معاشرتی زندگی میں برداشت اور تحمل کی ضرورت۔۔۔۔! (میر افضل خان طوری)

انسانی معاشرے میں بشر کی عزت و توقیر قطعی طور پر لابد ہے ۔ جب کسی شخص، قوم ، نسل اور قبیلے کی تضحیک اور استہزا کی جاتی ہے تو ردعمل کے طور پر وہاں نفرت، حسد، بغض اور عناد پیدا ہوتا ہے جو معاشرتی زندگی کو جانب مجادلہ گامزن کر دیتا ہے۔ تکبر دوسروں کی عزت نفس کو پامال کرنے کا دوسرا نام ہے۔ جہاں پر تکبر ہوتا ہے وہاں پر تکفیر کا ہونا لازمی بات ہے۔ متکبر شخص اپنی اصلاح پر توجہ منعطف کرنے کی عوض دوسروں کی اصلاح کیلئے کمر بستہ ہوتا ہے۔ وہ اپنی انا کو شکست دینے کی بجائے دوسروں کی انا کو للکارنے میں مشغول رہتا ہے۔ اس طرح وہ معاشرے کو ٹھیک کرنے کی جگہ پر بگاڑنے کا موجب بنتا ہے۔
نفس انسانی میں نفرت اور محبت دو متضاد قوتوں کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ محبت کی قوت کا تعلق علم سے ہے اور نفرت کی قوت کا تعلق جہل سے ہے۔ محبت علم میں اضافے کا باعث بنتا ہے جبکہ نفرت جہل کی افزائش کا موجب ہے۔

حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے کہ اگر جاہل اپنی زبان بند کرے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔
قیام امن بلا واسطہ طور پر تحمل، برداشت، اور رواداری پر منحصر ہے۔ زیست بنی آدم تب پرامن ہوسکتی ہے جب اسکا وجود خاکی شر اور شورش سے پاک ہو جاتا ہے۔ قیام امن کا پہلا مسکن انسان کی اپنی ہستی اور وجود ہے۔ سب سے پہلے امن وجود میں آتا ہے۔ اس امن کا تعلق انسان کے باطن سے ہوتا ہے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
ویرانۂ وجود میں چلنا پڑا ہمیں
اپنے لہو کی آگ میں جلنا پڑا ہمیں
انسان کی قوت برداشت امن کی سواری ہے۔ اگر قوت برداشت مضمحل ہے تو امن کے سفر میں دشواری پیش آئے گی۔ قوت برداشت یہ ہے کہ انسان دوسروں کی تقاصیر اور کوتاہیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے امن کی سواری کو اترنے نہ دیں۔ شکوہ کناں رہنے کی بجائے پر امید رہے۔ سب سے پہلے اپنے آپ کو معاف کرے اور پھر دوسروں کو معاف کرنے کیلئے ہاتھ بڑھائے۔ اس طرح انسان کو طمانیت قلب حاصل ہوجاتا ہے۔ اب وہ دوسروں سے عزت لینے کی بجائے عزت دینے کو اپنی تمکین اور وقار سمجھتا ہے۔ جب انسان اس منزل تک رسائی حاصل کرتا ہے تو اس کو شرم محسوس ہوتی ہے کہ کوئی بندہ اسکے احترام میں کھڑا ہو۔ وہ دوسروں کو عزت دینے میں اطمنان اور سکون قلب حاصل کرلیتا ہے۔ وہ تواضع کو اپنا اولین نصیب العین بنا لیتا ہے۔ تواضع یہ ہے کہ دوسروں کی عزت نفس کا احترام کیا جائے۔ ان سارے خصلتوں کا منبع و ماخذ قوت برداشت ہے۔ قوت برداشت ہی انسان کی سب سے بڑی قوت ہے۔ جس انسان میں قوت برداشت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ معاشرتی میدان عمل میں اتنا ہی زیادہ مضبوط ابھر کر سامنے آتا ہے۔

قرآن مجید بار بار انسان کو صبر و تحمل کی تلقین کرتا ہے۔ آیات قرآنی کا مفہوم ہے کہ “صبر اور نماز کے ساتھ اللہ تعالی کی نصرت طلب کرو۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”۔

برداشت کا راستہ اللہ کی طرف جاتا ہے اور عدم برداشت کا را ستہ شیطان کی طرف۔ یہی وجہ ہے کہ برداشت امن کی بنیاد ہے اور عدم برداشت شر کی جڑ۔ قوم، قبیلے، نسل اور زبان کا تعصب غرور اور تکبر کا نتیجہ ہوتا ہے۔ غرور اور تکبر ہمیشہ انسان کو عدم برداشت پر آمادہ کرتے ہیں۔ انسان دوسرے انسان کو حقیر سمجھنے لگتا ہے۔ وہ دوسروں کی غلطیوں پر آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور ان کو اپنی طاقت کے ذریعے ظلم و ستم کا نشانہ بناتا ہے۔

کسی دانشور نے کیا خوب کہا ہے کہ “امن کی تمنا ایک خواب ہی رہے گی جب تک طاقتور کمزورکا احترام کرنے کی تہذیب سے آشنا نہیں ہوتا”


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں