جنگ دستک دے رہی ہے! (انشال راؤ)

شاید ہی کوئی ادیب یا قلم کار ہو جس کے پاس وہ الفاظ ہوں جو غزوہ ہند کی عظمت و فضیلت کا احاطہ کرسکیں کیونکہ غزوہ ہند کی فضیلت کا اعلان مدینہ سے ہوا تھا اور اس انداز سے ہوا کہ اہلیان مدینہ جان و مال نچھاور کرنے کی تمنا میں بے تاب رہتے تھے یہ سلسلہ اگلی سے اگلی نسلوں کو منتقل ہوتا ہوتا ہم تک پہنچا ہے آج کل خطہ ہند کی صورتحال بتارہی ہے کہ غزوہ ہند کی آمد آمد ہے، ٹرمپ کے تازہ ترین بیان “انڈیا یعنی ہندوتوا کے ساتھ مل کر اسلامی دہشتگردی کو دنیا سے ختم کرینگے” نے تو ممکنہ جنگ کی تصدیق کردی ہے، ٹرمپ کا تازہ ترین بیان صدر بش کے بیان ہی کا تسلسل ہے، صدر بش نے افغانستان پر چڑھائی سے قبل صلیبی جنگوں کے آغاز کا اعلان کیا تھا اور اسے دہشتگردی کے خلاف جنگ کا نام دیا تھا، اس کے بعد سے پوری امت مسلمہ مشکلات سے دو چار ہے، ٹرمپ کے حالیہ بیان سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ دہشتگردی یا دہشتگرد صرف اسلام اور مسلمان کی حد تک ہی محدود ہے وگرنہ برما میں جو ظلم و ستم کے پہاڑ مسلمانوں پہ ڈھائے گئے کیا کبھی کسی طرف سے انہیں دہشتگرد کہا گیا، بھارت میں کھلے عام سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم و بربریت کا سلوک کیا جارہا ہے وہ ساری دنیا کے سامنے ہے، کیا کسی نے ہندوتوا دہشتگردی کا نام لیا؟ رپورٹیں تک جاری ہونے کے باوجود کہیں سے کوئی صدا بلند نہیں ہوئی، کشمیر میں پچاس دن سے زائد ہوگئے کرفیو جاری ہے مگر ٹرمپ صاحب کہتے ہیں کہ اسلامی دہشتگردی کو ختم کرنا ہے وہ بھی بھارت کے ساتھ مل کر جوکہ درحقیقت عالمی جنگ کی پیش خبر ہے، اس ضمن میں نامور امریکی تجزیہ نگار و مصنف جیرالڈ فلری اپنے کتابچہ میں کہہ چکے ہیں کہ “Nuclear Armageddon is at the door” جیسا کہ امریکہ فروری میں روس کے ساتھ INF ٹریٹی ختم کرنے کا اعلان بھی کرچکے اور روس و امریکہ مہلک ہتھیاروں کی پیداوار میں اضافہ کرچکے ہیں، صورتحال کے پیش نظر جرمنی کی سپرمیسی میں یورپ بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی دوڑ میں شامل ہوگیا ہے، سابق جرمن وائس چانسلر و وزیرخارجہ Sigmar Gabriel نے اپنے آرٹیکل بعنوان “Europe & New Nuclear Arms Race” میں لکھتے ہیں کہ “Europe is now entering in potential dangerous period & must play a much more active role in nuclear arms debate” بات یہیں تک محدود نہیں ایران، کوریا و دیگر بہت سے ممالک اس دوڑ میں شامل نظر آرہے ہیں، چین جس کی توجہ کا مرکز و محور زیادہ تر تجارت معیشت ہی رہی اب پہلی بار طاقت کا مظاہرہ کرنے جارہا ہے اور یکم اکتوبر کو اپنا بند تھیلا کھولنے کا ارادہ رکھتا ہے، ایٹمی جنگ سر پر کھڑی ہے جس کا آغاز ممکنہ طور پر جنوبی ایشیا سے ہوتا نظر آرہا ہے بھارت تو پہلے ہی ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے میں پہل کا اعلان