10

ایک بات پوچھوں؟ مارو گے تو نہیں؟ (میر افضل خان طوری)

کیا ہم مسلمان ہیں؟ سوری کیا ہم انسان ہیں۔۔۔؟ کیا یہ بچوں اور بچیوں کی بکھری ہوئی لاشیں ہماری معاشرتی پستی ، بے حسی اور بے غیرتی پر نوحہ کناں نہیں ہیں؟ ہمارا استاد ، مولوی اور ڈاکٹر اتنے بڑے وحشی درندے کیوں بن چکے ہیں؟

خیبر پختونخوا کے ضلع مردان کے شہر تحت بھائی کے علاقے تھانہ مسکین آباد میں پرائمری سکول ٹیچر کے ہاتھ بچے کا قتل ہو یا ضلع ناروال میں عائشہ ذولفقار کا قتل ہو۔۔۔آخر ہمارے گلیاں ،کوچے، بازار، سکول ،کالج یونیورسٹیاں، مساجد اور مدرسے ہمارے بچوں اور بچیوں کیلئے اتنے خوفناک اور غیر محفوظ کیوں ہو چکے ہیں؟ کیا ہم سب مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ گلیاں کوچے ، بازار مسلمانوں کے نہیں ہیں؟ کیا اس ملک میں %95 مسلمان نہیں رہتے؟ کیا یہاں ہر مسجد میں نماز قائم نہیں ہوتی؟ کیا یہاں ہر جمعہ کو تمام لوگ اکھٹا ہو کر نماز جمعہ نہیں پڑھتے؟ کیا یہاں ہر جمعہ کے دن قرآن کی تلاوت، واعظ و نصیحت اور تبلیغ نہیں ہوتی؟ کیا یہ ملک اسلامی نہیں ہے؟ کیا اس ملک کے سارے قوانین اسلامی نہیں ہیں؟ کیا اس ملک میں اسلامی عدالتیں موجود نہیں ہیں؟ کیا اس ملک میں شریعت کورٹس کا وجود نہیں ہے؟ کیا اس ملک میں اسلامی تنظیمیں موجود نہیں ہیں؟ کیا اس ملک میں اسلامی نظریاتی کونسل کا وجود نہیں ہے؟

میرے مطابق ان سب کا جواب نہیں میں ہے۔ کیونکہ اگر یہ سب لوگ اور قوانیں اس ملک میں موجود ہوتے تو آج ہر روز ہماری ہر گلی ، ہرکوچہ اور ہرگٹر میں ہمارے معصوم جانوں کی تشدد زدہ لاشیں اس طرح بکھری پڑی نہیں ہوتیں۔

اس ملک کے کسی سیاسی پارٹی، اسلامی جماعت، انسانی حقوق کے نام نہاد تنظیم نےآج تک اس ظلم کیخلاف کوئی مستقل آواز بلند نہیں کی۔ یہ سب کے سب اپنے ذاتی مفاد اور انا کو تسکین دینے میں مصروف عمل نظر آرہے ہیں۔ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے؟ اس ملک کے بچوں پر کیا بیت رہی ہے؟ ان بچوں کے والدین اور گھر والے کس قیامت سے گزر رپے ہیں؟ ان سب سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے۔
ہم سب اجتماعی طور پر بے حسی اور بے بسی کے قبرستان میں دفن ہو چکے ہیں ہیں۔ ہمارا ذہنی شعور کسی مردہ خانہ میں مردہ پڑا ہے۔ ہم زندہ لاشوں کی طرح ان بازاروں اور گلیوں میں پھر رہے ہیں۔

ہمیں اس ظلم پر کسی قسم کا دکھ اور غم نہیں ہے۔ ہمیں ان بچوں کے اس قتل عام پر کو ملال اور غم نہیں ہے۔ ہم اپنی ہی لاشوں پر کھڑے ہو کر اپنی بے غیرتی کا جشن منا رہے ہیں۔ ہمارے مدراس، مساجد، سکول، کالج ، یونیورسٹیاں، ہسپتال اور دیگر ادارے اس قسم کے جنسی درندوں سے بھرے پڑے ہیں مگر ہم ان کے ظلم کو اپنی خاموشی کی داد دے رہے ہیں۔

ہمارے منتخب نمائندے بھی ان واقعات پر خاموش کھڑے ہیں۔ انھوں نے آج تک ایسے درندوں کو قرار واقعی سزا دینے کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کی۔ اگر وہ اس ظلم کے حوالے سے سخت قوانین بناتے تو آج ہمارے بچے مسلسل اس بربریت کا شکار نہ ہوتے۔ لگتا ہے ان کو اس ملک میں بچوں کے ساتھ ہونیوالی زیادتی اور قتل پر کوئی دکھ اور درد نہیں ہے۔ ان کو تو صرف اپنی ذاتی پارلیمنٹ کو بچانے کی فکر ہے۔

ہم سب کی کیا زمہ داری ہے؟ ہم ان قیامت خیز مناظر ، ظلم اور تشدد پر کیوں خاموش کھڑے ہیں؟ کیا اجتماعی طور پر ہماری کوئی بھی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا ظلم ، تشدد اور زیادتی پر خاموش رہنے والے اس ظلم، جبر اور زیادتی میں برابر کے حصہ دار نہیں ہیں؟

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں