ہمارے حکمرانوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ ماضی میں کی گئی دوسروں کی غلطیوں کا اعتراف بھی کرتے ہیں اور مذمت بھی مگر وہ خود بھی وہی کام سرانجام دے رہے ہوتے ہیں جن کی بار بار مذمت کی جاتی ہے۔
بینظیر بھٹو وزیراعظم بنیں تو انہوں نے سب برے حالات کا ذمہ دار جنرل ضیاء الحق کو قرار دیا لیکن انہوں نے بھی کوئی بہتری نہیں لائی، وہی لوٹ مار، وہی اقرباء پروری اور وہی لاقانونیت۔
نوازشریف اس عہدے پر فائز ہوئے تو انہوں نے بھی بینظیر بھٹو کی حکومت کو نشانہ بنایا، برے حالات کا ذمہ دار گزشتہ حکمرانوں کو قرار دیا مگر وہ خود بھی اسی ڈگر پر چلتے رہے، جن کی مذمت کرتے رہے۔
اس کے بعد ایک بار پھر آمر نے اقتدار سنبھالا، مشرف نے بینظیر بھٹو اور نوازشریف دونوں کو ہی نشانہ بناۓ رکھا مگر ان کے طویل اقتدار میں بھی کوئی خاص بہتری نظر نہیں آئی۔
جب عمران خان سیاست میں نمودار ہوئے تو انہوں نے گزشتہ چالیس سال کے حکمرانوں کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہرایا جبکہ ملک اور خطے میں جاری دہشتگردی اور انتہا پسندی کا ذمہ دار بھی ماضی کی غلط پالیسیوں کو قرار دے دیا۔
یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ پاکستان اور گرد و نواح میں جاری دہشتگردی اور جہادی تنظیموں کی بنیاد اسی کی دہائی میں جاری پالیسیوں کی بدولت ہے اور اس غلطی کا اعتراف نا صرف تقریباً سب وزرائے اعظم بھی کر چکے ہیں بلکہ موجودہ آرمی چیف (قمر جاوید باجوہ) نے بھی اس غلطی کا اعتراف اس جملے کے ساتھ کیا کہ چار دہائیاں قبل ہم نے جو بویا، وہ آج کاٹ رہے ہیں۔
عمران خان اکثر و بیشتر کہتے نظر آتے ہیں کہ افغانستان پر امریکی حملہ ہماری جنگ نہیں تھی، جس کا ہمیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ مشرف دور میں افغان جنگ بلواسطہ یا بلاواسطہ ہماری ہی جنگ تھی کیونکہ اس وقت ہماری سرزمین پر بھی جہادی تنظیمیں اپنا اثرورسوخ قائم کر چکی تھیں اور وہ امریکہ حملے کی صورت میں افغان جنگ میں فریق ہوتے، خواہ ہم امریکہ کا ساتھ دیتے یا نا دیتے، ہماری سرزمین بھی استعمال ہوتی البتہ اسی کی دہائی میں سویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی جنگ بالکل بھی ہماری نہیں تھی اور اس ایک غلطی کی وجہ سے ہمیں بار بار غلطیاں کرنا پڑیں۔
ہم نے امریکہ کی روایتی حریف سویت یونین کے خلاف ایک کرائے کی فوج کا کردار ادا کیا اور اس جنگ کے بعد نا صرف پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑا بلکہ پوری دنیا خصوصاً مشرق وسطیٰ میں مسلمان ممالک کو افغان جنگ کے نقصانات برداشت کرنا پڑے۔
سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ نے ہر اس مسلم ملک کو تباہ کرنے کا عہد کیا جو سرد جنگ کے دوران امریکہ کے مخالف بلاک میں شامل تھے۔
افغانستان، عراق، شام، لیبیا اور یمن کا ایک قصور یہ بھی تھا کہ یہ ممالک سویت یونین کے اتحادی تھے۔
اس سب تباہی کی ذمہ داری کہیں نا کہیں پاکستان پر بھی عائد ہوتی ہے کیونکہ امریکہ کو واحد سپر پاور بنانے میں ہمارا کردار سب سے اہم رہا تھا۔
افغانستان جنگ میں ملوث ہونے کی بہت سی وجوہات تھیں، جن میں امریکہ کی آشیرباد اور سعودی عرب کا مال شامل تھا۔
اس جنگ سے پہلے پاکستان کا شمار باعزت ممالک میں ہوا کرتا تھا، امریکہ کے دورے پر ہمارے صدر کو امریکی صدر خود خوش آمدید کہنے کے لئے ائر پورٹ پہنچتا تھا جبکہ سعودی عرب کے دورے پر آل سعود کے شہزادے ہمارے سربراہان کے سامنے رقص کر کے عزت افزائی کیا کرتے تھے مگر اس کے بعد نا ہی ملک کی عزت رہی اور نا ہی حکمرانوں کی۔
ہماری داخلہ اور خارجہ پالیسی تک امریکہ اور سعودی عرب میں بنائی جانے لگی۔ آج جب ہمارے حکمران چالیس سال پہلے کی پالیسیوں پر مذمت کرتے نظر آ رہے ہیں وہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے کہیں نا کہیں چار دہائیاں پہلے کی جانے والی غلطیوں کو دہرانے کی پالیسی بھی تیار ہو رہی ہے۔
یہ بات تو بالکل بھی ناقابل یقین ہے کہ چند ماہ میں ہی وزیراعظم پاکستان عمران خان کی امریکی صدر سے دو ملاقاتیں، آۓ روز عمرے کے بہانے سعودی عرب کے دورے، سعودی ولی عہد کا پاکستان کا دورہ اور امریکہ جانے کے لئے سعودی عرب کا وزیراعظم پاکستان کو خصوصی جیٹ جہاز دینا، واقعی پاکستان سے بے لوث محبت ہے۔ ان سب نوازشات سے اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں ہے کہ ایک بار پھر پاکستان کو کسی محاذ کے لئے کراۓ کے فوجی کے طور پر استعمال کرنے کی تیاری زوروں پر ہے۔
موجودہ حالات میں، پاکستان کو دو محاذوں پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یمن میں سعودی جنگ لڑنا یا ایران کے خلاف امریکہ اور سعودی عرب کے مفادات کی جنگ کے لئے پاکستانی سرزمین کا استعمال۔
یمن ایک غریب اور کمزور عرب ملک ہے، جس میں پاکستانی مداخلت کا کوئی خاص ردعمل نہیں آۓ گا۔
نچلے درجے کی فوج اپنی جانیں قربان کرے گی مگر اس کا فائدہ ہمارے حکمرانوں کو حاصل ہو گا بالکل ویسے ہی جیسے ضیاءالحق دور میں باثر شخصیات اربوں پتی بن گئے، مگر عام جنگجو کا گھر اجڑ گیا۔ لیکن ایران کی صورتحال بالکل مختلف ہے۔
ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، اس پر حملے کے اثرات اس کے سب پڑوسی ممالک پر پڑیں گے، اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ ایران کے ساتھ اسلام کے ایک فرقے کا جذباتی لگاؤ ہے اور پاکستان میں کم از کم بیس آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے۔ جو کسی بھی صورت میں ایسی کوئی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔
اب ظاہر ہے کہ پاکستان کی ایران کے خلاف کسی بھی اقدامات میں شمولیت کا ہمارے معاشرے پر نہایت برا اثر پڑ سکتا ہے،جس کا پاکستان کبھی بھی متحمل نہیں ہو سکتا۔
یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ ایران دوسرے تباہ شدہ ممالک عراق، لیبیا یا یمن جیسا کمزور ملک نہیں ہے اور اس بات کا اعتراف بھی عالمی طور پر کیا جا چکا ہے کہ ایران عالمی سیاست پر نہایت مہارت رکھتا ہے۔
گزشتہ چند سالوں میں شام اور عراق میں داعش کے خلاف ایرانی فوج نے نا صرف با انتہا تجربہ حاصل کیا ہے بلکہ اس جنگ کے دوران ایک بات یہ بھی ثابت ہوئی ہے کہ ایران کے پاس کسی بھی قسم کی جنگ لڑنے کے لئے افرادی قوت کی کمی بھی نہیں ہے۔
لبنان، شام، عراق، یمن اور کچھ حد تک افغانستان میں ایسی تربیت یافتہ ملیشیا گروپ تیار ہیں جو نا صرف طویل جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں بلکہ ایران کے احکامات پر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں پاکستان کا ایران کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی کوشش نا صرف پاکستان کے لئے خطرناک ثابت ہو گی بلکہ مشرق وسطیٰ ایک نا ختم ہونے والی جنگ کی لپیٹ میں آ جائے گا، جس کا پاکستان متحمل نہیں ہو سکتا۔
امریکی ڈالر، سعودی ریال کی بارش کے ساتھ ساتھ حکمرانوں پر خصوصی نوازشات وقتی طور پر اچھی لگتی ہیں لیکن اگر ہم نے ایک دفعہ پھر وہی ماضی کی غلطی دہرائی، جس کے نتائج ہم آج بھی بھگت رہے ہیں تو ہمارے حال کی غلطی کے نتائج پاکستانی قوم شاید آئندہ چالیس دہائیوں تک بھگتے گی۔ لہذا ہمیں ہر معاملے پر نتائج کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہو گا کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ملک مستقل دوست یا دشمن نہیں ہوتا بلکہ مفادات کے مطابق دوستیاں اور دشمنیاں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔
امریکہ اور سعودی عرب اپنے مفادات دیکھ رہا ہے جبکہ ہمارا مفاد جو کہ کشمیر ہے، اس پر ہندوستان کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے ہیں، دوسری طرف مسئلہ کشمیر پر واحد ایران ایسا اسلامی ملک ہے جس نے کشمیر کے معاملے پر کھل کر حمایت کی، پارلیمنٹ میں ہندوستان کے خلاف مذمتی قرارداد پیش کی، ان حالات کے بعد ہم کیسے دوسروں کے مفادات کی خاطر اپنے مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ ہمیں دوست اور خارجہ پالیسی بدلنی پڑے گی، جو مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیتے ہیں انہیں دوست سمجھنا پڑے گا اور جو اپنے مفادات کے لئے ہمیں استعمال کرنے کی پالیسی اپناتے ہیں،ان سے دوری اختیار کرنی پڑے گی کیونکہ یہی عالمی سیاست کا اولین اصول ہے۔