کرچکا ہے جسکے جواب میں پاکستان کا موقف بھی آچکا ہے کہ پہل کے بعد دوج بھی ہوتی ہے، اگر تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جتنی بھی بڑی طاقتیں گزری ہیں ان سب کے زوال کا سبب جنگی پھیلاو ثابت ہوا ہے، قدیمی عظیم سلطنت یورپ کا شیرازہ بکھرنے سے پہلے اس نے جنگوں کا دائرہ وسیع کردیا تھا، اس کے علاوہ سوویت یونین کی مثال سب کے سامنے ہے جس کے خاتمے کا سبب جنگی پھیلاو ہی بنا، امریکہ بھی اسی نقش قدم پہ چل رہا ہے اور جنگوں کو آگے سے آگے پھیلاتا جارہا ہے جو اس کے خاتمے کا عندیہ ہے، خطہ کشمیر اور اسکے نہتے عوام ہندوتوا دہشتگردوں کی بدترین جارحیت کی زد پہ ہیں وہ بظاہر تھکے ہوے، مٹتے ہوے، مغلوب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن حقیقتاً وہ ایک درجہ اوپر آگئے ہیں اور یہی اصول ہے کہ پستی سے بلندی کا سفر کرکے تھوڑی تھکاوٹ تو ضرور ہوتی ہی ہے جب یہ سکوت ٹوٹے گا تو کشمیر کا نظارہ بدلا ہوا ملے گا ہر گھر سے مسلح تحریک کشمیر جلوہ گر ہوگی بچہ بچہ برہان وانی بن کر سامنے آئیگا اور اس بات سے مکار ہندوتوا دہشتگرد بخوبی واقف ہے اسی لیے کشمیر کو دنیا کا سب سے بڑا ملٹری بیس بنا رکھا ہے، جس طرح نازی جرمنوں نے شوق وسعت میں جارحانہ حکمت اپنی اپنائی اور آخر میں خود ہی اس آگ کا شکار ہوگئے بعینہ بھارتی جارحیت بھی “پونیا بھومی بھارت” بنانے کے لیے وسعت دینے کا پلان ہے اور “شکاری خود یہاں شکار ہوگیا” کے مصداق بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا ہے اور شاہ ولی کی پیشین گوئی ہے کہ برہمن شکست کھا کر دائرہ اسلام میں داخل ہوجائینگے مگر یہ بات بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ عالمی جنگ کا نقطہ آغاز یہی خطہ ہے جو شروع پاک بھارت جنگ سے ہوگی اور اختتام ساری دنیا کی تباہی پہ ہوگا، حالات کی ستم ظریفی دیکھیں کہ جنگ کے بادل ہر طرف سے پاکستان کے سر پہ منڈلا رہے ہیں جبکہ اندرونی دشمن پاکستان کا دفاعی بجٹ کم کروا کر خوشیاں مناتے پھر رہے ہیں، SIPRI کی رپورٹ کے مطابق دنیا کا کل دفاعی اخراجات 2017 کے مقابلے میں 2.6 فیصد اضافے کیساتھ 2018 میں 1822 ارب ڈالر ہیں جسکے پانچ سب سے بڑے حصہ داروں میں امریکا، چین، سعودی عرب، بھارت اور فرانس ہیں، بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں غیرمعمولی اضافہ کیا ہے جوکہ تقریباً ستر ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے جبکہ پاکستانی افواج کو اندرونی دشمنوں نے ہدف تنقید بنا بنا کر دفاعی اخراجات کم کرنے پہ مجبور کردیا جس سے دشمن قوتوں کے کیمپ میں جشن منانے کا جواز پیدا ہوا، افواج پاکستان تو پوری طرح چوکنا ہے اب وقت ہے عوام کو حقیقی صورتحال اور دشمن کے ناپاک عزائم کو سمجھ کر ان کے آلہ کاروں کو پہچان کر رسوا کرنے کا جوکہ ہر پاکستانی کا فریضہ ہے۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں