اسلام میں جان بچانا اولین ترجیح ہے…! (ساجد خان)

دنیا بھر کے اکابر شیعہ علماء نے کررونا وائرس جیسی خطرناک وباء سے بچنے کے لئے فتاویٰ جاری کئے ہیں۔ عراق کے گرینڈ آیت اللہ سیستانی سے لے کر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای تک سب نے انسانوں کو ایک جگہ جمع ہونے سے منع کیا ہے یہاں تک کہ خانہ کعبہ، مسجد نبویؐ، نجف، کربلا اور مشہد زائرین کے لئے بند کر دیئے گئے ہیں۔

آیت اللہ مکارم شیرازی نے اس معاملے میں احتیاط نا برتنے پر قتل کے مترادف قرار دیا ہے کیونکہ اس سے اپنی جان کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اسلام نے بھی انسانی جان بچانے کے لئے نہایت اہم اصول وضع کئے ہیں۔

حضرت عمار یاسر کا واقعہ کون نہیں جانتا، جس پر قرآن مجید میں باقاعدہ آیت بھی نازل ہوئی۔

مَن كَفَرَ بِاللّہِ مِن بَعْدِ اِيمَانِہِ اِلاَّ مَنْ اُكْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالاِيمَانِ(سورہ النحل:آیت 103)
ترجمہ:
جس نے اللہ پر ایمان لانے کے بعد کفر کیا،اس پر اللہ کا غضب اور عذاب عظیم ہے، لیکن جسے مجبور کیا جائے اور اسکا دل ایمان پر مطمئن ہو(اس پر کوئی گرفت نہیں)۔

جب حضرت عمار یاسر کے گھر پر مشرکین مکہ نے حملہ کر کے ان کے والدین کو شہید کر دیا اور انہیں اس شرط پر چھوڑنے کا کہا اگر وہ اللہ تعالیٰ اور نبی کریمؐ کے خلاف سخت الفاظ کہیں گے۔ حضرت عمار یاسر نے وہ سب کہا جو مشرکین مکہ کہلوانا چاہتے تھے، جس کے بعد انہیں رہا کر دیا۔

نبی کریمؐ کو بتایا گیا کہ عمار کافر ہو گیا کیونکہ اس نے ایسے توہین آمیز الفاظ استعمال کئے ہیں۔ حضرت عمار یاسر نبی کریمؐ کی خدمت میں اس حالت میں پیش ہوتے ہیں کہ وہ انتہائی زور سے گریہ کر رہے ہیں۔ نبی کریمؐ نے پوچھا عمار کیا ہوا؟ حضرت عمار نے تمام واقعہ سنا دیا، نبی کریمؐ نے سوال کیا کہ اس وقت تمھارے دل میں کیا تھا۔ جواب دیا حضور! اس وقت میرا دل اللہ اور آپؐ کی محبت سے سرشار تھا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا اے عمار اگر دوبارہ یہی کچھ ہو تب بھی ایسے ہی کرنا۔ یہ معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے لئے سبق ہے کہ اسلام میں انسانی جان سب سے زیادہ قیمتی ہے۔

واقعہ کربلا ہمارا بچہ بچہ جانتا ہے، جب امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد یزیدی فوج نے اہلبیت علیہ السّلام کے خیموں کو آگ لگانا شروع کی تو سب خواتین وقت کے امام حضرت سجاد علیہ السلام کے پاس اکٹھی ہوئیں اور حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے پوچھا کہ اب ہم کیا کریں۔ اپنے پردوں کی حفاظت کرتے ہوئے آگ میں ہی جل جائیں یا خیموں سے بے پردہ باہر نکل کر اپنی جان بچائیں۔
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا پھوپھی اماں، جان بچانا واجب ہے۔

اب ایسا نہیں تھا کہ اہلبیت علیہ السّلام کو احکام دین سے زیادہ اپنی جان پیاری تھی بلکہ اسلام کو بھی احکام سے زیادہ انسانی جان عزیز ہے۔ کون نہیں جانتا کہ اسلام میں صرف ایک وقت میں جھوٹ بولنا جائز ہے اور وہ جو کسی انسان کی زندگی بچانے کے لئے بولا جائے۔

یہ سب کچھ لکھنے کا مقصد ان جذباتی شیعوں کو سمجھانے کی کوشش ہے جو سمجھتے ہیں کہ کررونا وائرس کی وجہ سے عزاداری نہیں روکنی چاہئے۔ کیا وہ نبی کریمؐ اور حضرت عمار سے زیادہ اسلام سے محبت کرتے ہیں یا وہ حضرت امام سجاد علیہ السلام اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا سے زیادہ اہلبیت علیہ السّلام سے محبت کرتے ہیں۔ جب انہوں نے جان کی حفاظت کو اولین ترجیح دی تو ہم کیوں احتیاط نہیں کر سکتے جبکہ یہاں معاملہ صرف اپنی جان کا نہیں ہے بلکہ ہزاروں دوسرے افراد کی زندگیوں کا معاملہ بھی ہے۔ جب معاملہ صرف اپنی جان کا تھا تو تب کسی نے عزاداری کو روکنے کا نہیں کہا تھا۔

کون نہیں جانتا کہ جب جلوسوں پر خودکش حملے ہوا کرتے تھے، جب مجالس میں دھماکے ہوا کرتے تھے تب ہر شخص سمجھتا تھا کہ اس دور میں عزاداری کرنا واجب ہے کیونکہ دشمن عزاداری کو روکنا چاہتا تھا مگر آج صورتحال مختلف ہے، آج عزاداری محفوظ ہے مگر عزاداروں کی جان کو خطرہ ہے، اس لئے ہمیں بھی امام سجاد علیہ السلام کے حکم پر عمل کرنا چاہئے کہ جان بچانا واجب ہے۔ عزاداری تاقیامت قائم رہے گی اگر عزادار زندہ رہے۔ ہمیں اس نازک صورتحال میں ہوشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ ہم اپنے ساتھ ساتھ دوسرے پاکستانیوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کا موجب نا بنیں۔

عشق اور جہالت میں فرق سمجھنا چاہئے۔ آج عشق یہی کہتا ہے کہ ہمیں احتیاط کرنی چاہئے تاکہ ہم زندہ رہ کر طویل عرصے تک عزاداری قائم رکھ سکیں۔ آپ مجتہدین کی فتوے کو نہیں مانتے تو کوئی بات نہیں مگر نبی کریمؐ اور امام سجاد علیہ السلام سے زیادہ معتبر تو کوئی نہیں، اب کیا ہم اتنے بڑے شیعہ بن گئے کہ ہمارے لئے ان کے احکامات بھی اہمیت نہیں رکھتے۔ چند دن گھر میں بیٹھے رہیں، گھر کے افراد کے ساتھ عزاداری کریں لیکن ضد کر کے اپنی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں مت ڈالیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں