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال 1 ہزار خواتین غیرت کے نام پر قتل جبکہ 21 فیصد لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے، مگر پاکستان میں خواتین کیخلاف جرائم کی شرح سے متعلق حتمی اعدادوشمار اب بھی مبہم ہیں۔
جب تک ہمیں واقعات کی شرح کا پتا نہیں چلے گا، ہم اس معاملے کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس حوالے سے این سی ایس ڈبلیو نے ایک سروے کروانے کی تجویز دی ہے، امید ہے کہ وہ گرمیوں کے بعد سے شروع ہو جائے گا۔
خیبر پختونخوا میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح انتہائی تشویشناک ہے۔ خواتین کو کبھی غیرت کے نام پر قتل تو کبھی سوارا کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہیں۔
کئی خواتین کی پولیس تک رسائی نہیں ہے اور ایسے کیسز کا مقامی جرگے میں فیصلہ ہو گیا تو ان کا کہیں پر دستاویزی شکل میں اندراج نہیں ہوتا، لیکن اس کے باوجود اگر آپ کسی بھی سال کے چھ ماہ کا ڈیٹا نکال لیں تو اس میں 40 فیصد جرائم خواتین اور بچیوں کیخلاف یا ان سے متعلقہ ہوتے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے خلاف اٹھنے والا ہاتھ خود روکنا ہوگا۔ سماجی ماہرین نے امید ظاہر کی ہے کہ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے آئندہ کنونشن کے ذریعے پاکستان میں بھی خواتین سے متعلق قانون سازی کی راہ ہموار ہوگی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خواتین کیخلاف جرائم سے متعلق قومی سروے کا فیصلہ احسن اقدام ہے کیونکہ قوانین پر عملدرآمد اور مستقبل کی منصوبہ کے لئے درست اعدادوشمار ضروری ہیں۔