روح اور انسانی حیات! قسط نمبر 6 (میر افضل خان طوری)

ہم نے روح کے بارے میں مختلف مذاہب کے حوالے سے کفتگو کی اور قرآن مجید میں روح سے متعلق آیات قرآنی کا بھی تذکرہ کیا۔ ان تمام ادیان نے روح کو ایک غیبی قوت مجرد سے تعبیر کیا ہے اور روح مجرد کو ہی انسانی وجود کی ماہیت کا اصل جوہر قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ ” روح تو میرے امر میں سے ہے”
جس طرح یہ کائنات اللہ تعالی کے ارادے اور منشا کے مطابق عمل کرتا ہے، اسی طرح انسانی جسم کے اعضاء انسان کے ارادے کے مطابق خود کار طور پر عمل کرتے ہیں۔ انسان کے ارادے کے ساتھ اس کے ہاتھ، پیر ، آنکھیں، کان اور زبان عمل کرتے ہیں۔

ہم نے آیت اللہ شہید سید محمد ہاشم دستغیب کے حوالے سے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ “روح کا تعلق جب جسم کے ساتھ قائم ہوجائے تو روح کی اس کیفیت کو ” نفس ” کہا جاتا ہے”۔ قرآن مجید نے نفس انسانی کے مختلف کیفیات اور مراتب کا ذکر کیا ہے۔ نفس کی چار خالتیں نفس امارہ ، نفس لوامہ ، نفس ملہمہ اور نفس مطمعنہ ہیں جن کا ذکر قرآن مجید کے مخلتف مقامات پر ملتا ہے ایک ہی نفس کی چار مراتب اور مدارج ہیں۔ ایک نفس ایک وقت میں کسی ایک مرتبے کا حامل ہوتا ہے۔

نفس امارہ ۔۔۔۔
قرآن مجید کے سورة یوسف کے آیت: 53 میں نفس امارہ کا تذکرہ موجود ہے۔
وَمَآ اُبَرِّئُ نَفْسِىْ ۚ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌ بِالسُّوٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّىْ ۚ اِنَّ رَبِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ (53)

اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا، بے شک نفس تو برائی سکھاتا ہے مگر جس پر میرا رب مہربانی کرے، بے شک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔

یہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جب وہ عقل و فہم سے ناآشنا ہوتا ہے۔ جب نفس عاجزی ، نیاز مندی اور خضوع اختیار کرنے کیلئے امادہ نہیں ہوتا۔ یہ وہ کیفیت ہوتی ہے جو انسان کو سرکشی اور تمرد پر آمادہ کر دیتی ہے۔ ہر برائی کو انسان کے نظروں میں حسین و وجیہ کر دیتی ہے۔ انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہا ہے درست کر رہا ہے۔ یہ نفس انسانی کی وہ کیفیت ہے جس میں انسان اچھائی اور برائی میں تمیز کرنے کے صلاحیت سے محروم رہتا ہے۔ اس کیفیت میں وہ خود کو حقیر بندہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ وہ الہی پیغام کو پس پشت ڈال کر سرکشی و نافرمانی ، غرور و تکبر کا شکار ہو جاتا ہے۔ امارگی میں وہ اتنا آگے بڑھ جاتا ہے کہ وہ خلق خدا کے حقوق و فرائض کو بھی اپنے پاوں تلے روندنے لگتا ہے۔ وہ خود کو بندہ تصور کرنے کی بجائے خود کو آقا اور حقیقی فرمانروا سمجھنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے حقوق و فرائض سے غافل رہ جاتا ہے۔ یہ نفس کی وہ کیفیت ہے کہ انسان اپنے جسم کے خود کار نظام کو بھول جاتا ہے۔ اس کی عقل اور سوچ یہ جاننے سے قاصر رہتی ہے کہ ان کا اپنا جسمانی نظام کیسے چل رہا ہے؟ اور کون چلا رہا ہے؟ وہ یہ تصور کرنے لگتا ہے کہ یہ سب کچھ خود سے بنا ہے۔ وہ اس خیال کو اپنے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتا کہ اس نظام کا کوئی خالق بھی موجود ہے۔ امارگی کی کیفیت نفس انسانی کو ہر قسم کے زمہ داریوں اور حدود و قیود سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ وہ خود کو خالق کل سمجھنے لگتا ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اس پر خود کو سزا و جزا سے مبرا سمجھتا ہے۔

وہ نبیوں کے وعظ و نصیحت کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے احکامات پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ اسی غرور میں مبتلا رہتا ہے کہ یہ جو کچھ بھی میرے پاس ہیں میرے ہی محنت، زور بازو اور زور قلم کا نتیجہ ہے۔ یہ سب کچھ میرا ہے۔ میں نے ہی اپنی محنت سے کمایا ہے۔ امارگی کی حالت میں نفس انسانی سرکشی میں کفر کے درجے پر پہنچ جاتا ہے۔ جب کوئی کام اس کے منشا کے مطابق وقوع پذیر ہوتا ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا مگر جب کوئی کام اسکے منشا کے برخلاف ہوجاتا ہے تو وہ قہر و غضب سے ہر چیز کو تہ و بالا کر دیتا ہے۔ نفس انسانی کی یہ کیفیت انسان کو اسفل اسافلین کے درجے پر پہنچا دیتا ہے۔ ایسے انسان کی روح مردہ ہوجاتی ہے۔ اسکو اچھائی اور برائی میں کوئی تمیز نہیں رہتی۔ ایسے انسان کی حیات جانوروں سے بھی بدتر ہو جاتی ہے۔ ایسا بندہ طمانیت قلب سے محروم رہتا ہے۔ اس کے دل کو کبھی سکون اور اطمنان نصیب نہیں ہوتا۔ وہ ہر لمحہ مضطرب رہتا ہے۔ اس کی طبیعت میں ہمیشہ غیظ و غضب کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔

آیت اللہ دست غیب نے اپنی کتاب نفس مطمعنہ میں حضرت موسی علیہ السلام کے حوالے سے یہ واقع نقل کیا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے ایک مرتبہ اللہ تعالی سے درخواست کی کہ اپنے محبوب ترین بندے سے ان کی ملاقات کرادے۔ وحی نازل ہوگئ کہ فلاں مقام پر جاو تو ان سے مل سکو گے۔ جب موسی علیہ السلام وہاں پر پہنچے تو ایک مریض کو دیکھا جو اندھا اور مفلوج بھی تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام اس کے قریب جا کر بیٹھ گئے اور اس کا حال احوال دریافت کرنے لگے۔ وہ ورد کر رہا تھا کہ آئے نیک بندوں کے خدا۔

حضرت موسی علیہ السلام نے بوچھا کہ تم اندھے بھی ہو اور مفلوج بھی۔ پھر تم کس طرح خدا کے نعمتوں کے شکر گزار ہو اور خدا کی حمد و ثناء سے غافل نہیں ہو۔ اس نے جواب دیا کہ ایک مدت تک میری آنکھیں صحیح و سالم تھیں۔ اور میں اپنی زندگی کی ضروریات بخوبی پوری کرنے کے قابل تھا۔ حرام اور شہوت انگیز مناظر پر میری نظریں نہیں پڑتی تھیں۔ الھذا اللہ تعالی نے میری آنکھیں ہی واپس لے لیں تاکہ حرام پر میری نگاہ نہ پڑنے پائے۔ اس نے مجھے پاوں بھی دئے تھے اور میں نے ان سے کماحقہ استفادہ کیا۔ کہ کہیں کسی حرام جگہ پر میرا پاوں پڑنے نہ پایا۔ اس لئے اس نے میرے پاؤں واپس لے لیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس عالم ہست و بود میں، جس میں ہم رہتے ہیں اس نے مجھے ایسی نعمت سے نوازا کہ کسی اور کو نہیں دی۔ پھر کیوں نہ اس کی نعمت کا شکر ادا کروں ۔ حضرت موسی علیہ السلام نے پوچھا وہ کونسی نعمت ہے۔ اس نے جواب دیا ۔ ایمان کی نعمت
اس سے یہ بات واضح ہے کہ انسانی روح جب تک یقین کی نعمت سے سرفراز نہ ہو اس کا نفس کبھی بھی مطمئن نہیں ہو سکتا ہے۔ جب نفس انسانی امارگی کی کیفیت میں ہوتی ہے تو انسان جسم ، صحت، مال و دولت اور اولاد ہونے کے باوجود شرکشی ، بغاوت ، نا شکری اور نافرمانی سے باز نہیں آتا۔

آگے جاری ہے۔۔۔۔!


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں