برصغیر کے غاصب حکمران…! (ساجد خان)

گزشتہ دنوں ترک صدر رجب طیب اردگان کے پاکستان کے دورے کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ترکی سے قربت ثابت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان پر ترک قوم نے چھ سو سال تک حکومت کی۔

ترک قوم نے واقعی اتنی صدیاں ہم پر حکمرانی کی یا نہیں لیکن سوشل میڈیا پر اس دعویٰ کا مذاق اڑتے ضرور دیکھا۔ عجیب بات ہے کہ وزیراعظم کے اس بیان پر ایک طبقہ عمران خان کو تاریخ سے نا بلد قرار دینے کی کوشش کرتا رہا تو ایک طبقہ تاریخ سے ہندوستان پر حکومت کرنے والے حکمرانوں کا شجرہ ترک النسل ثابت کرتا رہا لیکن کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ایسا دعویٰ کرنا یا اس بات پر فخر کرنا قابل فخر عمل نہیں ہے بلکہ باعث ندامت ہے یا کم از کم جو کچھ ماضی میں ہوا وہ ہماری محبت یا بھلائی کے لئے نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس میں بیرونی مفادات شامل تھے۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص فخریہ انداز میں دوسرے شخص کی تعریف کرتے ہوئے کہے کہ اس شخص کا دادا ہمارے دادا کے گھر میں لوٹ مار کرنے آیا، گھر کے مرد افراد کو قتل کیا، عورتوں کو لونڈی بنایا اور کئی سال ہمارے گھر پر قابض رہا لہذا اس شخص سے ہمارا پرانا تعلق ہے۔

اگر آپ کے سامنے کوئی ایسی بات کرے تو آپ اس شخص کے بارے میں کیا سوچ رکھیں گے۔

ہندوستان پر جب بھی، جس نے بھی چڑھائی کی خواہ وہ عربی محمد بن قاسم ہو، افغانستان کا پختون حکمران ہو ایرانی ہو یا ترک اور ازبک یہ نا ہی اسلام پھیلانے کی غرض سے حملہ آور ہوئے تھے اور نا ہی مسلمانوں کو بچانے کیلئے۔ سومنات کے مندر پر بار بار حملے کی وجہ شرک نہیں تھا بلکہ اس مندر میں سونے سے بنے اور جواہرات سے لدے وہ بت تھے ورنہ بت تو صدیوں پہلے افغانستان میں بھی تھے اور صدیوں بعد بھی رہے جنہیں طالبان نے توڑا لیکن ماضی کے نام نہاد مجاہدین کو وہ بت اس لئے شرک کے گڑھ نہیں لگے کیونکہ وہ بے قیمت پتھروں سے بنے ہوئے تھے۔

محمد بن قاسم کو مسلمان عورت کے خط کے افسانے پر اندھا یقین کرنے والے اس بات پر ہرگز توجہ نہیں دیتے کہ محمد بن قاسم عرب قوم کے سفاک ترین حکمران حجاج بن یوسف کا بھتیجا تھا جس کے بارے میں بنو امیہ کے منصف مزاج حکمران عمر بن عبدالعزیز نے کہا تھا کہ ساری دنیا کے سفاک ترین افراد ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں اور دوسرے پلڑے میں ہم حجاج بن یوسف کو رکھ دیں تو ہمارا پلڑا بھاری ہو گا۔

جو شخص سفاکی میں مشہور تھا اور جو صبح کا ناشتہ اس وقت تک نہیں کرتا تھا جب تک کسی سید کا سر قلم نا کر دے، وہ اتنا رحم دل کیسے ہو گیا کہ ایک عورت کے لئے سندھ پر حملہ کر دے وہ بھی تب جب اس وقت کے حکمرانوں کے اپنے حرم لونڈیوں سے بھرے ہوئے ہوں۔ فرض کریں ایسا ممکن بھی ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہندو ریاست کی جیل میں سے ایک عورت کا خط کوئی شخص ہزاروں میل دور حکمران تک پہنچانے گیا،وہ بھی اس وقت جب ہندوستان میں مسلمان تھے ہی نہیں کہ اسے رحم آ گیا ہو۔

یہ ایک فطری ردعمل ہے کہ اس وقت کے حکمران جنہوں نے ہندوستان پر چڑھائی کی، ان کا مذہب، ثقافت اور زبان ہمارے معاشرے میں پھیل گئی کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جو مذہب حکمران کا ہوتا ہے وہی عوام کا ہوتا ہے اور اس میں حقیقت بھی ہے۔
ایران ایک سنی اکثریتی علاقہ تھا مگر پھر اس علاقے پر شیعہ حکمران قابض ہوۓ تو آج ایران شیعہ اکثریتی ملک ہے، اسی طرح مصر کبھی شیعہ اکثریتی علاقہ تھا مگر صلاح الدین ایوبی نے جب مصر پر قبضہ کیا تب سے مصر سنی اکثریتی ملک ہے۔
اسپین عیسائی علاقہ تھا پھر مسلمانوں نے قبضہ کیا تو وہ علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ بن گیا لیکن جب مسلمانوں کے ہاتھوں سے وہ علاقہ جاتا رہا اور عیسائی حکمرانوں نے قبضہ کیا تو آج وہاں ایک بھی مقامی مسلمان نظر نہیں آتا۔

کسی بھی وجہ سے مذہب تبدیل کرنا غلط نہیں ہے اس لئے اگر ہندوستان میں مسلمان قابض حکمرانوں کی وجہ سے اسلام پھیلا تو اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے اور کیونکہ اسلام میں حقائق تھے لہذا اس کے بعد ہندوستان میں اسلام ختم نا ہو سکا یا شاید اس کے بعد کوئی غیر مسلم حکمران قابض ہی نہیں ہو سکا کہ عوام کا مذہب تبدیل ہوتا۔

انگریز نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو تب بہت سے گھرانوں نے عیسائی مذہب اختیار کیا اور ایسا کرنے والے ہندو خاندان کے ساتھ ساتھ مسلمان خاندان بھی تھے، کچھ ایسے خاندانوں کو میں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں جن کے آبا و اجداد کبھی مسلمان ہوا کرتے تھے۔

اس لئے ہماری سرزمین پر خواہ کسی مسلمان نے قبضہ کیا یا کافر نے،ا فغانی نے حملہ کیا یا عربی، ایرانی یا ترک، ازبک نے ہمارے نزدیک وہ غاصب ہونے چاہئیں اور جنہوں نے ان بیرونی حملہ آوروں سے جنگ کی خواہ وہ مسلمان تھے یا ہندو وہ ہمارے ہیرو ہیں کیونکہ ہیرو کا کوئی مذہب یا نسل نہیں ہوتی وہ بس ہیرو ہوتا ہے اگر ایرانی قوم آج بھی رستم کو اپنا ہیرو مان سکتی ہے تو پھر ہم کیوں نہیں۔

دوسری سرزمین سے آۓ سب حکمران غاصب تھے خواہ وہ میرے ہم مذہب ہی کیوں نا تھے کیونکہ انہوں نے مذہب کی وجہ سے ہندوستان پر حملہ نہیں کیا تھا بلکہ خزانے اور سلطنت کی وسعت کے لالچ میں حملے کئے۔

اگر غاصب حکمرانوں کو ہیرو ماننا ہی ہمارا اصول ہے تو پھر انگریز بھی ہمارے ہیرو ہونے چاہئیں لیکن ہم انہیں غاصب مانتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے ہم مذہب نہیں تھے حالانکہ وہ بھی ویسے ہی غاصب تھے جس طرح دوسرے حکمران۔

اسی مذہب کی بنیاد پر پسند و ناپسند نے برصغیر کی تاریخ کو مسخ کر دیا ہے اور یہ صرف مسلمانوں کی کہانی نہیں ہے بلکہ ہندو مذہب بھی اسی راہ پر چلتا رہا ہے اور آج بھی اسی راہ پر چل کر تاریخ کے بہت سے غیر ہندو ہیروز کو نظرانداز کر کے خود ساختہ ہندو ہیروز پیدا کئے جا رہے ہیں جو کہ ہر طرح سے غلط ہے کیونکہ جو قومیں اپنے ہیروز کو نظرانداز کر دیتی ہیں وہ ہمیشہ ہی محکوم رہتی ہیں خواہ وہ غلامی جسمانی طور پر ہو یا ذہنی،اس سے پھر کسی کو فرق نہیں پڑتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں