یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے! (راؤ محمد نعمان)

یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ اُن کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو ایک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کر مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق اگر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم کو ہلا دے۔

فیض احمد فیض صاحب نے یہ نظم آوارہ کتوں پر نہیں بلکہ ہماری عوام کے متعلق کہی تھی کہ شاید یہ اس سے غصہ کھا کر خواب غفلت سے بیدار ہو جائیں اور مگر آفرین ہے، پاکستانی عوام پر جو آج تک تمام تکلیفیں اور اذیتیں سہنے کے باوجود گہری نیند سو رہے ہیں اور کسی صورت آقاؤں کی ہڈیاں چبانے کا ارادہ نہیں رکھتے اسی لیے آقا ان کا خون مسلسل پی رہے ہیں۔

بلاشبہ اس نظم میں بیان کردا تمام حالات کا سامنا پاکستانی قوم برس ہا برس سے کر رہی ہے مگر یہاں اس نظم کو تحریر کرنے کا مقصد واقعی آوارہ کتوں کے متعلق بات کرنا ہے۔ کیونکہ اس وقت پاکستان میں ایک منظم مہم ان بے زبانوں کے خلاف چلائی جا رہی ہے۔ ہر طرف لٹھ بردار اور پتھروں سے لیس افراد یا بچے ان بے گھر کتوں کو مارتے اور بھگاتے نظر آ رہے ہیں اور انہیں کہیں بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا جا رہا انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ وہاں سے تیسری جگہ بھگایا جاتا ہے۔ جگہوں کی گنتی ختم ہو جاتی ہے پر انہیں کہیں پناہ نہیں ملتی۔ ان پر ﷲ کی زمین تنگ کر دی گئی ہے اور کوئی بھی ان کی جان بخشی نہیں کروا رہا اور جب لاٹھیوں یا پتھروں کے لاتعداد وار انہیں شدید زخمی کر چکے ہوتے ہیں تو لاکھوں میں سے کوئی ایک کتا اس جارحیت کا جواب دیتا ہے اور اپنے سے غنڈہ گردی کرنے والوں کو کاٹ لیتا ہے تو فوری بریکنگ نیوز بنتی ہے تمام الیکٹرنک میڈیا اس واقعہ کو مسئلہ کشمیر سے بھی زیادہ اہمیت دے کر خوب واویلہ کرتا ہے جس کے نتیجہ میں روزانہ مزید ہزاروں کتے بے قصور مار دیئے جاتے ہیں۔ اس مہم میں ملک کا تمام الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا پیش پیش ہے اور تمام آوارہ کتوں کو ریبیز وائرس زدہ باولا کتا ثابت کر رہا ہے۔ انہیں شاید نہیں پتا کہ ریبیز صرف کتوں سے نہیں پھیلتا بلکہ براعظم امریکہ میں پائے جانے والے جانوروں رکون اور سکونک سمیت چند دیگر ایسے جانوروں میں بھی ہو سکتا ہے جو پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ یہاں ان کا نام اس لیے تحریر نہیں کر رہا کہ ان کا بھی قتل عام نہ شروع ہو جائے جیسا کتوں کا ہو رہا ہے۔ ویسے تو پاکستان میں آوارہ بلکہ بےگھر کتوں کے خلاف ہر جگہ اور ہمیشہ سے باقائدہ پراپیگنڈا ہوتا رہا ہے اور ایسا سٹریٹ کریمنلز یعنی چھوٹی چھوٹی چوریاں اور ڈکیتیاں کرنے والے کرتے رہے۔ کیونکہ جب ہم اپنی نسبتاً کم مالیت کی اشیا سے غفلت، بے احتیاتی یا چوروں کی ذہانت کی وجہ سے محروم ہو رہے ہوتے ہیں تب یہ بے گھر کتے ان اشیا کی حفاظت پر متعین ہوتے ہیں اور کسی کو بھی ان اشیا پر ہاتھ صاف نہیں کرنے دیتے بلکہ ان چوروں کی واردات کی زور دار آواز سے نشاندہی بھی کرتے ہیں۔ کسی بھی علاقہ یا محلہ میں جو بھی شخص یا خاندان کتوں کے ہلکے ہونے یا تعداد کے بڑھ جانے یا انسان کے بچوں کو کاٹنے کی کوشش کا اعلان کر کہ ان بے زبانوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے یا دوسروں کو اس پر اکساتا ہے صرف اس شخص یا خاندان کی حرکات پر نظر رکھ لیں تمام چھوٹی چھوٹی چوریاں پکڑی جائیں گی۔

آپ صرف ایک بار محبت سے کسی کتے کو کچھ کھانے کو دے دیں یہ ساری زندگی آپ کو دیکھتے ہی دم ہلانے لگ جائے گا آپ اسے ماریں یا دور بھگائیں یہ آپ سے پیار کرنا نہیں چھوڑئے گا۔ اس مخلوق میں جتنی وفاداری پائی جاتی ہے افسوس انسانوں میں اتنی ہی دغابازی پھیل گئی ہے۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کتا ناپاک جانور ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ بیک وقت ایک سے زیادہ جنس مخالف سے تعلق بناتا ہے اسی لیے ناپاک یا پلید قرار دیا جاتا ہے جبکہ اسی خصلت کے انسانوں کو ہم نا صرف عزت دیتے ہیں، ان کو بڑا اور حاکم بھی بنا لیتے ہیں بلکہ افسوس کہ جب ایسے حکمران سرکاری دورہ پر مکہ مکرمہ جاتے ہیں تو ان کیلئے دنیا کے مقدس اور پاکیزہ ترین مقام خانہ کعبہ کے دروازے بھی کھول دئیے جاتے ہیں۔
وہاں کی بات کریں تو آپ کو اب مکہ مکرمہ یا مدنیہ منورہ میں کوئی کتا نظر نہیں آئے گا مگر بقول حافظ خادم حسین رضوی صاحب کے جب فتح مکہ ہوئی تب مکہ کی ایک گلی میں ایک کتیا اپنے نومولود بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ محسن انسانیت حضرت محمدﷺ نے اپنے ایک صحابی کو اس کے آگے تعینات فرما دیا کہ کہیں اس کتیا کے بچے میرے اصحاب کے پاوں تلے نہ کچلے جائیں۔ مگر آج ان کی امت کے لوگ ان بے زبانوں کو بلاوجہ جان سے مارنا ثواب سمجھتے ہیں۔

اسی جانور سے متعلق ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ بھی کثرت سے دیا جاتا ہے کہ جس گھر میں کتا ہو وہاں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا۔ اصل حدیث مبارکہ کچھ یوں ہے۔ (لا تدخلُ الملائكةُ بيتًا فيهِ كلبٌ ولا صورة)۔ ترجمعہ”فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو” کہیں بھی تصویر کے بغیر صرف کتے کی موجودگی پر فرشتوں کے داخلہ کی ممانیت کا ذکر نہیں۔ حدیث مبارکہ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جا سکتا لیکن یہ سوال ضرور رکھا جا سکتا ہے کہ کیسے حدیث مبارکہ کے ایک حصہ کو ہم زور و شور سے اپنا لیں اور اسی حدیث مبارکہ کے دوسرے حصہ کو مکمل نظر انداز کر دیں؟ آج ہر مکان، ہر دکان، ہر دفتر بلکہ ہر جیب میں تصاویر موجود ہیں۔ موبائیل فونز میں جدت آنے کے بعد ہر جیب میں تصاویر کے ساتھ ویڈیوز بھی موجود ہیں اور اب اگر کوئی ان تصاویر یا ویڈیوز پر اعتراض اٹھا دے تو وہ شدت پسند اور دہشت گرد قرار پاتا ہے۔

جہاں تک کتوں سے بیماریاں پھیلنے کی بات ہے تو کتے کے تھوک میں مختلف جراثیم ضرور موجود ہوتے ہیں اور اس سے بچنا چاہیے اگر یہ کسی چیز یا کپڑے کو لگ جائے تو اسے مٹی لگا کر دھو لینا چاہیے ایک بار مٹی لگا کر سات مرتبہ دھونے سے یہ چیز یا کپڑا صاف، پاک اور قابل استعمال ہو جائے گا۔

اکثر ایسے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ کہیں زہریلہ سانپ گھر میں گھسنے لگا تو پالتو کتے یا بلی نے اس سے لڑائی شروع کر دی اپنی جان دیدی مگر گھر والوں کو اس نے محفوظ رکھا۔ چند برس قبل خلیج بنگال سے ملحقہ ایک علاقہ میں کسی نام کے انسان نے اپنے نومولود بچے کو کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا تھا۔ جہاں وہ تقریباً مرنے کے قریب تھا کہ ایک آوارہ کتے نے اسے اپنے منہ میں پکڑا اور ہسپتال لے آیا بروقت ہسپتال پہنچنے پر اس بچے کی جان بچ گئی۔ اس کی تصاویر سوشل میڈیا پر بہت مقبول ہوئیں۔ اب وہ بچہ سکول جاتا ہے اور ہنستا کھیلتا پھرتا ہے۔ بالکل اسی طرح کا واقعہ اس سال ڈیرہ غازیخان کے ایک ہسپتال میں بھی پیش آنے کی اطلاعات آئی۔ جہاں ایک کتا انسان کے لاوارث نومولود بچے کو لے کر ہسپتال آ گیا تھا۔ مگر اس بچے یا اس کتے کے ساتھ کیا ہوا ابتک مجھے معلوم نہیں ہو سکا۔

یہاں ایک اور بات اہم ہے کہ جب پاکستان میں مقامی کتوں کا قتل عام ہو رہا ہے اسی عہد میں ہزاروں غیر ملکی کتوں کو قیمتی زرمبادلہ کے عوض دوسرے ملکوں سے درآمد کر کے پاکستان لایا جاتا ہے۔ یہ درآمدی(امپورٹڈ)کتے کسی چیز کی حفاظت نہیں کرتے بلکہ الٹا ان کی حفاظت کرنا پڑتی ہے۔ اکثر ان کتوں کے چوری ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ ان درآمدی کتوں کی باقائدہ افزائش نسل(فارمنگ) ہو رہی ہے اور ان کی قیمتیں دودھ اور گوشت کی ضروریات پوری کرنے والے جانوروں سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ ان کے مالکان جو اصل میں ان کے ملازم لگتے ہیں ان درآمدی کتوں کا شجرہ نسب اپنے شجرہ نسب سے زیادہ یاد رکھتے ہیں اور فخر سے اس کی تشہیر کرتے پھرتے ہیں۔ جس کی زندہ مثال موجودہ وزیراعظم جناب عمران خان صاحب ہیں جو کئی بار کھلے عام اپنے کتے کو سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے کتے کا بچہ قرار دے چکے ہیں۔
جہاں تک یہ سوال کہ ایسی مہم چلانے سے کسی کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے تو یاد رہے کہ پاکستان میں ادویہ ساز (فارما سیوٹیکل) کمپنیاں رشوت دینے میں سب سے آگے ہیں۔ کسی بھی مشہور ڈاکٹر (جس کی تجویز کردا ادویات چند جگہوں کے علاوہ کہیں دستیاب نہیں ہوتی) کے کلینک یا گھر کی سٹیشنری، فرنیچر، الیکٹرانک مصنوعات بلکہ گاڑیاں تک انہی کمپنیوں کی تحفہ شدہ ہوتی ہیں۔ اب اگر سینکڑوں سرکاری مراکز صحت کو اینٹی ریبیز ویکسین خریدنے پر مجبور کیا جائے تو بات کروڑوں نہیں اربوں روپے کی ہوتی ہے۔ کیونکہ ہماری حکومت چین سے ویکسین لینے کو تیار نہیں اور بھارت انہیں ویکسین دینے کو تیار نہیں اس لیے چند مغربی ممالک کی کمپنیاں ہی ایسی ویکسین فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس لیے ایک دو نیوز چینل سے سودے بازی مشکل نہیں باقی سب تو ہیں ہی لکیر کے فقیر۔

حالیہ دنوں میں بیان کردا میڈیا رپورٹس میں صوبہ سندھ کو خصوصی ہدف بنایا گیا ہے اور کہا گیا کہ رواں سال ستر ہزار(70000)چند چینلز کے مطابق ایک لاکھ پینتیس ہزار(135000) افراد کو کتوں نے کاٹا ہے اور وہ ریبیز وائرس کا شکار ہو گئے ہیں جن میں سے تیئس(23) افراد جان سے گئے۔

ریبیز بہت خطرناک اور جان لیوا وائرس ہے یہ جسے لگ جائے وہ اپنے حواس کھو دیتا ہے، آپے سے باہر ہوجاتا ہے جو اس کے سامنے آئے اسے بھی کاٹ کھانے کو آتا ہے۔ اس وائرس کا شکار شخص کسی کو کاٹ لے یا زخمی کر دے تو وائرس متاثرہ شخص سے اس زخمی شخص میں بھی پھیل جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ جب کوئی ایک شخص ریبیز کا شکار ہو جائے تو صرف وہی اس کا شکار نہیں رہتا بلکہ یہ وائرس کئی افراد میں پھیل جاتا ہے اور تمام متاثرہ افراد کی موت یقینی ہے۔

ماضی میں اس خطہ میں ریبیز وائرس سے متاثرہ افراد کے واقعات سننے میں آتے رہے ہیں ایسے افراد کو زنجیروں سے جکڑ کر رکھا جاتا تھا۔ پھر بھی قریبی افراد یا معالجین اس کا شکار ہو جاتے۔ تاہم حالیہ دنوں میں پاکستان میں کوئی ریبیز کا شکار نہیں ہوا۔ سندھ میں جو تئیس(23) افراد جان سے گئے وہ تمام کتے کے کاٹنے سے فوت نہیں ہوئے بلکہ وہ ایسے افراد تھے جن کو کتے نے کاٹا ہوا تھا۔ ایک فوت شدہ صاحب کو تو ڈیڑھ سال قبل کتے نے کاٹا تھا۔

آپ ستر ہزار تو کیا سات ہزار آبادی والا کوئی بھی گاوں دیکھ لیں ایک سال میں اس گاوں میں طبعی فوت شدگان کی تعداد تئیس سے زیادہ ہوگی۔

میرے کئی جاننے والے بھی کبھی نا کبھی کتے کے کاٹے کا شکار ہوئے اور اب ٹھیک ٹھاک زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ جب بھی وفات پائیں تو کیا الزام کتوں پر لگا دیں؟ یا انہیں ریبیز کا شکار بتائیں؟ اگر ہمارے میڈیا کو پتا چل جائے وہ تو ایسا ہی کریں گے۔

اس تحریر کا مقصد یہ نہیں کہ آپ اپنے بستر یا گھر آوارہ یا بے گھر کتوں کیلئے کھول دیں مگر یہ التجا ضرور ہے کہ خالی پلاٹوں اور کچرے کے ڈھیروں سے انہیں مت بھگائیں۔


نوٹ: کالم/ تحریر میں خیالات کالم نویس کے ہیں۔ ادارے اور اس کی پالیسی کا ان کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں