کررونا وباء کی آڑ میں فرقہ واریت کی سازش…! (ساجد خان)

پاکستان میں جوں ہی کررونا وائرس کی وباء پھیلی ہے، ایک مخصوص طبقہ یہ باور کرانے کی حتیٰ الامکان کوشش کر رہا ہے کہ یہ ایران کی پاکستان سے دشمنی کی گئی ہے، اسی طرح شیعہ برادری کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ انہوں نے ملک دشمنی ثابت کی ہے۔

کررونا وائرس ایک عالمگیر وباء ہے اور کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ وہ کسی بیماری میں مبتلا ہو لہذا کسی کو بیمار ہونے پر تنقید کرنا انتہائی کم ظرفی ہے۔

دوسرا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ چین میں مقیم پاکستانی طلباء کو واپس نہیں لایا گیا مگر ایران سے زائرین کو خاص طور پر واپس لایا گیا حالانکہ دونوں واقعات مختلف ہیں کیونکہ چین سے صرف ان پاکستانی شہریوں کو واپس نہیں لایا گیا جو ووہان شہر میں مقیم تھے ورنہ چین کے باقی حصوں سے پاکستانی روزانہ کی بنیاد پر آتے رہے۔
ووہان شہر میں مقیم پاکستانی طلباء ایک عرصہ سے وہاں مقیم تھے اور وہ ان حالات میں مزید عرصہ بھی گزار سکتے تھے جبکہ ایران میں سینکڑوں زائرین تھے جو صرف چند دنوں کے لئے گئے تھے اور ان کی نا ہی مستقل رہائش تھی اور نا ہی اتنا سرمایہ کہ وہ طویل عرصے تک ایران میں رہ سکتے اور پاکستانی شہری صرف ایران سے نہیں آئے بلکہ پوری دنیا سے پاکستانی شہری واپس اپنے ملک آئے جیسے گزشتہ دنوں اٹلی سے واپس آنے والے شہری پاکستان پہنچا اور وہ کررونا وائرس کا مریض تھا۔

زائرین کے معاملے پر عوام سے لے کر میڈیا یہاں تک کہ اپوزیشن جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن نے بھی انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت میں موجود چند شیعہ وزراء کو بدنام کرنے کی کوشش کی کہ انہوں نے اپنی مسلکی برادری کو پورے ملک میں آزادانہ طور پر جانے کی اجازت دی لیکن دوسری طرف سعودی عرب سے سینکڑوں پاکستانی زائرین آزادی سے آئے اور ملک میں پھیل گئے تو ان افراد کو نا روکنے کا حکم کس وزیر نے دیا تھا۔

اسی طرح شیعہ مخالف کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ/کالعدم تنظیم اہلسنت والجماعت کے رہنما بھی ایران اور شیعہ دشمنی میں بڑھ چڑھ کر افواہیں اور نفرت پھیلا رہے ہیں، میں ان کو قصوروار نہیں مانتا کیونکہ ان کی روزی روٹی ہی اسی نفرت کی مرہون منت ہے مگر ایک قومی سیاسی جماعت سے اس کم ظرفی کی امید ہرگز نہیں تھی۔

اب آتے ہیں چند حقائق پر جن کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی اور وہ یہ ہے کہ افغان بارڈر ہو یا ایران بارڈر یا ائر پورٹ، ان مقامات پر داخل ہونے والے شہریوں کی صحت کا خیال رکھنا اور ٹیسٹ کرنا ریاست کی زمہ داری تھی۔

جب ایران سے آنے والے زائرین کو ہزار گنجی کوئٹہ میں رکھنے کا فیصلہ کیا گیا تو کوئٹہ میں سول سوسائٹی کے نام پر اس فیصلے کے خلاف مظاہرے کئے گئے، بلوچستان پارلیمنٹ میں احتجاج کیا گیا۔
جس پر زائرین کو ان کے صوبوں کے حوالے کر دیا گیا۔

جہاں تک بات ہے کہ پاکستان سے ایران یا شیعہ دشمنی کی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ دشمنی پاکستان کی غیر شیعہ برادری سے ہو اور وباء لگا دی جائے اہل تشیع کو جو گھر جائیں تو سب اہل تشیع، انہیں مبارکباد دینے کے لئے آنے والوں کی اکثریت بھی شیعہ ہو گی۔

مسجد میں نمازی بھی شیعہ اور امام بارگاہ میں عزادار بھی شیعہ تو ایسی کسی سازش کا شکار تو سب سے زیادہ خود شیعہ ہی ہوں گے۔ اب ایسا کوئی الزام لگانا سوائے جہالت اور بغض کے کچھ اور وجہ نظر نہیں آتی حالانکہ کررونا وائرس سے پاکستان میں صرف تین اموات ہوئی ہیں مگر اسی الزامات لگانے والے مخصوص طبقہ کی مہربانی سے پاکستان نے اسی ہزار لاشیں اٹھائی ہیں۔ اس پر تو آج تک مسلم لیگ ن کے کسی رہنما نے یہ نہیں کہا کہ یہ مخصوص انتہا پسندانہ عقائد سعودی عرب سے آ رہے ہیں، انہیں روکا جائے۔

جب سے پاکستان میں کررونا وائرس کی وباء پھیلی ہے، سعودی عرب سے دس ہزار سے زائد پاکستانی واپس آئے ہیں اور ان میں سے بہت سے افراد اس بیماری کا شکار بھی تھے، جن میں سے ایک خاتون جھنگ کی شہری ہیں جو چند دن قبل عمرہ کر کے لوٹی ہیں۔

پاکستان میں کررونا وائرس سے پہلی ہلاکت پنجاب میں ہوئی ہے اور وہ مریض عمان سے واپس لوٹا تھا، دوسری ہلاکت مردان میں ہوئی ہے جو سعودی عرب سے واپس آیا تھا جبکہ تیسری ہلاکت پشاور میں ہوئی جو ترکی سے بذریعہ دوبئی سے پاکستان آیا تھا مگر کسی نے عمان اور سعودی عرب کو پاکستان دشمن قرار نہیں دیا۔

ریاست کی نااہلی کا الزام کسی اور پر نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ آخر ایران میں بھی تو کسی طرح چین سے کررونا وائرس آیا ہو گا لیکن وہاں یہ کارڈ نہیں کھیلا گیا۔ اٹلی اور اسپین میں سینکڑوں ہلاکتیں ہو چکی ہیں کیا وہاں بھی کسی مخصوص طبقہ نے وائرس پھیلایا۔

حیرت کا مقام ہے کہ ایک مخصوص طبقہ ان مشکل حالات میں اتحاد قائم کرنے کے بجائے فتنہ و فساد پھیلانے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے۔ یہ الزام تو ہمیں لگانا چاہئے تھا کہ ریاست نے جان بوجھ کر ایک سازش کے تحت غفلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے شیعہ برادری میں اس وباء کو پھیلانے کی سازش کی ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ یہاں ریاستی اداروں کی سازش سے زیادہ روایتی نااہلی ہے جس کی وجہ سے یہ وباء پورے پاکستان میں پھیلی۔ جس کا ایک واضح ثبوت یہ ہے کہ ایک شخص جو اسپین سے پاکستان پہنچا، ائر پورٹ پر اس میں کرونا وائرس کی تشخیص ہو گئی مگر وہ چھ ہزار روپے رشوت دے کر اپنے آبائی علاقے گجرات چلا گیا جہاں وہ لوگوں سے ملتا جلتا رہا۔

اسی طرح مردان کا رہائشی جو گزشتہ دنوں کررونا وائرس کی وجہ سے وفات پا گیا تھا وہ سعودی عرب سے عمرہ کر کے واپس پہنچا تھا، لوگوں سے ملاقاتیں کرتا رہا اور اب وہ پورا گاؤں لاک ڈاؤن ہے۔
گزشتہ دنوں لاہور کے علاقے گلبرگ میں ایک خاتون میں کررونا وائرس کی تشخیص ہوئی جو حال ہی میں برطانیہ سے واپس آئی تھیں اور انہوں نے اپنے گھر میں ہی تین سو افراد کی دعوت بھی کی تھی جبکہ ایران سے آئے زائرین کی اکثریت پہلے تفتان بارڈر پر قید رہی اور پھر ہزار گنجی کے علاقے میں قید رکھا گیا اور اس کے بعد سکھر، ڈیرہ اسماعیل خان میں اور جس کے بعد انہیں اپنے اپنے صوبوں میں قرنطینہ بھیج دیا گیا اور اب صوبہ سندھ کے ترجمان نے بتایا کہ صرف چودہ زائرین کو کررونا وائرس تشخیص ہوا ہے اور اس میں بھی زیادہ نااہلی ریاست کی ہے کہ انہوں نے بارڈر پر سب زائرین کو ایک ساتھ ہی کیمپوں میں قید رکھا جس سے وائرس منتقل ہوا۔

اب تک جن علاقوں کو لاک ڈاؤن کیا گیا یا جتنی اموات ہوئی ہیں وہ سب عمرہ یا خلیجی ممالک سے آئے تھے یا یورپ سے آئے تھے۔

زائرین تو گزشتہ کئی ہفتوں سے بارڈر پر قید کر لئے گئے تھے اور انہوں نے بھی دوسروں کی طرح رشوت دے کر بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ پاکستان میں جو کرونا وائرس پھیلا ہے، ان مریضوں کا ایران کے سفر سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر پروپیگنڈا اس طرح کیا گیا کہ جیسے ایران کے علاوہ کسی اور ملک سے مریض کبھی آئے ہی نہیں ہے۔

اہل تشیع کے خلاف نفرت پھیلانے کا یہ پہلا موقع نہیں ہے۔ ہزاروں اہل تشیع کو فرقہ واریت میں قتل کیا گیا مگر اس کے باوجود الزام یہ لگایا جاتا رہا کہ ایران پاکستان میں فرقہ واریت پھیلاتا ہے جیسے ملک کے اسی ہزار شہری اہل تشیع نے ایران کی فنڈنگ سے مارے ہوں۔

یہ پروپیگنڈہ اعلیٰ سطح پر بلکہ کہیں نا کہیں سرکاری سرپرستی میں کیا جاتا ہے۔ کویتی وفد کا ایک سرکاری افسر نے بٹوہ چوری کیا تو فوراً سے اس کا نام تبدیل ہو کر زیدی سید ہو گیا۔ کیا ریاستی ادارے یہ سب پروپیگنڈا ہوتا نہیں دیکھتے مگر اس معاملہ پر سب خاموش ہو جاتے ہیں۔

ایرانی صدر پاکستان کے دورے پر آتے ہیں تو فوراً ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس کر کے کلبھوشن یادیو کا الزام ایران پر لگاتا ہے حالانکہ وہ گزشتہ پندرہ سالوں سے مسلمان بھارتی شہری کے پاسپورٹ پر آیا کرتا تھا مگر کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ جب وہ اتنی بار ائر پورٹ یا سرحد سے باقاعدہ پاکستانی ویزے پر آتا تھا تو اس وقت کون ذمہ دار تھا۔

پاکستان میں سعودی لابی کا سوائے ملک میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے اور کچھ مقاصد نہیں ہیں مگر افسوس اس بات کا ہے اس مہم میں ہمارے ادارے، میڈیا اور سیاسی جماعتیں بھی برابر کی حصہ دار ہوتی ہیں کیونکہ تیل کی کمائی میں سب اپنا حصہ چاہتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں