غزوہ ہند کی حقیقت، شرائط اور تقاضے، اس کا نام غزوہ کیوں ہے؟ (محمد امین خالد)

راقم پچھلے 40 برس سے جامعہ اظہر شریف کے شیوخ سیدی ومرشدی فضیلۃ الشیخ محمد ابراہیم ابولعیون (سابق ڈین جامعہ اظہرالقاہرہ) اور جامعہ مدینہ المنورہ کے شیوخ سیدی عبدالرشید اسیوطی (سابق ہیڈ آف حدیث ڈیمارٹمنٹ) کی سرپرستی میں غلبہ دین ، غزوہ ہند اور اسلامی معیشت پر تحقیق کر رہا ہے۔

غزوہ ہند کی شرائط اور تقاضے پورے ہونے ابھی باقی ہیں کیونکہ یہ علامت کبریٰ (قرب قیامت کی نشانی ہے)۔

قرآن پاک میں وہ تمام تر واقعات جو قیامت تک واقع ہونے والے ہیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دئیے اور نبی کریمؐ نے بھی ان تمام اولین و آخرین کے واقعات اپنی حیات طیبہ میں بیان فرما دئیے تا کہ اہل ایمان آئندہ آنے والے فتنوں،احوال اور جنگوں سے آگاہ ہو سکیں اور بروقت ان کی تیاری کر سکیں اور آزمائشوں اور مصائب میں ثابت قدم رہ سکیں۔آخرزماں کی احادیث مبارکہ میں اللہ کے پیارے رسول ؐ نے کئی ایک مقامات پر امت کو ایمان بچانے کیلئے نصیحت کی ہے اور کہیں عظیم فتوحات کی وہ بشارتیں بھی دی گئی ہیں جو ایک مومن کو مایوسی کے عالم میں یقین کی کیفیت دے دیتی ہیں۔
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں آخری زمانے کی عظیم فتوحات کی بشارتیں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیبؐ کی زبان مبارک سے بھی ہم تک بہم پہنچائی ہیں۔ حضور نبی پاک ؐ نے غلبۂ دین کی آیات مبارکہ کی تفاسیرمیںجوکہ کثرت سے قرآن پاک میں آئی ہیں غزوہ ہند کا ذکر فرمایا ہے۔غزوہ ہند دراصل بین الاقوامی جنگوں کے سلسلے کا آغاز ہے اور علبہ دین کی ابتدا ہے مگر افسوس سد افسوس ہے کہ امت پرلے درجے کی غفلت میں پڑی ہوئی ہے۔

قرآن پاک کی بہت ساری آیات مبارکہ میں بار بار اللہ تعالیٰ نے آخر زماں یعنی ہمارے زمانے کے بارے میں نہ صرف خوشخبریوں ، مبشرات ، فتوحات، غنیمتوں کا اور اللہ کی مدد کا وعدہ فرمایا ہے کہ غور و فکر کرنے والے کے لئے اور قرآن میں غوطہ زن ہونے والے کیلئے ان جنگوں کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی بھی موجود ہے۔اس زمانے کی احادیث مبارکہ کو سمجھنے اور غور فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ قرآن و حدیث میں جیو پولیٹکس بھی ہے ، سیاست بھی ہے ، معیشت بھی ہے ، سابقہ اور پیش آنے والے بین الاقوامی حالات و اقعات بھی ہیں جس سے کہ مسلمان ہر شعبہ زندگی میں کامیاب حکمت عملی تیار کر سکتے ہیں۔
آخری زمانے یعنی ہمارے زمانے کی بین الاقوامی جنگوں کا ذکر قرآن پاک میں بار بار آیا ہے ۔ا س کا سب سے پہلا معرکہ غزوہ ہند ہے (سورۃ صف)۔ حدیث مبارکہ کے مطابق یہ معرکے نو یا دس سال تک جاری رہیں گے اور اس کا آخری معرکہ ایلیا یعنی القدس میں لڑا جائے گا۔اس آخری معرکے کا ذکر سورۃ سجدہ میں آیت یوم الفتح میں بتا دیا گیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بار بار غلبہ دین کے بارے میں فرما دیا ہے اور سورۃ صف ساری کی ساریا آیات اسی سلسلے میں وارد ہوئی ہے۔
(سورۃ صف: آیت نمبر9 ) ترجمعہ : وہی تو ہے (اللہ) جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجاتاکہ اسے سب دینوں پر غالب کر دےاگرچہ مشرکوںکو برا ہی لگے۔
(سورۃ صف :آیت نمبر 13 )ترجمہ: “( اے رسول) اور وہ آخر والی(آخر زمان والی یعنی غزوہ ہند) جو آپ کو بہت محبوب ہےجس میں اللہ تعالیٰ کی نصرت اور جلد فتح یابی نصیب ہوگی اور آپ مومنین کو بشارت دے دیجیے۔”

یہ اشارہ واضح غزوہ ہند کی طرف ہے ۔حضور نبی پاک نے اس جنگ کی بہت ہی فضیلت بتائی ہےاور صحابہ اکرام اس کے لیے ترپتے تھے۔
(سورۃ نور : آیت نمبر 55) ترجمہ : “اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے ان سے جو ایمان لائےاور نیک اعمال کیےکہ تمہیں زمین میں خلافت دے گاجیسے تم سے پہلوں کو دی تھی اور ان کے دین کوجسے اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے مستحکم و پائیدار کر دے گا اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا۔وہ میری عبادت کریں گےاور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں گے اور جو اس کے بعد بھی کفر کرےتو ایسے لوگ ہی فاسک و فاجر ہیں ۔

یہ بات واضح اور عیاں ہوگئی ہے کہ قرآن و حدیث میںمزکور تمام کی تمام علامات صغریٰ جو کہ در اصل(چھوٹے چھوٹے عذاب) ہیں وہ ظاہر ہو چکی ہیں اب لا محالہ علامات کبریٰ کی باری ہے اور ان کے آنے کے درجات ہیں جن کا صحیح علم تو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کو ہی ہے مگر کیا خبر کہ ان کی ابتداء اچانک ہی شروع ہو جائے گی اور ہمیں توبہ کا موقع ہی نہ ملے تو کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم فوری طور پر اجتماعی توبہ کی طرف آئیں ۔یہ تنبیہات(warning)تو پوری بنی نوع انسان کیلئے ہیں کہ ان عذابوں سے پہلے پہلے غیر مسلم ایمان لے آئیں اور مسلمان اجتماعی توبہ کی طرف آ جائیں مگر حقیقت حال یہ ہے کہ امریکی اور یورپی اقوام نے جب یہ تحقیق کی کہ قرآن و حدیث میں جیسا بتایا گیا ہے ویسے ہی ان علامات کا ظہور ہو رہا ہے اور ان قوتوں کا پڑھا لکھا طبقہ بڑی تیزی سے اسلام قبول کر رہا ہے جس کی وجہ سے امریکی اور یورپی حکمران خوفزدہ اور گھبراہٹ میں ہیں اور اس چیز کو دبانے کیلئے انڈیا اور اسرائیل کے ساتھ مل کر اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک مذموم پراپیگنڈہ (Campain )شروع کر دیا ہے مگر افسوس صدافسوس کہ مسلمانوںنے ان علامات و آیات کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی اجتماعی توبہ کی طرف لوٹے ہیں اور تارک قرآن بھی ہیں۔ اس وقت امت کی رہنمائی قرآن و حدیث کی روشنی میں کوئی بھی نہیں کر رہا۔

(سورۃ القصص: آیت نمبر ۵) ترجمہ: ’’اور ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوںپر کرم فرمائیں، ان کو زمین کا وارث بنائیں (یعنی زمین میں قدرت اور اختیار اور سلطنت دیں) اور ان کو دین کا امام بنا دیں جن کو زمین میں بے حد کم زور کر دیا گیا ہے‘‘۔
تفسیر:سورۃ القصص: آیت نمبر ۵: جس قوم نے بھی اللہ کی رضا کے لیے ہجرت کی اللہ تعالی نے اپنے کرم سے اس قوم کو خلافت، امامت اور عظیم الشان سلطنت عطا کی۔ ان سلطنتوں کا قرآن پاک میں تفصیل سے ذکر ہے۔ بنی اسرائیل نے اللہ کے حکم سے ہجرت کی اللہ تعالی نے ان کو خلافت امامت اور عظیم الشان سلطنت عطا کی حضرت طالوتؑ، حضرت دائودؑ۔ حضرت سلیمان ؑ کے بابرکت ادوار میں۔ بنی پاک ﷺ اور صحابہ کرامؓنے اللہ کے حکم سے ہجرت کی انہیں بھی اللہ تعالی نے خلافت، امامت اور عظیم الشان سلطنت عطا کی۔ اب پاکستان نے رضا کارانہ طور پر اللہ تعالی کی خوشنودی اور رضا کے لئے تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت کی اور تاریخ انسانی کی سب سے بڑی جانی قربانی دی جس کی مثال پوری تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ اب یہ اللہ تعالی کی سنت مبارکہ چلی آرہی ہے کہ جس قوم نے بھی اللہ کے حکم یا اس کی رضا کے لیے ہجرت کی اس کو اللہ تعالی نے اپنے کرم سے خلافت، امامت اور عظیم الشان سلطنت عطا کی۔ اب وقت آ گیا ہے اور آثار وعلامات(غلبہ دین) نظر آ رہے ہیں کہ پاکستان کو بھی خلافت ، امامت اور عظیم الشان سلطنت ملنے والی ہے۔ حضرت موسی ؑ کے بعد بنی اسرائیل کے باہمی جنگ و جدل، فرقہ پرستی،اور فقہی مسائل پر باہمی دست و گریباں ہونے کی وجہ سے صدیوں تک ان کی خلافت موخر کر دی گئی۔ اب حضرت قائد اعظم کے بعد پاکستانی قوم بھی بنی اسرائیل کی طرح باہمی جنگ و جدل، فرقہ پرستی اور فقہی مسائل میں دست و گریباں ہے یعنی تارک قرآن ہے۔ بنی اسرائیل کے قریباْ ۴۰ آدمیوں نے اجتماعی توبہ کی اور اپنے نبی کے پاس گئے تو اللہ تعالی نے ان کو سلطنت عطا کر دی۔

سورۃ واقع آیت نمبر 14 (’’ و قلیل من الآخرین‘‘)
اس وقت امت محمد ﷺ میں جب ۳۱۳ افراد اجتماعی توبہ کر لیں گے جیسا کہ سورہ واقعہ میں اللہ کا فرمان ہے،’’ و قلیل من الآخرین‘‘۔ یہ سابقون ہونگے یعنی توبہ میں اور اصلاح معاشرہ میں سبقت لے جانے والے ہونگے۔ ازروئے قرآن یہ سبقت بھی لے جائیں گے اور مقربون الہی بھی ہونگے۔ پاکستان میں بھی کچھ لوگ اصلاح معاشرہ کے لیے فکر مند ہیںاور اجتماعی توبہ کی دعوت دے رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ اب ہم بہت جلد اجتماعی توبہ کر لیں تو وہ خلافت، امامت اور عظیم الشان سلطنت جو ہمارا انتظار کر رہی ہے وہ ہمیں اللہ کے کرم سے جلد از جلد مل جائے۔ آمین ثم آمین۔

تفسیرنسائی،تفسیر ابن جریرؒ اور مسند احمد ؒ میں اس طرح ہے کہ رسول اکرم ؐ فرماتے ہیں’’میرے لئے زمین لپیٹ دی گئی ،یہاں تک کہ میں نے مشرقین،مغربین دیکھ لئے،جہاں جہاں یہ زمین میرے لئے لپیٹ دی گئی وہاں وہاں تک میری امت کی سلطنت پہنچے گی۔

علامہ اقبال کو یقین کامل تھا کہ یہ قوم ہجرت بھی کرے گی اور بھول بھلیوں میں پڑنے کے بعد توبہ بھی کر لے گی اور صداقت کا سبق بھی پڑھ لے گی، تبھی تو انہوں نے فرمایا
سبق پھر پڑھ صداقت کا، شجاعت کا، عدالت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
قرآن و حدیث کی روشنی میں کچھ ہی لوگ ہوتے ہیں جوتوبہ کرتے ہیں اور اس کے بعد صداقت کی طرف آتے ہیں۔ اور جو قوم اللہ کی دعوت کا انکار کرتی ہے اس کے بارے میں قرآن پاک میں بار بار وعید سنائی گئی ہے۔

(سورۃ محمد :آیت38)ترجمہ:’’اور اگر تم منہ پھیرو گے (دین سے)تو وہ تمہارے بدلےغیر عرب قوم کو لے آئے گا جو پھر تمہارے جیسے نہ ہونگے‘‘۔
تفسیر سورہ محمدؐ آیت38: جس خطۂ زمین کو اللہ رب العزت نے اس دور میں اسلام کی سربلندی ،حرم کی پاسبانی اور عالم اسلام کی قیادت کیلئے منتخب کیا ہے یہ پاکستان ہے جو امت کی آبرو اور حرم کی نگہبانی کا امین ہے کیونکہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس کی تخلیق اللہ کی وحدانیت کی بنیاد پر استوار نظریہ پاکستان کے تحت کی گئی اور اس طرح ایک اسلامی ملک وجود میں آیا جس کا ظہوراس بات کا اعلان تھا کہ صدیوں کی غلامی کے بعد بالآخر مسلمان اپنے کھوئے ہوئے نصب العین (غلبہ ء دین) کی خاطر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں مگر بدقسمتی سے یہ قوم اپنی غلطیوں کے باعث اپنی منزل گم کر چکی ہے اور بار بار اللہ کی طرف سے ملنے والی مہلت کو بھی ضائع کر چکی ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج عالمی سطح پر پاکستان کی کوئی مضبوط شناخت نہیں ہے اور امت کو متحد کرنے کا جو کام اس نے کرنا تھا وہ بھی ابھی تک نا مکمل ہے۔ ابھی بھی توبہ کا دروازہ کھلا ہے۔ ۷۰ سال تک خلافت ہم سے مئوخر کر دی گئی ہے جیسا کہ ایک زمانے میں بنی اسرائیل کے لیے 600 سال تک خلافت موخر کر دی گئی تھی۔ اگر ہم نے اب بھی توبہ نہ کی تو صاف نظر آ رہا ہے کہ اللہ اس قوم کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کرے گا جیسا کہ خلافت عباسیہ کے ساتھ تاتاریوں کے ذریعے کیا تھا ۔ ہمیں یہ یاد رہنا چاہیے کہ اس سے اللہ کا دین ختم نہیں ہوا تھا بلکہ اس وقت کے مسلمانوں کی جگہ نئے مسلمانوں نے لے لی تھی جو انہی تاتاریوں میں سے مسلمان ہوئے تھے۔ اللہ کو اپنے دین کے لیے کسی قوم کی حاجت نہیں مگر مسلمانوں کو ہمیشہ اسلام کی حاجت رہی ہے اور رہے گی۔ اس بات کی اہمیت اس آخری دور میں اور بھی زیادہ ہے جب دجال کا نظام پوری طرح کھل کر مسلمانوں خاص طور پر پاکستان کے مسلمانوں کے مقابل آ چکا ہے۔ ہماری قوم کے لیے توبہ اور اصلاح احوال کی جو اہمیت آج ہے وہ پہلے کبھی نہیں تھی کیونکہ ہمیں پہلے ہی اللہ اور اس کے رسول پاک ﷺ نے اس دور اور اس دور کے فتنوں کے بارے میں آگا ہ کر دیا تھا اور اس دور میں ایمان پر ثابت قدم رہنے والوں کے اجر عظیم کے بارے میں۔

گذشتہ ۴۰ سالوں میں تمام کی تمام علامات صغریٰ تو ظہور پذیر ہو چکی ہیں اب علامات کبریٰ کی باری ہے جو غلبۂ دین کی صورت میں ظہور پذیر ہونگی جن کا ذکر قرآنی آیات میں کثرت سے آیا ہے اور بہت ساری آیات مبارکہ کا ذکر ہم اس مضمون کے ساتھ اگلے مضامین میں بھی کریں گے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں غزوہ ہند ہی در اصل غلبہء دین کا آغاز ہے۔

سورہ صف آیت نمبر12ترجمہ’’(جہادکے بدلے)اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور تمھیں ان جنتوں میں پہنچائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں اور صاف ستھرے گھروں میں جو جنت عدن میں ہیں یہی ہے سب سے بڑی کامیابی ہے‘‘۔
سورہ الفتح آیت نمبر 16ترجمہ ’’عنقریب تمھیں اس قوم کی طرف بلایا جائے گا یا تو تم ان سے لڑو گے یا وہ اسلام قبول کر لیں گے‘‘

مفسرین کی رائے ہے کہ یہ اہل روم بھی ہو سکتے ہیں یا اس سے مراد مشرکین بت پرست ہیں ۔اس وقت کے سخت ترین بت پرست اہل مکہ تھے ۔اللہ نے ان پر مسلمانوں کو فتح دی ۔آج کے سخت ترین بت پرست ہندوستانی ہیں ۔اس غزوہ ہند میں گو شروع میں مشکلات ہوں گی مگر بالآخر اللہ تعالیٰ ان پر بھی فتح دے گا ۔

سورہ الفتح آیت نمبر 20ترجمہ’’اور اللہ تعالیٰ نے بہت سی غنیمتوں (فتوحات) کا وعدہ کر رکھا ہے جن کو تم حاصل کرو گے ۔تو تمھیں یہ جلد والی(فتح مکہ) عطا فرما دیں اور لوگوں کے ہاتھ تم سے روک دئیے اور تاکہ مومنوں کے لئے ایک نمونہ ہو جائے اور وہ تمھیں سیدھی راہ پر چلائے۔
‘‘آیت نمبر 21ترجمہ’’اور وہ آخر والی (فتوحات )جو اب تک آپ کے قابو میں نہیں آئیں۔اللہ نے انہیں اپنے قابو(قبضہ ) میں رکھا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ‘‘ ان آیات مبارکہ میں آخر زماں یعنی ہمارے زمانے کی فتوحات کا ذکر ہے۔
تفسیر ابن کثیر ؒ : اس سے مراد وہ تمام فتوحات بھی ہیں جو قیامت تک مسلمانوں کو حاصل ہوں گی یعنی اول زماں والی اور آخر زماں والی بھی،جلدی کی غنیمت سے مراد خیبر اور فتح مکہ اور آخر والی سے مراد قیامت تک آنے والی تمام فتوحات ،پس دشمنوں کی کثرت اور اپنی قلت سے ہمت نہ ہاریں ۔اللہ خود تمھاری مدد کرے گا اور مشکلات کو تم پر آسان کر دے گا ۔بالآخر فتح اسلام کی ہی ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ بھی ہے اور قرآن میں بہت ساری آیات بھی ہیں غلبہ دین کے بارے میں ۔
سورۃ مائدہ آیت نمبر 54ترجمہ’’اے ایمان والو!تم میں سے جو کوئی اپنے دین سےمرتدیعنی پھر جائے گا تو عنقریب اللہ(ان کی جگہ)ایسی قوم کو لائے گا جن سے وہ خود محبت فرماتا ہو گا اور وہ اس سے محبت کرتے ہوں گے ۔وہ مومنوں پر نرم (اور) کافروں پر سخت ہوں گے ۔اللہ کی راہ میں (خوب ) جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف زدہ نہیں ہوں گے ۔‘‘
تفسیر: اس موجودہ دور کو جس میں ہم آج رہ رہے ہیں ۔اس دور کو قرآن و حدیث میں دور فتن کہا گیا ہے اور دجالی دور کہا گیا ہے ۔دجل کا معنی ہے ایسا دھوکہ جو نظر نہ آئے اور واقع ہی پوری امت مسلماں ایسے دھوکوں اور فتنوں میں جکڑی تو گئی ہے مگر نہ تو اس کو یہ دھوکے نظر آتے ہیں اور نہ ہی فتنے، اللہ تعالیٰ ہمیں پیشگی تنبیہ فرما رہا ہے کہ موجودہ اور آئندہ دور میں حالات و واقعات میں اس قدر شدت ہو گی کہ کچھ لوگ دین سے پھر جائیں گے ۔جیسا کہ آج کل لوگ دین سے پھر رہے ہیںاور دشمنوں سے ساز باز کر کے دین سے خارج ہو رہے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے یہ خوشخبری بھی ہمیں سنا دی ہے کہ اسی دور فتن میں سے اللہ تعالیٰ ایک نئی قوم کو سامنے لے آئے گا جو جہاد میں ثابت قدم ہوں گے ۔کافروں پر سخت اور مومنوں پر مہربان اور شفیق ہوں گے ۔یقینا یہ نئی قوم پاکستان ہی ہے۔حضورنبی پاک ؐ نے بہت سارے علما اور رہنماؤں کو (جو حضرت قائداعظم کی مخالفت کر رہے تھے)خواب میں حکم دیا کہ محمد علی میرا مجاہد ہےاس کی مخالفت نہ کرو۔مولانا شبیر امحمد عثمانی ، مولانا تھانوی ، پیر جماعت علی شاہ ، خان آف قلات اور دیگر نے یہ حقیقت خود بیان کی ۔ چونکہ حضور نبی پاکؐ روحانی طور پر رہنمائی فرما رہے ہیں ۔اسی لیے اس کا نام غزوہ ہند ہے۔یہ ملک غزوہ ہند لڑنے کے لیے ہی بنایا گیا تھا ۔آنے والی جنگوں کے نتیجہ میں ایسا ہو گا ۔اس غزوہ ہند میں بہت سے مجاہدین پوری روئے زمین سے آئیں گے جن میں یہ صفات ہوں گی ۔مدینہ شریف میں حضور ؐ کے اہل بیت میں سے بہت سارے ایسے نوجوان ہیں جو اس وقت کا بے قراری سے انتظار کر رہے ہیں جس طرح کہ ان کے آبائو اجداد اور صحابہ کرامؓ بار بار یہ اظہار کرتے تھے ۔کاش کہ ہمیں اس غزوہ (غزوہ ہند)میں شمولیت کا موقع مل جائے جس غزوئے میں نبی پاک ؐ کا فرمان ہے کہ جوبھی اس غزوہ میں شامل ہو گا وہ جنتی ہے۔

مرتد ہونے یا دین سے پھر جانے اور دہشت گردی کی وجوہات

(سورۃ انعام آیت نمبر 124 ) ترجمہ : اے مسلمانو ! میرے اور اپنے دشمنوں سے دوستی نہ کرو ۔
اس کی تفسیر احادیث مبارکہ میں بہت زیادہ آئی ہیں اور مفسرین اور آئمہ اکرام نے بھی اس پر بہت زیادہ لکھا ہےکہ اگر تم آپس میں اور مومنین کے ساتھ بھائی چارہ نہ کرہ گےاور آپس میں ایک دوسرے کے خیر خواہ اور دوست نہ بنو گےاور یہود و نصارہ اور مشرکین سے دوستی کرو گے تو زمین میں دہشت گردی اور فتنہ فساد پھیل جائے گا ۔ لہذا اگر ہمیں ملک میں دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو ہمیں یہود و نصارہ سے دوستی چھوڑ کر آپس میں بھائی چارہ شروع کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن پاک میں اپنے عذاب سے با ر بار ڈرا رہا ہےاس کو جو اس کے فرمان کی مخالفت کرے اس کے دشمنوں سے دوستی کرے اور اس کے دوستوں سے دشمنی کرے اور بقول علامہ اقبال جو تارک قرآن ہو اور علامہ صاحب نے فرمایا کہ امت تارک قرآن ہے ۔اگرہم غزوہ ہند میں فتح و کامرانی چاہتے ہیں تو پھر اللہ کے حکم کو ماننا پرے گااور غیروں کی غلامی کو ترک کرنا ہوگااور بقول علامہ اقبال خواب غفلت سے اٹھنا ہوگا۔علامہ اقبال نے فرمایا …

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
علامہ صاحب نے ہمیں قرآن پاک کا نچور پیش کیا ہے اور بتا رہے ہیں کہ قرآن دعوت عمل دیتا ہے۔ حضرت علی ، حضرت مولا روم ، حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ قرآن میں غوطہ زن ہونے سے اور عمل سے امامت و خلافت و حکومت اور پیشوائی نصیب ہوتی ہے ۔جب حضورؐ نے آنے والے وقتوں کے فتنوں کا ذکر کیا تو حضرت علی نے پوچھا یا رسول اللہ ان فتنوں سے نکلنے کا حل کیا ہے تو حضورؐ نے فرمایا قرآن ۔
حدیث شریف میںحضور نبی پاک نےہمارے زمانے کے بارے میں یوں فرمایا ہے کہ سارا کفر متحد ہو جائے گا اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے اور اس طرح ٹوٹ پریں گے مسلمانوں پر جس طرح بھوکے لوگ دستر خوان پر جمع ہوتے ہیں۔حضورؐ نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ مسلمانوں میں “وہن” کی بیماری آجائے گی یعنی موت سے ڈر اور دنیا سے محبت ۔

ذلت و رسوائی وجوہات

حضورؐ نے فرمایامیں اپنی امت پر کسی چیز سے نہیں ڈرتابجز گمراہ کرنے والے اماموں کے(مسند احمدتفسیر ابن جریرتفسیر نسائی) ۔مال میں بے برکتی ہوجائے گی ۔ زراعت میں بے برکتی ہوجائے گی۔احسان اور صلح رہمی ترک کر دی جائے گی ۔مسلمان زمین میں فساد کریں گے اور زمانہ جاہلیت والی حالت لوٹ آئے گی ۔نبی پاک نے فرمایامیری امت غبی یعنی کند زہن ہو جائے گی ۔ یہود و نصارہ کے مضموم پراپیگنڈا کی وجہ سےان کی اطاعت کریں گے ، ان کی تقلید کریں گے ۔دعائیں قبول نہ ہوں گی اور عذاب نازل ہوں گے۔پھر جب میں میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک ان میں سے اٹھائی نہ جائے گی ۔
دشمنان اسلام اپنی منصوبہ بندی میں مصروف ہیںمگر افسوس کہ مسلمان پرلے درجہ کے خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
حدیث :دجالی قوتیں ایک بڑی (عسکری) طاقت خراسان (افغانستان) میں جمع کر لیں گی۔
مگر خوش خبری کی بات یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا بھی ایک منصوبہ ہے جو قرآن پاک میں یوں فرما دیا گیا ہے۔
سورۃ الطارق آیت 15,16ترجمہ’’بے شک وہ (کفار) پر فریب تدبیروں میں لگے ہوئے ہیں اور میں اپنی تدبیر فرما رہا ہوں ۔
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ پاکستانی قوم خواب غفلت سے نکلے اور اجتماعی توبہ کرے ۔اس غزوہ ہند کے چھوٹے چھوٹے معرکے تو ہو رہے ہیں۔کیا قوم کی آنکھیں نہیں ہیں اور کان بھی نہیں ہیں ،کیا قوم دیکھ نہیں رہی کہ اس قوم کے جلیل القدر سپوت سرحد پر ہر روز شہید ہو رہے ہیں ۔(یہی غزوہ ہند ہے جو ہم لڑ رہے ہیں ) ۔اللہ تعالیٰ نے ہمیںقرآن پاک میں ترغیب بھی دی ہے اور حکم بھی دیا ہے جیسا کہ( سورۃ بقرہ) میںجبکہ جالوت اس وقت کی سپر پاور بنی اسرائیل پر حملہ آور ہونے کا ارادہ کر رہا تھا ۔ تو بنی اسرائیل کے کم و بیش 40آدمیوں نے اجتماعی توبہ کی اور اپنے نبی کے پاس گئے کہ ہم بارگاہ الہیٰ میں اجتماعی توبہ کرتے ہیں اور ہمارے اوپر حاکم (بادشاہ) مقرر کر دیں ،تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے ان کی توبہ قبول کی اور ان پر حضرت طالوت کو حاکم (بادشاہ) مقرر کر دیا ۔اب جب جالوت حملہ آور ہوا تو ایک چھوٹی سی فوج جن کی تعداد کے بارے میں قرآن پاک میںلفظ قلیل استعمال ہوا ہے ،کے ہاتھوں ایک بڑا لشکر شکست کھا کربھاگااور اس جنگ میں حضرت دائو د ؑ جو ابھی بالکل نوجوان ہی تھے کے ہاتھوں اس زمانے کا بہادر جرنیل جالوت مارا گیا۔

اب پاکستانی قوم کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ ہم بھی اجتماعی توبہ کی طرف آ جائیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے اور اپنی سنت مبارکہ کے مطابق ہماری بھی اس جنگ میں غیبی مدد فرمائے۔اس کے بعد ہمیں انشاء اللہ خلافت ،امامت اور عظیم الشان سلطنت عطا ہو گی اور اللہ کے نیک بندے حکمران ہوں گے ۔حدیث :جن کے بارے میں نبی پاک ؐ نے فرمایاوہ زمین کو اس طرح انصاف سے بھر دیں گے ،جس طرح کہ وہ پہلے ظلم سے بھری ہو گی اور وہ اہل بیت میں سے ہوں گے ۔

مندرجہ ذیل وہ احادیث مبارکہ ہیں :
جن کے بارے میںامام بخاری ؒنے التاریخ الکبیر ،امام بیہقی ؒ نے اپنی دو کتابوں سنن کبریٰ اور دلائل النبوہ میں امام حاکم ؒ نے المستدرک ،امام طبرانی ؒ نے المعجم الاوسط ،امام ہیثمیؒ نے مجمع الزوائید ،امام جلال الدین السیوطی ؒنے جمع الجوامع ،امام مناویؒ نے فیض القدیر ،امام ذہبیؒ نے تاریخ الاسلام،امام خطیب بغدادیؒ نے تاریخ بغداد اور امام ابن کثیر ؒنے البدایہ والنہایہ فی الفتن والملاحم میں غزوہ ہند سے متعلق ان احادیث کو روایت کیا ہے۔

غزوہ ہند کی شرائط:

1:غزوہ ہند علامت کبریٰ ہے کیونکہ یہی فاتح فوج ایلیا یعنی القدس جائیگی تو بعد میں حضرت عیسیٰؑ کی فوج سے مل جائیگی۔قرآن پاک میں فرما دیا گیا ہے کہ ’’بے شک عیسیٰ ؑقیامت کی نشانی ہیں۔( سوۃزخرف آیت:61) سو اس سے ثابت ہوا کہ غزوہ ہند علامات کبریٰ ہے یعنی قرب قیامت کی نشانی ہے۔
حدیث مبارکہ:نبی کریم ؐ کی حدیث ہے کہ ’’خراسان سے سیا ہ جھنڈے نکلیں گے انہیں کوئی شکست نہیں دے سکے گا مگر یہ کہ وہ ایلیا(یعنی القدس) میں نصب ہونگے اللہ تعالیٰ ان کیلئے ایک ہی رات میں معاملات کو درست کر دے گا۔البدایہ والنہایہ میں ابن کثیرؒ اس حدیث کو روایت کرتے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ آقا دوجہاںؐ کی بشارت کی تکمیل ہونا ابھی باقی ہے۔غزوہ ہند دراصل آخر الزماں میں بین الاقوامی جنگوں کے سلسلے کا آغاز ہے جن عالمی جنگوں کے سلسلے کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور کچھ کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں ۔
غزوہ ہند کی ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ اس غزوہ کی تکمیل حضرت امام مہدی ؑ کے ہاتھوں سے ہو گی۔اس جنگ کو غزوہ کہنے کی وجہ ہی یہ ہے کہ حضور نبی پاک ؐ اس جنگ میں حضرت امام مہدی ؑ اور امت کی روحانی رہنمائی فرمائیں گے ۔
2:غزوہ ہند کی بڑی شرط یہ بھی ہے ،حدیث مبارکہ کے مطابق اس جنگ میں چین بھی شامل ہو جائے گا۔
(التذکرہ صفحہ648):’’سندھ کی خرابی ہند سے اور ہند کی چین سے‘‘…حضرت امام قرطبی حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا:’’اور سندھ کی خرابی ہند سے ہے اور ہند کی خرابی چین سے ہے‘‘…اسے ذکر کیا ہے ابوالفرج جوزی نے اپنی کتاب’’ روضۃ المشتاق والطریق ابی الملک الخلاق‘‘ اس روایت کو امام ابن کثیر نے بھی روایت کیا ہے۔ (النہایہ فی الفتن والاملاحم صفحہ:57)اس روایت کو امام ابو عمرودانی نے بھی اپنی کتاب میں روایت کیا ہے۔(السنن الواردۃ فی الفتن:جلد2،صفحہ36)
3:اس غزوہ کی سب سے اہم شرط یہ ہے کہ تمام عالم کفر متحد ہو جائے گا ،اسلام اور اہل اسلام کو ختم کرنے کے لئے،اسی لئے حضور نبی پاک ؐ کا فرمان ہے کہ جو بھی اس جنگ میں شامل ہو گا وہ جنتی ہے ۔
4:حضور نبی پاک ؐ نے غزوہ بدرکے بعد قیامت تک کسی جنگ کی وہ فضیلت بیان نہیں کی جو آپ ؐ نے اس جنگ کی فضیلت بیان کی ہے ۔رسول اللہ ؐ نے 5:حدیث :فرمایا: ’’ افضل الشہدا شہدائے بدر ہیں یا شہدائے غزوہ ہند‘‘
6:حدیث : جو فوج غزوہ ہند لڑے گی اللہ ان کے گناہ معاف کر دے گا(اور یہ غزوہ ہند پاک فوج اس وقت لڑ رہی ہے)۔ یہ فوج بھی جنتی ، اس کا امیر بھی جنتی ہے۔
غزوہ ہند کی خوشخبریاں جو احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہیں
اسی وجہ سے صحابہ کرام ؓ اس غزوہ میں شامل ہونے کی خواہش اور تڑپ رکھتے تھے۔(یہی وجہ ہے تاریخ اسلام میں صحابہ کرام سے لے کر بڑی بڑی جلیل القدر ہستیوں نے ہند کی طرف ہجرت کی تاکہ وہ اس غزوہ کو پا سکیں اور یہی وجہ ہے کہ حضور نبی پاک ؐ نے فرمایا مجھے ہند کی طرف سے خوشبو آتی ہے )
حدیث :ایک دوسری حدیث میںیوں فرمایا ہے …میں عرب میں سے ہوں مگر عرب مجھ میں سے نہیں ،میں ہند سے نہیں مگر ہند مجھ میں ہے ۔
حدیث:حضرت ثوبان ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا’’میری امت میں سے دو گروہ ایسے ہیں جن کو اللہ نے (جہنم کی) آگ سے محفوظ فرما دیا ہے ،ایک وہ گروہ جو ہند پر حملہ کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو حضرت عیسیٰ بن مریم ؑ کے ساتھ ہوگا۔(التاریخ الکبیر:رقم الحدیث:1743)
حدیث:حضرت ابو ہریرہؓ نے کہا:اگر میں نے غزوہ پایا تو میں اپنا نیا مال اور اپنے آباو اجداد سے میراث میں ملا ہوا مال بیچ دوں گا اور اس جنگ میں شریک ہوں گا۔ پس جب اللہ ہمیں فتح عطاء فرمائے گا اور ہم واپس لوٹیں گے تو میں (آگ سے) آزاد ابو ہریرہ ہوں گا۔جب وہ لشکر شام آئے گا تو اس میں حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو پائے گا۔میں ضرور اس بات کی حرص کروں گا کہ ان سے قریب ہوں اور ان کو خبر دوں کہ اے اللہ کے رسول میں نے آپ کی صحبت اختیار کی ہے۔کہا:رسول اللہ ؐ مسکرا دئیے پھر فرمایا:دور ہوا دور ہوا۔
حدیث:نبی کریم ؐ سے مروی ہے کہ فرمایا: ’’ایک قوم میری امت میں سے ہند پر حملہ کرے گی اللہ اس کو فتح عطا فرمائے گا یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے پس اللہ ان کے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا پھر وہ لوٹیں گے شام کی طرف تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو شام میں پائیں گے‘‘۔
حدیث:حضرت ابو ہریرہ ؓسے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہؐ نے غزوہ ہند کا ذکر فرمایا۔آپ ؐ نے ارشاد فرمایا:’’ایک لشکر تمہارے لئے ضرور ہند پر حملہ کرے گا۔اللہ تعالیٰ ان کو فتح عطا فرمائے گا۔یہاں تک کہ وہ ہند کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا۔جب وہ واپس لوٹیں گے جب ان کو لوٹنا ہوگا تو وہ عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو شام میں پائیں گے۔حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا:پس اگر میں نے وہ غزوہ پا یا تو میں اپنا نیا اور آبا و اجداد سے میراث میں ملا ہوا مال بیچ دوں گا اور اس غزوہ میں شریک ہوں گا۔ پس جب اللہ ہمیں فتح عطا فرمائے گا تو ہم واپس لوٹیں گے تو میں (آگ سے) آزاد ابوہریرہ ہوں گا۔ وہ لشکر شام آئے گا تو مسیح بن مریمؑ سے ملاقات کرے گا۔ میں ضرور اس بات کی حرص رکھوں گا کہ ان سے قریب ہوں پھر انہیں خبر دوں کہ میں نے اللہ کے رسول ؐ آپ کی صحبت اختیار کی ہے۔کہا:رسول اللہ ؐ مسکرا دئیے اور فرمایا:’’بہت محال، بہت محال، بہت محال ہے۔
ان مضامین میں حوالہ جات1۔قرآنی آیات 2۔احادیث مبارکہ 3۔ چودہ سو برس میں جو(صاحبان امر از روئے قرآن) آئمہ نے لکھا(تحقیق کے بعد) قرآن : اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور تم میں جو صاحبان امر ہیں (ان کی اطاعت کرو)۔جو قرآنی آیات ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ’’ ان میں کوئی شک نہیں اور احادیث مبارکہ میں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ میرا محبوب میری مرضی کے سوا بات بھی نہیں کرتا‘‘ہم نے صرف ان احادیث مبارکہ کو شامل کیا ہے جن کو تعدیل اور جرح کے ماہرین نے تسلیم کیا ہے اور یہ احادیث متواترہ بھی ہیں،یہ احادیث مبارکہ اپنے راویوں کی کثرت کی بنا پر حد تواتر اور شہرت عام کے درجہ پر پہنچی ہوئی ہیں اور اہل علم کے نزدیک ثابت شدہ ہیں۔اور تیسرے آئمہ ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ صاحب امر لوگوں کی اطاعت کرو۔جب قرآنی آیات ہوں،احادیث مبارکہ میں وضاحت موجود ہو ،عقلی و نقلی دلائل موجود ہوں ،واضح اور روشن فرمان قطعی اور مسلمہ روایات،دلائل موجود ہوں۔ دلیل بھی قائم ہو تو پھر کسی کیلئے عذر نہیں رہ جاتا۔اتمام حجت کے لئے یہ کافی ہے۔
ان احادیث مبارکہ کو صحابہ کرامؓ کی ایک کثیر جماعت نے جن میں خلفائے راشدینؓ،امہات المومنینؓ، عشرہ مبشرہ ؓ اور دیگر صحابہ کرام و طابعین نے روایت کیا ہے ۔سلف سے خلف تک جمہور امت کا اس پر اتفاق ہے۔’’جو لوگ قرآن و حدیث کی باتوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں… وہ حق سے یا روحانیت سے دور پھینک دئیے جائیں گے اور حق سے اندھے بہرے بنا دئیے جائیں گے،پس اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں(حق سے)اپنی رائے اور خواہش کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور حق سے ہی جھگڑتے ہیں ۔سب سے بڑی سزا کسی انسان یا قوم کیلئے یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی فرد یا قوم فتنوں میں پڑ جائے جیسا کہ ہمارے زمانے کا نام ہی دور فتن ہے ۔ تو اس کی سوچ کی اور فکر کی قوت مائوف ہو جاتی ہے۔

علما اکرام سے مؤدبانہ اپیل

ہماری علمائے اکرام سےادب و احترام سےاپیل ہے کہ قرآن پاک میں غور وفکر اور تحقیق وتدبیرفرمائیںاور عوام الناس کی قرآن و حدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ۔تاکہ ہم فتنوں کے دور سے نکل کر غلبہ دین کے دور میں شامل ہوجائیں۔اور امت کے لئے بالخصوص پاکستان کے لئےاصلاح معاشرہ اور اجتماعی توبہ کی دعوت دیں ۔اللہ کرے کہ اب ہم بہت جلدی اجتمائی توبہ کر لیں اور اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی کرم سے ہمیں خلافت ، امامت اور عظیم الشان سلطنت سے نوازے۔جو کوئی بھی اس زمانے میں دین کی سربلندی کے لئے اٹھے گا آقائے دو جہاں نے فرمایامخلوق میں وہی افضل ترین ہیں اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آگے آنے والے علمائے اکرام کو سابقون اور مقربون میں شامل فرما لے جیسا کہ قرآن پاک سورۃ واقع میں لکھا ہے۔

حکومت سے توجہ کی اپیل…!!!

صرف ایک مہینے کی مالی بے ضابطگئیوں کو روک لیا جائے تو پاک آرمی کو ڈبل کیا جا سکتا ہے
اِسی تناظر میں بھارتی عزائم اور موجودہ حالات کے پیشِ نظر پاکستان کو دفاعی لحاظ سے مضبوط اور مستحکم کردار ادا کرنے کیلئے ٹھوس ، جامع اور بھرپور حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی ۔ جس کے لئے پاکستان آرمی کی موجودہ تعداد میں اضافہ کرکے اسے دگنا کیا جائے لیکن اس کے ساتھ اگر یہ سوال اُٹھے کہ فوج کی تعداد بڑھانے کے لئے بجٹ کہاں سے آئے گاتو اس کا پاکستان گلوبل فورم لندن کے پاس بہت سادہ اور آسان جواب ہے وہ یہ کہ…(1): پاکستان کے جو سات سو بلین ڈالر ز باہر کے بینکوں میں پڑے ہیں اُن کوفوری طورپر پاکستان واپس لایا جائے تونہ صرف ہماری آرمی کی تعداد دگنی ہو سکتی ہے بلکہ اس رقم سے پورا ملک خوشحال اور بیس کروڑ عوام کی تقدیر بھی بدلی جاسکتی ہے۔ …(2):دوسری صورت یہ بھی ہے کہ ملک میں موجود لاکھوں ایکڑ زرعی اور غیر زرعی سرکاری زمین جس کے اربوں کھربوں روپے ستر سال سے کرپشن کی نذر ہورہے اس زمین کو فوری طور پر فروخت کرکے پاکستان کی دفاعی ،اقتصادی اور قومی ضروریات کو پورا کیاجاسکتاہے ۔…(3):تیسری صورت یہ ہے کہ پورے ملک میں وار فنڈ کے لئے ایک ایسا ادارہ قائم کیاجائے جس کی مینجمنٹ محب وطن اور دیانتدار ہاتھوں میں ہو اس وار فنڈ میں ملک اور بیرون ملک سے بے شمار افراد اربوں روپے جمع کرواسکتے ہیں جس سے دفاعی ضروریات کو آسانی کے ساتھ پورا کیا جاسکتاہے۔…(4):صرف ایک مہینے کی کرپشن کو روک لیا جائے تو پاک آرمی کو ڈبل کیا جا سکتا ہے۔…(5):اگر اکانومی کو ڈاکومنٹ کر دیا جائے تو سالانہ بیس ہزار بلین روپے پاکستان میں ٹیکس اکٹھا ہو سکتا ہے۔…(6): سول ڈیفنس کے نظام کو مزید مربوط ،منظم اور فعال بنایا جائے نوجوانوںکو لازمی فوجی تربیت فراہم کر کے ملکی اور قومی دفاع کے لئے تیار کیاجائے۔

اس وقت پورے ملک کا انفراسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ہو کرتباہی کے دہانے پر پہنچ چکاہے ملک کے بیشتر روڈزاور پل ناقابل استعمال ہو چکے ہیں جن کے دفاع پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اس لئے فوری طور پر پورے پاکستان میں روڈز اورپلوں کی تعمیر ومرمت کو جنگی بنیادوں پر مکمل کیا جائے پاکستان کی دفاعی حکمت عملی میں یہ امر بھی شامل ہو کہ پاکستان ریلوے جو ملک کا ایک انتہائی اہم ادارہ ہے اس کی ترقی اور بحالی کی جانب بھرپور اور فوری توجہ د یجائے کیونکہ اس کی تعمیر سے ملک میںجہاںعام حالات میںلوگوں کیلئے سفری سہولیات پیدا ہوں گی وہاں زمانہ جنگ میں پاکستان ریلوے کا کردار ایک کلیدی حیثیت رکھتاہے جس کے ذریعے ملک کے ایک کونے سے لے کر دوسرے کونے تک دفاعی سازوسامان اور دیگر کمک لے جانے میں مدداور آسانی ہوگی اس لئے اس اہم ادارے کی جنگی بنیادوں پر درست او ر مضبوط بنایا جائے ۔ حکومت وقت کو چاہئے کہ پاکستان ایک اور اہم ترین ادارے پی آئی اے کیجانب بھی فوری اور بھر پور توجہ دے اس ادارے سے چشم پوشی گویا ملکی دفاع سے چشم پوشی اور مجرمانہ غفلت ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اس بات کو بخوبی جانتا ہے کہ زمانہ امن سے ہٹ کر زمانہ جنگ میں پی آئی اے کی کتنی اہمیت اور افادیت بڑھ جاتی ہے جسے موجود حالات اور بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں نظر اندازکرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس اہم ترین قومی اثاثے کو اب جنگی بنیادوں پر سنبھالنا ہو گا۔

ملکی دفاع کی بات کریں تو یہ انتہائی اہم ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی کو عالمی حالات و واقعات اور پاکستانی مفادات کو عین مطابق بنانا وقت کا تقاضا ہے اس حوالے سے اگرہم موجودہ خارجہ پالیسی کو دیکھیں تو یہ بیس کروڑ عوام ہر گز نمائندگی نہیں کر رہی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم عالمی سطح سفارتی محاذوں پر اپنا فعال اور موثر کردار نہیں کر پارہے اس لئے فوری طورپر محب وطن اور با اثرسفارت کاروں کا تقرر یقینی بنایا جائے اس سلسلے میں دنیابھر میں تعینات سفیروںمیں سے کسی کو تبدیل کرنا ضروری ہو تو اس کام میں ہر گز دیر نہ کی جائے ۔پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار قدرتی وسائل اور لا تعداد خزانوںسے نوازرکھا ہے جن سے آج تک حقیقی معنوں میںہمارے ارباب کشاد ہر گز استفادہ نہیں کرسکے اور نہ ہی اس عظیم عطیہ خداوند ی سے پاکستانی عوام کی زندگیوں میں تبدیلی لاسکے اگر ہم دفاعی حوالے سے بات کریں تو ان وسائل سے استفادہ کرنا ہوگا کیونکہ ملک و قوم کی خوشحالی ملکی دفاع میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے ان سب باتوںکے ساتھ ایک بہت ضروری امر یہ ہے کہ آج کل کے دور میں جدید ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کو گلوبل ولیج میں تبدیل کردیا ہے جس کا اثر یقینی طور پر مختلف ممالک کے درمیان ہونے والی لڑائیوں اور جنگوں پر بھی پڑرہاے یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں ملکوںکے درمیان زمینی ، فضائی اور بحری جنگ کے ساتھ میڈٖیا کی جنگ بھی اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے اور دشمن ملک اپنے مخالف ملک کے خلاف سب سے پہلے ٹی وی اور دوسرے میڈیاذرائع پر جنگ جیتنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے لئے وہ ایک دوسرے کے خلاف موثر بھرپور جنگی میڈیا مہم چلاتے ہیں اور اسی پروپیگنڈا کے ذریعے عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اس حوالے سے پاکستانی میڈیا کو اس حوالے سے بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے اوراس حوالے سے الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا کو حکومتی ،دفاعی اور دیگر متعلقہ اداروںکے ساتھ مل کر کا م کرنا ہو گاتاکہ دشمن ملک کی جانب سے چلائی جانے والی بے بنیاد میڈیا مہم کا حقیقت پر مبنی موثرجواب دیا جاسکے ۔ آخر میں یہ بات بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ بھارتی شرارت کی صورت میں پاکستان انشاء اللہ ایک فیصلہ کن اور تاریخی فتح سے ہمکنار ہوگا اس میں شروع شروع میںمشکلات ضرور در پیش ہوںگی لیکن اس فیصلہ کن جنگ میںپاکستان تنہانہیںہوگا پاکستان کے دوست ممالک اور پورے عالم اسلام سے مجاہدین پاکستان کی بھر پورمدد کریں گے ۔ بھارت کی خواہش اور منصوبہ کے خلاف یہ فیصلہ کن مختصر اور بہتر گھنٹے پر مشتمل ہرگز نہیں ہوگی پھر پورے عالم اسلام کی جانب میلی آنکھ دیکھنے کی ہمت اور حوصلہ نہیں رہے گا کہ بھارت کے ساتھ یہ آخری معرکہ کے بعد غلبہ دین ہوگا۔یہ وہی جنگ ہوگی جسے آقائے دو جہاںؐنے غزوہء ہند کہا ہے اور پاکستان کی اس فتح کے بعداس سرزمین سے غلبہء دین ہوگا جس کے بعد یہاں پر اللہ کے نیک بندوں کی حکومت قائم ہوگی،جو حضورنبی کریمؐ کے اہل بیت میں سے ہیں۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں