ایک طرف ہم کشمیر کی جدوجہد آزادی کیلئے اپنی اپنی استطاعت کیمطابق کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہمیں کشمیر کے حوالے سے اپنی کی جانی والی کوششوں پر یقین ہے کہ اب کشمیر میں جلد ہی آزادی کا سورج طلوع ہونے والا ہے (انشاء اللہ)۔ ہم پاکستانی ہر مسلۃ کو بہت اچھی طرح سے اپنی اپنی عقل و دانش (ذاتی جسکا محل وقوع کا بھی کوئی تعین نہیں ہوتا) سے سمجھ لیتے ہیں اور پھر اس مسلئے کو جہاں جہاں موقع ملتا ہے خوب اچھالتے ہیں، ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ دراصل ہم اپنا تماشہ بنا رہے ہیں اور مفت میں تماشا دیکھنے والوں کی تو کوئی کمی نہیں، ہم ملک کی سلامتی سمیت اپنی سلامتی کو بھی بالائے طاق رکھ چھوڑتے ہیں۔ بہت کم ہی ہوتا ہے کہ کسی مسلئے کو اچھالا گیا ہو اور وہ مسلۃ کسی منتقی انجام کو پہنچا ہوکیونکہ ابھی ایک مسلئے کو صحیح طرح سے سمجھے نہیں ہوتے کہ ایک نیا مسلۃ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ سب نئے مسلئے پر طبع آزمائی شروع کردیتے ہیں اور اسطرح سے پہلا مسلۃ ایڑیاں رگڑ رگڑ کو سسک سسک کر جہاں ہوتا ہے وہیں دم توڑ دیتا ہے۔ یاد دہانی کیلئے چند ایک مثالیں رقم کرنا چاہتا ہوں، دل دہلانے والا بلکہ پوری قوم کو سوگوار کرنے والا قصور کی زینب کا واقعہ، کیا مجرم عمران کی پھانسی کیبعد سے آج تک پاکستان کو چھوڑیں قصور میں کوئی ایسا واقع دوبارہ نہیں ہوا ;238; ایسے واقعات قصور سمیت پورے پاکستان میں اسی طرح سے ہو رہے ہیں۔ کراچی کے ایک ہسپتال میں عملے کی غیرپیشہ وارانہ روئیے اور نا تجربہ کاری کی بھینٹ نو ماہ کی نشوا چڑھ گئی اور اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی، اس ہولناک حادثے کے بعد کراچی تو کیا پورے پاکستان میں ایسے کتنے ہی واقعات رونما ہوتے ہی جا رہے ہیں۔ کیا لاہور پولیس نے صلاح الدین نامی ایک غیرمعمولی(ایب نارمل) شخص کا ماورائے عدالت پہلی بار قتل کیا;238;یہ وہ چیدہ چیدہ مسائل ہیں جو ابھی تازہ ترین سماجی میڈیا کی زینت بنے رہے لیکن ایسے مسائل و واقعات تواتر سے رونما ہوتے ہی جارہے ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ واقعات ہیں جو منظر عام پر آہی نہیں پاتے۔ ہم مسائل کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جارہے ہیں اور اس کے ذمے دار بھی ہم خود ہی ہیں۔ ایک نانظر آنے والی ڈور ہے جو ہ میں ان مسائل کی طرح گھسیٹے ہی چلی جا رہی ہے، حالات ہمارے لئے کسی اس پینڈولم کی طرح ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے ہم عمل توجہ (ہیپناٹائس) ہوچکے ہیں۔ ہم سب نے مسائل کی عینک اپنی آنکھوں پر چڑھا ئے رکھی ہے جسے ہم ہمیشہ کیلئے اتارنا بھول گئے ہیں۔
بات نا چاہتے ہوئے بھی طویل ہوگئی۔ ایک طرف کشمیر کا مسلۃ کسی بہت بڑے دھماکے کی طرف بہت تیزی سے پیش قدمی کرتا دیکھائی دے رہا ہے، کسی آتش فشاں کی طرح پھٹنے کو تیار ہو رہا ہے تو دوسری طرف کراچی کے دیرینہ چھوٹے چھوٹے مسائل اب دیو ہیکل صورت اختیار کر چکے ہیں۔ کراچی کی سیاسی نوعیت ہمیشہ سے غیر معمولی رہی ہے کیونکہ یہاں سے جیتنے والے واضح اکثریت سے جیت کر ایوانوں تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن وہاں پہنچ کر انکی اہمیت سوائے اسکے کے حکومت بنانے یا گرانے کیلئے استعمال ہوتی رہی ہے۔ کراچی کے نمائندوں کو ایسی جانب دھکیلا جاتا رہاہے کہ وہ اپنی اپنی وفاداریاں حکومت وقت کو گروی رکھوادیں یا بیچ دیں لیکن کراچی کے مسائل پر بات نا ہی کریں تو بہتر ہے۔ درپردہ ایسا ہوتا رہا ، متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی جماعت کے نمائندے کہاں سے اٹھ کر کہاں پہنچ گئے جبکہ انکا دائمی مقصد مظلوم عوام کو انکے حقوق دلوانا اور ان سے آگاہ رکھنا تھا۔ ووٹر ووٹ تو دیتے رہے مسائل سے جیسے تیسے لڑتے رہے ،لیکن ووٹ لینے والے آہستہ آہستہ اپنا بوریا بستر سمیٹ کر آگے بڑھتے چلے گئے۔ ایک چھوٹی سی سڑک کی مرمت کا مسلۃ، ایک چھوٹی سی نکاسی آب کے گٹر کا مسلۃ، ایک چھوٹے اسپتال میں ادویات کا مسلۃ، ایک چھوٹا سا گلی کے کونے پر بنا کچرا کنڈی کا مسلۃ نظر انداز ہوتا چلا گیا اور آج نوبت یہاں پہنچ چکی ہے کہ وہ چھوٹی سی نالی گندے پانی کا نالہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے نمازی مسجد جانے سے قاصر ہیں جسکی وجہ سے کسی بیمار کو ایمبولینس تک چارپائی پر ڈال کر لایا جاتا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے رہائشی آئے دن کسی نا کسی عارضے میں مبتلا رہتے ہیں ،کچرا کنڈی اب بہت بڑا کچرا خانہ بن چکا ہے جہاں سے تعافن اٹھ رہا ہے غرض یہ کہ کراچی کے ہر دعلاقہ کسی نا کسی ایسے مسلئے کا شکار ہے کہ جس کی وجہ سے بدعنوانیاں اور بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ یہ سب ایک دم سے نہیں ہوا ، آہستہ آہستہ روشنیوں کا شہر تاریکی میں ڈوبتا چلا گیا لوگ چیختے رہے چلاتے رہے لیکن کوئی سننے والا ہوتا تو سنتا۔ جنہیں ہمیشہ ان مسائل کے حل کیلئے ووٹ دئیے تھے وہ ان مسائل کو چھوڑ چھاڑ کسی اور مسائل میں الجھتے چلے گئے اور اب تو بس نام رہ گیا ہے۔
گزشتہ تین ماہ سے کراچی پر مختلف طریقوں سے نظر کرم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایک تجزیاتی نقطہ نظر سے، ایسے جیسے کہ کوئی نیا ٹھیکدار اپنے تھوڑے سے کام کی بدولت کسی بڑے ٹھیکے کی جانب پیش قدمی کرتا دیکھائی دے رہا ہو۔ بارشوں سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے کراچی سے منتخب ہونے والے علی زیدی صاحب نے صفائی مہم شروع کی اور انہوں نے اپنی پہلی ترجیح نالوں کی صفائی اور بڑے بڑے کچراخانوں سے کچرا اٹھانا شروع کیا۔ اس پر مختلف قسم کی تنقید بھی کی گئی جبکہ دوسری طرف علی زیدی صاحب کو کراچی والوں کی جانب سے ناصرف پذیرائی ملی بلکہ مکمل تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی گئی۔ یقینا علی زیدی صاحب نے میئر کراچی وسیم اختر صاحب کو بھی اپنے ساتھ لیا ( حکومت میں اتحادی جماعت سے تعلق بھی ہے)۔ سماجی میڈیا کہ توسط سے یہ آگاہی مہم دوسرے محکموں کے تعاون سے چلتی رہی کہ آج کہاں کام کیا گیا اور کیا کام کیا گیا۔ مختلف اداروں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے بھی علی زیدی صاحب کی مہم چلو کراچی صاف کریں کو بہت پذیرائی ملی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میئر کراچی کی طرح علی زیدی صاحب کو بھی اپنے عہد کو نبھانے میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ علی زیدی صاحب یہ سارا مدعا اٹھا کر وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کے سامنے پیش ہوگئے اور انہیں کراچی کی صفائی مہم میں درپیش مسائل سے آگاہ کیا۔ وزیر اعظم صاحب نے سوچ بچار اور صلاح مشورے کیبعد ایک کراچی کمیٹی تشکیل دے دی جس کے ذمہ نا صرف کراچی کی صفائی بلکہ دیگر امور پر بھی قابل عمل تجاویز بھی مانگ لیں۔ علی زیدی صاحب کا یہ سیاسی پینترا تھا یا پھر کراچی والے ہونے کا حق ادا کرنا تھا یہ وقت واضاحت کردے گالیکن نالوں کی صفائی سے حالیہ بارشوں میں کراچی کو بہت حد تک فائدہ پہنچا جس کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر یہ نالے اپنی پرانی حالت میں ہوتے تو شائد آدھے سے زیادہ کراچی بارش کے پانی میں ہفتوں ڈوبا رہتا اور زندگی مفلوج ہوکر رہ جاتی۔
وقت کی بے رحمی نے ہ میں بہت بے حس کردیا ہے، خصوصی طور پر اپنوں کی دھوکا دہی نے تو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کراچی والے ہر اس اقدام کو خوش آمدید کہینگے جو انکی بنیادی معاشرتی ضروریات کے حل کیلئے اٹھایا جائے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ عمران خان ایک رہنما (لیڈر) ہیں وہ سیاسی داءو پیچ کے بغیر مسائل کے حل کیلئے پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کیلئے ہر ممکن فیصلے کر تے جا رہے ہیں اور بہت واضح دیکھائی دیا جارہا ہے کہ یہ فیصلے سیاست سے بالا تر ہیں۔ کراچی کمیٹی کی تشکیل بھی ایک ایسا ہی فیصلہ ہے۔ ابھی اس اعلان کو ہوئے کچھ ہی دن ہوئے ہیں کہ اس پر فیصلے کے تناظر میں حکومت سندھ نے پہلی دفعہ کراچی کو کچرے سے ایک مہینے میں صاف کرنے کا اعلان کردیا ہے جو بظاہر تو ایک سیاسی بیان دیکھائی دے رہا ہے لیکن بہت حد تک ممکن ہے کہ حالات و واقعات سوچ بدلنے میں اہم کردار ادا کررہے ہوں اور جو حالات کو اس نہج تک پہنچانے والے ہیں وہی اعلانات کر نے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کراچی کی صفائی تین دن یا ایک ماہ میں صاف ہونے والی نہیں ہے یہ ایک مسلسل کرتے رہنے کا کام ہے۔ کراچی کی آبادی دیگر شہروں سے آنے والوں کی وجہ سے کچھ ہی سالوں میں بہت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ کراچی پر کچھ سالوں کیلئے سیاسی کھیل بند کردیا جائے اور کراچی کو ایک منظم ادارے کے طور پر چلایا جائے۔ بس کی بھی طرح ممکن ہو، وفاقی حکومت ہو یا پھر صوبائی حکومت کراچی کو مسائل کی دلدل سے باہر نکالیں، سیاست بہت ہوچکی اور سیاست کرنے کا وقت پھر مل جائے گا۔ یہ مضمون لکھنے بیٹھا تو ایک مصرعہ مسلسل ذہن میں گردش کرنے لگا، جو آپ لوگوں کی جانب بڑھا دیتا ہوں” ہمیں تو اپنوں نے لوٹا، غیروں میں کہاں دم تھا”