گلگت کی وادی حراموش پارٹ نمبر 3 (سید صفدر رضا)

ایک بار پھر نالہ عبور کرنے کا اعلان ہوا خیر پانی کی روانی بےشک بہت تیز تھی مگر بڑے بڑے پتھر پانی سے ایسے سر نکالے کھڑے تھے جیسے لاہور کی نہر میں شرارتی بچے تیراکی کے دوران سر باہر اور دھڑ پانی میں رکھ کر لطف اندوز ہو تے ہیں ہم نے اب کی مرتبہ کمال دلیری سے بغیر امداد کے نالہ عبور کیا تھوڑا آگے بڑھے تو سبز میدان سامنے تھا اور دور کوئی گاؤں یا بستی معلوم ہوتی تھی امید بندھی کہ منزل قریب ہے سب سستانے کے لیئے بیٹھے لیٹ گئے ایسے لگ رہا تھا کہ ہم زمین پر نہیں مخملی بستر پر استراحت فرما رہے ہیں جسم کو وہ سکون مل رہا تھا جو نرم گداز بستر اور شاید AC میں بھی۔ نہ مل سکےسبحان تیری قدرت ہمیں اللہ کا نور آسمان پر اڑتے پرندے بادل اور اس ارض پر مشتمل دل کو ایسا سکون اور آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا جو گزشتہ تمام تکالیف اور مشکلات کو بھلا رہا تھا اب سو چتا ہوں تو دیوانے کے خواب کو تعبیر ملنے جارہی تھی ہمارے سامنے جنگلات جن کے کٹے ہوئے تنے بیٹھنے کیلئےکسی صوفے سے کم نہ تھےسبز جھاڑیاں جیسے اس خطے کی مانگ سنوار رہی ہوں خوبانیاں اور دیگر پھلوں کے درخت غضب کی دلکشی کا باعث بن رہے تھے گویا میں واقعی کسی اور ہی دنیا میں ہوں اپنی دنیا کے جھمگھٹوں پریشانیوں فکرات سے لا تعلق ہو چکا تھانہ بجلی پانی گیس کے بل کی فکر نہ دیگر مسائل ہمراہ تھے یوں لگتا تھا کہ اپنی پر فتن دنیا کے مصائب سے بالکل چھٹکارا پا لیا ہےحرا موش کی وادی کا حسن سر چڑھ کر بول رہا تھا ہمیں ایسی میڈوز دیکھنے کا شاید کیا یقیناً اتفاق نہ ہوا تھا ہمارے گائیڈ نے ان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ لیلی چوٹی ہے ہم نے ازرائے تفنن کہا لیلی کے متعلق تو سن رکھا ہے سانولی تھی مگر یہ تو ایسی نہ ہے اگر تسلیم کر لیا جائے یہ ہی لیلی ہے تو مجنوں بھی یہیں کہیں ہوگا کچھ دور ہی چلے تھے کہ جو گلیشئر دکھائی دے رہا تھا پتہ چلا اب اسے عبور کرنا ہے یہ کیا مصیبت ہے ہمارے دریافت کرنے پر کہ کوئی اور سہل راستہ نہ ہے کیونکہ گلیشیئر جو اپنی ڈھلوانی شکل میں جو حسن وجمال کی جھلک پیش کر رہا تھا اب خوف کا موجب بن رہا تھا کیونکہ ناران میں اک مرتبہ گلیشیئر سے پالا پڑ چکا تھا جو خطرناک تو نہیں دکھتا تھا نہ کبھی اس سے پہلے اس کاتجربہ تھا اس پر چلتے ہوئے برف کی سختی کے باعث پھسلن کی وجہ سے گر کر ٹھنڈی سے چوٹ کھا چکے تھے اس لیئے گلیشیئر کا تجربہ ہمارے لئیے کوئی اچھی یادیں نہیں رکھتا گائیڈ موصوف نے فرمایا دوسرا راستہ ہے مگردو سے ڈھائی گھنٹے کی چڑھائی طے کرنی پڑے گی اور سورج کے غروب سے قبل ہمیں کیمپ سائٹ پر پہنچنا ہے یہ سن کر ہم خود کو کوس رہے تھے کہ ضرورت ہی کیا تھی جان جوکھوں میں ڈالنے کی ہماری اکیلے کی رائے اس وقت رد ہو گئی جب دانش کے ساتھ وہاں کے مقامی رہائشی آخوند صاحب نے گلیشیئر ہی عبور کرنے کے مشورے اور حفاظتی طور طریقوں سے آگاہ کیامرتے کیا نہ کرتے فیصلہ تسلیم کیا اور وہ گلیشیئر جس کو دور سے دیکھ کر ہم اس کے قصیدے بیان کر رہے تھے گویا وہ دور کے ڈھول کے مصداق تھے اب ہماری چلنے کی رفتار بھی کم ہو گئی تھی جیسے بچہ گھٹنیوں چلتا ہے اور یکدم کھڑے ہو کر چلنا شروع۔کردے اور لڑکھڑا لڑکھڑا جائے ہم گلیشیئر پر بالکل ایسے ہی چل رہے تھے کہ ہمارے چلنے سے گلیشیئر کو تکلیف۔ نہ ہو ہمارے پوٹرز گائیڈ تو ایسے چل رہے تھے جیسے کوئی مسئلہ نہیں مگر آخوند صاحب کی طائرانہ نظر حراموش کے شوخ رنگوں میں ہمارے اڑتے ہوئے پھیکے رنگ کو تاڑ چکی تھی تبھی وہ ہمارے ساتھ ساتھ ڈھارس بڑھاتے چل رہے تھے ہم کسی طرح یہ سفر جلد طے کرنا چاہتے تھے مگر قدموں کا کیا کریں جو بوجھل ہوتے جارہے تھے گزشتہ سفر کی مشکلات سے گزر کر تھکاوٹ پہلے ہی بڑھ گئی تھی مگر جیسے میدان میں پہنچے سفر کی مشکلات جو کھو گئی تھیں یہ مناظر کی خوبصورتی کے سامنے ان مشکلات کی کوئی اہمیت نہ رہ گئی تھی اب مزید جوان ہو کر ہمارے سامنے آ کھڑی تھیں حراموش کی بلند چوٹی مشکلات کا پہاڑ معلوم ہورہی تھی، اب راستے کے پتھر کم اور برف کے پتھر لگ رہے تھے جن پر چلنا پل صراط پر گزرنے کی مشکلات یاد دلا رہا تھابرف کے پتھروں پر چلنے کا یہ تجربہ بڑاتلخ معلوم ہو رہا تھا گلیشیئر کی ڈھلوان اپنی جگہ مگر خطرہ یہ تھا کہ کہیں یہ کھسک ہی نہ جائیے یا گلیشیئر میں نیچے پانی پگھل پگھل کر کھوکھلا نہ ہو کہ ہمارے وزن سے بیٹھ جائے اور ہم کو کوئی ریسکیو بھی نہ کر سکے مگر آخوند صاحب کہنے لگے ان گلیشیئر کی تاریخ کے متعلق کچھ بتانا ممکن نہیں مگر یۃ ہماری سوچ سے بھی زیادہ پرانے گلیشیئر ہیں اور دنیا کے قدیم اور بڑے گلیشئیر ز میں اس کا شمار ہوتا ہے یہ کیا گلیشیر میں دراڑھ لگتی ہے راستہ بالکل ہی مختصر چوڑائی پر منحصر ہے ذرا سا پاؤں پھسلا تو یہ آخری اور حتمی غلطی ہوگی ہم تو بیٹھ ہی گئے دل پچھلے مناظر پر ہی خوش تھا بس دیکھ لیا حراموش اڑ گئے ہمارے ہوش ہمارے ساتھی پوٹرز آبرار بھائی حتیٰ دانش بھی ہمیں آخوند صاحب کے ساتھ چھوڑ کر آگے نکل چکے تھے ہم ہی سب سے پیچھے رہ گئے تھے دل چاہ رہا تھا کہ یہ سب آخری ملاقات ہی فرما لیتے مگر آفرین ہے آخوند صاحب پر کہ جن سے پرانی شناسائی بھی نہ تھی مگر اک اللہ کے بعد ہماری ڈھارس اور اخری امید و سہارا تھے مشکل کی اس گھڑی اور جان لیوا مصیبت سے نکالنے میں ممد ومعاون ٹھہرے اس پتلے سے راستے سے ہمارا ھاتھ تھام کر گزارا اس سارے سفر کا کلائمکس یہ ہی مرحلہ تھا اب آگے چلے اور ڈھلوانوں سے گزر کر سامنے کی جانب گامزن تھے۔ ہماری جان میں جان آئی ہمیں بتایا گیا یہ مانی گلیشیئر ہے سامنے ہی وادی ہے جس کو جنگل نے بھی خوبصورت بنا رکھا ہے ہم گلیشیئر عبور کر چکے تو سر سبز وادی نے ہم تھکے ھاروں کو اپنی گود میں لے لیا ہمیں اب پتہ چلا کہ دھرتی کو دھرتی ماں کیوں کہتے ہیں ہمیں وہ سکوں اور تحفظ کا احساس ہو رہا تھا جو ہمیں اپنی مادر گرامی کی آغوش میں ملتا ہےاک جانب بکریاں چر رہی ہیں دوسری جانب گدھوں کی آوازیں اپنی موجودگی کا پتہ دے رہی ہیں گائیڈ کی نسبت ہمیں اصل رہنما تو اب آخوند صاحب تھے جن کا کہنا تھا کہ یہ کٹوال گاؤں ہے سامنے جو جنگل دکھائی دے رہا ہے اس میں باغ یا نتھیا گلی سے زائد بندر ہیں میدان اس پہاڑوں کی دنیا میں کیا خوب لگ رہا ہے دور تک پھیلا ہوا سبزہ اس کے ایک جانب سفید برف پوش پہاڑ دیکھنے میں قومی پرچم سے مماثلت رکھتا ہے گاؤں کے بچے فٹبال اور کرکٹ کھیلنے میں مگن ہیں درختوں کی کٹائی بھی دیکھنے کو ملی یہاں لکڑی ایندھن کے استعمال میں آتی ہے گھروں کو تحفظ دینے یا حد بندی درختوں کے موٹے موٹے ڈنڈوں پھٹوں سے کی گئی ہےایسے لگ رہا تھا وہ مناظر ہیں جیسے فیری ٹیل موویز اپنے بچپن میں دیکھ رہے ہیں ان میں اس قسم کے مصنوعی مناظر دیکھے تھے اب حقیقت میں دیکھ رہے ہیں لگتا ہے آخوند صاحب کی یہاں خوب واقفیت ہے راستے میں بھی کئی لوگوں سے سلام دعا ہوئی اور یہاں بھی تعلقات کے اثرات نظر آرہے ہیں ہم نے اس میدان میں اپنے ہوش ٹھکانے آنے کے بعد آگے چلنے کا پروگرام بنایا کیمپ سائٹ پر پہنچ کر اپنے خیمے نسب کئے گئے یہ ایک چرا گاہ معلوم دیتی تھی جس کے بازو میں جھیل کا پانی گیت گاتا گزر رہا تھا شاید اسی کے اوپر سے معمولی پھٹوں والے پل سے گزرے تھے اب تھکاوٹ جو موت کے قریبی مراحل دیکھ کر ہوئی تھی وہ اب گم ہو چکی تھی اس کا احساس بھی نہ تھاکھانا بنانے کی تیاری شروع ہو گئی دل مطمعین تھا کہ ہم حراموش کے دامن میں سکون فرما رہے ہیں اب خوشی سے مدہوش ہوئے جارہے ہیں کہ صبح کے سورج کے طلوع ہونے کے بعد کٹوال جھیل حراموش کی بیٹی سے ملیں گے اب ہم اپنے محبوب سے ملیں گے وہ جو راستے کی مشکلات تھیں ہماری محبت اور عشق کا امتحان تھا اس میں ہم نے نمایاں نمبروں سے کامیابی حاصل کی تھی اس گاؤں میں چند چھوٹی دکانیں اور ڈھابے موجود تھے جہاں پہ خردو نوش کی اشیا دستیاب ہیں۔ آبرار صاحب گھر سے ہی کھانوں کے ٹن پیک بنوا کر لائے تھے دوپہر کو تو صرف چلنا چلنا اور چلنا تھا راستے میں پھل اور صبح والے پراٹھے بھی ہمراہ تھے جو ہلکی پھلکی بھوک مٹانے کا سبب بنے مگر اب ہوش آنے کے بعد بھوک عروج پر ہونے کے باعث ان ٹن میں موجود کھانوں کی باری آگئی لکڑیوں کو اکٹھا کیا گیا کھانا گرم کیا گیا سب نے خوب سیر ہوکر کھایا سب کھا کر کیمپس میں آرام فرمانے لگے دانش اور آخوند صاحب غائب تھے کچھ دیر بعد دونوں دودھ لیکر حاضر ہوئے سورج کے غروب ہونے پر ستارے نمودار ہونا شروع ہوئےسائے اندھیروں میں تبدیل ہو چکے تھے چائے تیار ہو چکی تھی یہ دودھ کا ذائقہ تھا یا تھکاوٹ کا اثر چائے کا لطف عروج پر تھا دن بھر کی مشکلات اور واقعات بیان ہورہے تھے ایسے میں اپنے اندر چھپے تاثرات و احساسات آخوند صاحب نے کمال قصہ گوئی سے پیش کیے ہمارے قابل رحم حالات سنا کر اک جانب داد سمیٹی دوسری جانب ہم مشق سخن اور ستم بنے ہوئے تھے دانش صاحب بھی کھلے کہ ہم تو سر سے ڈر کے مادے الگ الگ تھے خوب خوش گپیاں چلتی رہیں دن بھر کے تجربات شیئر ہوتے رہے ہنستے رہےدانش اور آخوند صاحب ہم سے رخصت ہوئے ان کے عزیز یہاں رہتے ہیں ان کے مہمان بنے اور ہم اس طلسماتی ماحول میں نیند کی وادی میں نئے خواب آنکھوں میں سجانے کے لیئے چلے گئے جس کے لیئے کہیں جانے کی ضرورت نہیں پڑی بس آنکھیں بند کرنے کی دیر تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں