اقوام متحدہ کا سعودیہ میں 37 قیدیوں کے سر قلم کرنے کی شدید مذمت

نیو یارک (ویب ڈیسک) اقوام متحدہ نے سعودی عرب میں دہشت گردی جرم میں قید 37 شہریوں کے سر قلم کرنے پر ’شدید‘ مذمت کردی۔

اقوام متحدہ نیوز کے مطابق انسانی حقوق کی خصوصی نمائندہ بیچلیٹ نے زور دیا کہ ’سعودی عرب کی حکومت فوری طور پر اپنے انسداد دہشت گردی کے قانون کا جائزہ لے اور نابالغ لڑکوں کے خلاف سزائے موت کے قانون میں ترمیم کرے‘۔

یاد رہے کہ 23 اپریل کو سعودی عرب میں دہشت گردی سے متعلق جرائم کی پاداش میں قید 37 شہریوں کے سر قلم کر دیے گئے جبکہ دوسروں کو خبردار کرنے کی غرض سے تمام افراد کو سر عام سزا دی گئی۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنوں نے دعویٰ کیا ہے کہ منگل کو جن افراد کے سر قلم کیے گئے ہیں ان میں اکثریت شیعہ نوجوان اور شیعہ عالم دین تھے۔

واشنگٹن میں ‘گلف انسٹی ٹیوٹ’ کے نام سے تحقیقاتی ادارہ چلانے والے سعودی تارکِ وطن علی احمد کے مطابق وزارتِ داخلہ نے سزا پانے والے جن افراد کی فہرست دی ہے ان میں سے ان کی تحقیق کے مطابق 34 افراد شیعہ ہیں۔

علی احمد کے بقول سعودی عرب کی تاریخ میں ایک ساتھ اتنی بڑی تعداد میں شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کے سر قلم کرنے کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے جو ان کے بقول ایران کے لئے ایک سخت پیغام بھی ہے۔

انسانی حقوق کے لیے سرگرم بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ پیر کو جن افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا ہے ان میں سے بیشتر شیعہ عالم دین تھے۔

سعودی حکام نے 2016ء معروف شیعہ عالمِ دین شیخ نمر النمر کو پھانسی دی تھی جس پر کئی ملکوں میں سعودی مخالف مظاہرے ہوئے تھے۔

ایمنسٹی نے الزام لگایا ہے کہ بیشتر افراد کو ایسے جعلی مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں جو انصاف کے بین الاقوامی معیار پر پورا نہیں اترتے اور ان افراد پر تشدد کرکے ان سے اعترافِ جرم کرایا گیا تھا۔

ایمنسٹی کے مطابق جن افراد کے سر قلم کیے گئے ہیں ان میں سے 11 پر ایران کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جبکہ 14 کو شیعہ اکثریتی علاقوں میں ہونے والے سعودی ولی عہد اور سعودی حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کی پاداش میں سزائے موت دی گئی۔

مشرقِ وسطیٰ کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی محقق لین مالوف کا کہنا ہے ’بڑے پیمانے پر دی گئی موت کی سزا، سعودی حکام کے انسانی زندگی کی طرف سخت رویے کو ظاہر کرتی ہیں۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا ’یہ اس بات کا بھی اشارہ ہے کہ کیسے سزائے موت کو ایک حربے کے طور پر استعمال کر کے سعودی عرب میں موجود شیعہ اقلیت میں اختلاف رکھنے والوں کو کچلا جا رہا ہے۔‘

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق سزائے موت پانے والے افراد میں سے 11 مردوں پر ایران کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام تھا جنھیں ’ایک انتہائی غیر منصفافہ مقدمے کے بعد سزائے موت دی گئی۔‘

ایمنسٹی کے مطابق یہ 14 افراد ایک طویل عرصے سے زیرِ حراست تھے اور مقدمات کا سامنا کر رہے تھے جس کے دوران انھوں ںے عدالت کو بتایا تھا کہ جرم کا اعتراف کروانے کے لیے دورانِ تفتیش ان پر تشدد کیا جاتا رہا اور برے سلوک کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

سعودی عرب میں 2 جنوری 2016 کے بعد پہلی مرتبہ ایک ہی دن اتنے بڑے پیمانے پر سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا ہے، دو سال قبل 47 افراد کے سر قلم کیے گئے تھے۔

سعودی عرب کی نیوز ایجنسی کے مطابق مجرمان نے سیکیورٹی تنصیبات پر حملے کیے تھے اور دھماکہ خیز مواد سے متعدد سیکیورٹی افراد کو نشانہ بنایا تھا جبکہ ملک کے مفاد کے بجائے دشمن تنظیموں سے تعاون کر رہے تھے۔

سزا پانے والے شہریوں کا تعلق ریاض، مکہ، مدینہ اور عسیر سمیت دیگر شہروں سے تھا اور سزائیں بھی مخلف علاقوں میں دی گئیں۔

اقوام متحدہ کی نمائندہ نے سعودی عرب کے حکام سے اپیل کی کہ وہ تمام سزائے موت کے احکامات روکتے ہوئے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق آفس اور آزاد ماہرین سے مثبت تبادلہ خیال کرے۔

انہوں نے کہا کہ ’علی النمر، داود المرہون، عبداللہ الظہیر سمیت دیگر کے خلاف سزائے موت سنائے جانے کا خدشہ ہے‘۔

اپنا تبصرہ بھیجیں