جدید دور میں جدید جہاد کے تقاضے…! (ساجد خان)

اللہ تعالیٰ نے جب اپنے خلفاء کو زمین پر اپنا نمائندہ بنا کر بھیجنا شروع کیا تو وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ماحول کے مطابق ہی معجزات عطا کئے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جس زمانے میں بھیجا گیا تب جادو کا دور دورہ تھا۔فرعون کے دربار میں بڑے بڑے جادوگر ہوا کرتے تھے جو جادو سے کرتب دکھا کر داد وصول کیا کرتے تھے،ان کا اپنا ایک مقام تھا،عزت ہوا کرتی تھی۔

اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو زمانے کے تقاضوں کے مطابق عصاء کا معجزہ عطا فرمایا، جو عام شخص کو جادو ہی نظر آتا تھا مگر جادوگر جانتے تھے کہ یہ جادو نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ جب فرعون کے حکم پر جادو گروں نے اپنے جادو سے سانپ بنا کر حضرت موسیٰ کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے جواب میں عصاء کو پھینک دیا جو اژدھا بن کر سب سانپوں کو کھا گیا تب جادوگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عظمت کو سمجھ گئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبی مان لیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں طب اور حکمت کا عروج تھا لہذا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زمانے کے مطابق معجزہ عطا کیا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام بیمار کو شفاء دیتے تھے اور مردوں کو زندہ کر دیتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف لائے تب علم اور شعر و شاعری کا زمانہ تھا۔

شعراء کو عزت دی جاتی تھی۔خوشی کا مقام ہوتا یا غم کا، اس کے مطابق شاعری پڑھی جاتی تھی، یہاں تک کہ جنگ کے میدان میں بھی جنگجو جب لڑائی کے لئے میدان میں آتا تھا تو شاعری میں ہی اپنا موقف بیان کرتا یا اپنا اور اپنے خاندان کا تعارف کراتا جسے تاریخ کی کتب میں رجز کہا گیا ہے۔

اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو قرآن جیسا معجزہ عطا فرمایا۔ جب مشرکین نے الزام لگایا کہ یہ قرآن الہامی کتاب نہیں ہے بلکہ محمد خود سے لکھتا ہے تب سورۃ اخلاص نازل کی اور چیلنج کیا کہ اگر یہ کلام کسی انسان کا ہے تو جاؤ اس سورۃ کے مقابلے میں کوئی کلام لے کر آؤ۔

قابل غور بات یہ ہے کہ جس کلام کو چیلنج کے لئے پیش کیا گیا وہ عین شاعری اصول کے مطابق تھی، چار سطروں کی رباعی کہیں تو شاید زیادہ بہتر ہو گا۔

اللہ تعالیٰ اس دنیا کا خالق ہے،وہ چاہتا تو حضرت موسیٰ کو قرآن دے دیتا یا نبوی کریم کو عصاء دے دیتا لیکن ایسا نہیں کیا کیونکہ اگر طب و حکمت کے دور میں عصاء کا معجزہ ہوتا تو شاید یہ نا انصافی ہوتی بالکل ایسے ہی جیسے آپ دو افراد کو مقابلے کے لئے میدان میں بھیجیں لیکن ایک کو تلوار دیں اور دوسرے کو بندوق تو ظاہر ہے کہ اسے مقابلہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ وہ نا انصافی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کی سب سے اہم صفت عدل ہے،اس لئے خالق کائنات ہونے کے باوجود اس نے زمانے کے مطابق ہی معجزات عطا فرمائے۔

جب غزوہ بدر میں کفار قیدی بنے تو نبی کریم نے اعلان کیا کہ جو قیدی کسی مسلمان کو لکھنا پڑھنا سکھائے گا،اس کی سزا معاف ہو جائے گی،اب ظاہر سی بات ہے کہ وہ تعلیم دینی نہیں بلکہ دنیاوی تعلیم تھی کیونکہ نبی کریم سمجھتے تھے کہ ریاست مدینہ کو قائم رکھنے کے لئے زمانے کے ساتھ چلنا نہایت ضروری ہے۔

یہاں تک تو سب ٹھیک تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلم امہ جمود کا شکار ہوتی چلی گئی،آج اگر ہم توجہ دیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم کم از کم ایک ہزار پہلے کے زمانے میں رہ رہے ہیں اور اس جمود کی وجہ وہ طبقہ ہے جن کو ہم نے دین حوالے کیا یا وہ خود ہی مالک بن بیٹھے۔

آپ اگر ان سے سائنس و ٹیکنالوجی کی بحث کریں تو آپ کو ایک ہی جواب ملے گا کہ یہ سب گمراہی ہے،اس دنیا کی تخلیق کا اصل مقصد اللہ کی عبادت ہے اور ہمارا مقصد دین کی حفاظت کرنا ہے اور بس لیکن کیا نبی کریم کے زمانے میں مسلمان دین کے احکامات پر عمل نہیں کرتے تھے یا وہ دین کی حفاظت نہیں کرتے تھے،وہ یہ سب کرتے تھے تو پھر ایسی کیا ضرورت پیش آئی کہ ان کو دنیاوی تعلیم دینے کے لئے نبی کریم نے اتنی جدوجہد کی۔اب کیا آج کا مسلمان نبی کریم سے زیادہ عقلمند ہو گیا ہے یا ہم دین کو زیادہ سمجھتے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی عجیب ہے کہ یہ طبقہ ایک طرف تو سائنس و ٹیکنالوجی کو کفر اور حرام قرار دیتا ہے لیکن دوسری طرف فخریہ طور پر تاریخ سے یہ بیان بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ یہ کفار نے جو آج سائنس و ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی کی ہے،یہ سب علم مسلمانوں کا چوری کیا ہوا ہے،کبھی کہا جاتا ہے کہ اندلس کے کتب خانوں سے علم حاصل کیا تو کبھی کوئی اور عذر پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ جب یہی علم ہزار سال پہلے مسلمانوں کے لئے حلال تھا تو اب وہی علم حرام کیسے ہو گیا۔ اب اس جمود نے ہمیں کتنا نقصان پہنچایا، اس کا اندازہ لگانا بھی ہمارے لئے مشکل ہے۔

آپ اگر مغرب میں ہٹلر کی تعریف کر دیں یا نازی سیلوٹ کر دیں تو آپ نے بہت بڑا جرم کر دیا لیکن وہیں اگر کوئی نبی کریم کی گستاخی کرے تو اسے حق آزادی رائے کا نام دیا جاتا ہے۔

اس خطے میں آپ قرآن مجید کی توہین تو کر سکتے ہیں، اسے جھوٹا کہہ سکتے ہیں مگر آپ کو ہولو کاسٹ پر اعتراض کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔

آپ سوشل میڈیا پر ہی تجربہ کر لیں اور فیس بک پر ہٹلر کی تصویر لگا دیں تو جلد ہی آپ کی پروفائل سے وہ تصویر ہٹا دی جائے گی یا آپ کی پروفائل ہی بلاک کر دی جائے گی۔

اب اگر ہم کسی مولوی سے اس تضاد کی وجہ پوچھیں تو وہ ایک ہی بات کہے گا کہ یہ کفار اسلام کے دشمن ہیں اور یہ یہود و نصاریٰ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے شاید ان کی بات درست ہو لیکن اگر آپ کو یاد ہو کہ جب مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کو دہشتگرد قرار دے کر شہید کیا گیا تو اس وقت برہان وانی کی تصویر بھی فیس بک پر لگانے پر فیس بک انتظامیہ سخت ایکشن لیتی تھی۔
اس سال کے آغاز میں امریکہ نے عراق میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ڈرون حملے میں شہید کیا،اس ظلم پر جس نے بھی مذمت کی گئی یا وہ خبر نشر کی،اس پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اب اس مسئلہ پر بھی یہی جواب ملے گا کہ ہندو اور یہود و نصاریٰ ایک ہیں اور ہمارے دشمن ہیں لیکن کیا واقعی میں اصل وجہ یہی ہے یا کچھ اور ہے۔

یہودیوں نے جنگ عظیم دوم کے بعد ایک حقیقت کو سمجھ لیا کہ اگر ہمیں زندہ رہنا ہے تو ہمیں مزاحمت کرنی پڑے گی،اب ان کے پاس دو راستے تھے،اول یہ کہ وہ بندوق اٹھائیں اور وہی کچھ کریں جو ان کے ساتھ کیا گیا لیکن اس سے بقاء کی ضمانت نہیں تھی اور تاریخ میں بھی لکھا جاتا کہ مغرب میں دو مذاہب کی جنگ ہوئی جس میں یہودیت کو عبرت ناک شکست ہوئی۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ جتنے بھی اس قتل عام سے بچ گۓ ہیں،وہ اس دنیا میں ایسی طاقت بن جائیں کہ کم تعداد ہونے کے باوجود بھی دنیا پر راج کریں، انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور کامیابیاں حاصل کیں۔

آج یہودی دنیا کا امیر ترین اور طاقتور ترین مذہب گردانا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے زمانے کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی،اسی لئے ہر شعبہ میں یہودیت نے اپنا آپ منوایا، اب یہ طبقہ اتنا بااثر ہے کہ جرمنی میں بھی ہٹلر کی تعریف کرنا جرم ہے حالانکہ ہٹلر اسی ملک کا سربراہ رہ چکا ہے۔امریکہ کی پالیسیاں بھی اسی طبقہ کی پسند و ناپسند کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جاتی ہیں۔

ہولوکاسٹ میں جہاں کچھ حقیقت ہے وہیں اس میں بہت سارا جھوٹ بھی شامل کیا گیا لیکن اس جھوٹ پر بحث نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہودی برادری اس کی اجازت نہیں دیتی۔ دوسری طرف ہم اپنے روایتی پڑوسی دشمن ہندوستان کی بات کر لیتے ہیں۔

جب ہم نام نہاد مجاہدین پیدا کرنے کے لئے مدارس اور تربیتی کیمپ بنا رہے تھے، ہندوستان میں آئی ٹی شعبہ کے لئے تعلیمی ادارے بن رہے تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں کے اعلیٰ عہدوں پر بھارتی شہری براجمان ہیں اور جب بھی سوشل میڈیا پر ان کے آبائی ملک کے خلاف کوئی معاملہ زور پکڑتا ہے تو وہ اسے ختم کرنے کے لئے اپنے اختیارات کا خوب استعمال کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر برہان وانی کی تصویر لگانا بھی جرم ٹھرا جبکہ ہم نے دنیا کو سوائے تباہی اور خون خرابہ کے اور کچھ نہیں دیا۔ ہم جہاد کے معاملہ پر آج بھی جمود کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جہاد کا مطلب صرف بندوق اٹھانا، مخالفین کو مارنا ہے حالانکہ زمانے کے ساتھ ہمیں اس اہم جز میں بھی کچھ تبدیلی لانی چاہئے تھی۔

ہمیں اب تلوار کے بجائے قلم اٹھانے کی طرف توجہ دینی چاہئے تھی اور اس کا فائدہ یہ ہوتا کہ جہاد کے نام پر جس طرح ہم نے صرف اپنے مسلم ممالک ہی تباہ کۓ ہیں، وہ نا صرف محفوظ رہتے بلکہ مزید ترقی کرتے اور ایک وقت پر مسلمان قوم دنیا کی مجبوری بن جاتی اور تب مغرب میں نبی کریم یا اسلام کی توہین کرنا بھی ویسے ہی جرم ہوتا جیسے آج ہٹلر کی تعریف کرنا ہے اور کسی ملک کی جرآت نا ہوتی کہ وہ اسلام کے خلاف سازش کرے بلکہ ہم اسی طرح دنیا کا نظام چلا رہے ہوتے جس طرح آج یہودی برادری چلا رہی ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس سے ہمارا دفاع بھی مضبوط ہو جاتا،ہمارے پاس جدید اسلحہ ہوتا اور کوئی دشمن ہم پر میلی نظر رکھنے کی جرآت بھی نا کرتا لیکن اس طبقہ کو کیسے سمجھایا جائے جو اسلام کا ٹھیکیدار بھی بنا بیٹھا ہے مگر وہ زمانے کے ساتھ چلنے کے بجائے ہزار سال پہلے کے زمانے میں رہنا زیادہ پسند کرتا ہے۔

آج ہماری حالت یہ ہے کہ سب کچھ کفار کا ہی استعمال کرتے ہیں،یہاں تک کہ کفار کے خلاف جہاد بھی ان کی بنائی کلاشنکوف، راکٹ لانچر اور میزائل سے کرتے ہیں، سوائے نعرہ تکبر کے علاوہ کچھ بھی تو ایسا نہیں ہوتا جس پر ہم فخر کر کے کہیں کہ یہ ہتھیار ہم نے کفار سے جہاد کے لئے خود تیار کیا ہے۔سب کچھ ہی تو انہی کفار کی عطا ہوتی ہے جسے ہم ان لوگوں پر ہی استعمال کرتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ نجس ہیں یا بدترین قوم ہیں لیکن اگر حقائق دیکھے جائیں تو آج اگر ہم زندہ ہیں، تھوڑی بہت سہولیات میسر ہیں،جو ترقی ہے وہ انہی کفار کی مہربانی ہے ورنہ تصور کریں کہ ہم آج سر درد کا علاج کیسے کر رہے ہوتے اگر پیناڈول کی گولی نا ہوتی۔

ہم آج بھی حج کرنے کے لئے اونٹ اور گھوڑے ہی استعمال کر رہے ہوتے اگر کفار جہاز اور گاڑی ایجاد نا کرتے۔

آج جبکہ کرونا وائرس پوری دنیا میں تباہی اور خوف و ہراس پھیلا رہا ہے تو مسلم امہ بے بس نظر آ رہی ہے،ہم اس انتظار میں ہیں کہ کب کفار اس وبا کی ویکسین دریافت کریں اور ہم اس سے محفوظ رہ سکیں۔

جب ہم نے ہر معاملے پر انہی کفار کا محتاج ہونا ہے تو پھر ان کے خلاف جہاد کس بات کا۔ اب اگر ہمیں کفار سے اتنی ہی نفرت ہے تو ہم خود اپنی ایجادات کیوں نہیں کرتے، انسانیت کو بچانے اور ترقی دینے کے لئے خود میدان میں کیوں نہیں آتے۔ہمیں صرف انسانیت کی تباہی کے لئے ہی کیوں استعمال کیا جا رہا ہے۔

قوم کو ملا ازم نے گمراہ کر کے غلط راستے پر روانہ کر دیا ہے جو ترقی کے بجائے پستی کی طرف لے جا رہا ہے،اس لئے وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کا ازالہ کریں۔

مسلم امہ کے اکابرین اور علمائے حق مل بیٹھ کر اس مسئلہ کا حل نکالیں تاکہ ہم بحیثیت قوم اس دنیا کی ترقی میں اپنا تعمیری کردار ادا کر سکیں اور اس قوم کو ملا ازم کے چنگل سے آزاد کروائیں کیونکہ ملا کے پاس ہر مسئلہ پر بے پر کی تاویل موجود ہے۔

اس سے اگر پوچھا جائے کہ مسلمان زوال کا شکار کیوں ہیں تو جواب ملتا ہے اسلام سے دوری کی وجہ سے لیکن جب پوچھا جائے کہ پھر غیر مسلم کیسے ترقی کر رہے ہیں تو تسلی کی ایک میٹھی گولی دے دی جاتی ہے کہ پریشان مت ہو کیونکہ اللہ نے آخری زمانے میں مسلمانوں کے پوری دنیا پر راج کی نوید سنائی ہے مگر کیا ہم اس نوید کو پورا کرنے میں کچھ کردار ادا نہیں کر سکتے لیکن اس کو کون سمجھاۓ کہ اللہ نے اس سے پہلے مسلم امہ کی ترقی پر بھی کوئی روک ٹوک نہیں لگائی تو ہم ترقی کیوں نہیں کر سکتے اور آنے والی نسلوں پر ہی یہ ذمہ داری ڈال کر کیوں چلے جائیں۔

اللہ تو چاہتا ہی یہی ہے کہ اسلام کا ہر طرف بول بالا ہو،مسلمان پوری دنیا پر راج کریں لیکن ہم نے اس کو آخری زمانے کے ساتھ منسلک کر کے اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ اتار دیا ہے اور آج دنیا میں ایک بڑی تعداد ہونے کے باوجود بے نام و نشان ہوتے جا رہے ہیں اور یوں پی زوال پذیر رہیں گے جب تک ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی عادت نہیں اپنائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں