پاکستانی قوم کی متعصبانہ تنقید کی روایت (ساجد خان)

ان دنوں مولانا طارق جمیل صاحب کا خوب مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ میڈیا آگ کے گولے برسا ریا ہے۔ سوشل میڈیا انہیں درباری ملا قرار دے چکا ہے۔ ان کی گریہ زاری کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔ یہ تو ہمارا حق بنتا ہے کہ جس عالم دین کو غلط دیکھیں اس پر تنقید کریں لیکن کیا ہر عالم یا مولوی کی غلط حرکات پر ایسا ہی ردعمل آتا ہے؟

مولانا طارق جمیل سے قبل مولانا خادم حسین رضوی کا یوں ہی میڈیا آپریشن کیا گیا۔ میں بھی ایسا کرنے میں شامل تھا۔
اس کے علاوہ علامہ ضمیر اختر نقوی کا تمسخر تو سدا بہار ہے۔ ان کی علمی بات بھی مذاق کے طور پر پیش کی جاتی رہی اور سب سے مثبت پہلو یہ تھا کہ ان علماء کرام پر تنقید کو فرقہ وارانہ رنگ نہیں دیا گیا۔

مولانا طارق جمیل کا مذاق اگر بریلوی اڑا رہا ہے تو اسے یہ نہیں کہا گیا کہ کیونکہ مولانا دیوبندی ہیں، اس لئے تم فرقہ واریت پھیلا رہے ہو۔ مولانا خادم حسین رضوی کا مذاق اگر شیعہ اڑا رہا ہے تو اس کا فرقہ نہیں دیکھا گیا اور اگر کوئی علامہ ضمیر اختر نقوی کا مذاق بنا رہا ہے تو کسی نے یہ نہیں کہا کہ کیونکہ تم مخالف فرقہ سے ہو اس لئے تم ان پر بغض شیعہ میں تنقید کر رہے ہو یعنی کہ ان علماء کرام پر تنقید پر امت میں کوئی اختلاف نہیں نظر آیا۔

کیا تنقید کرنے کے یہ حقوق ہر مولوی یا عالم کے لئے یکساں ہیں۔ نہیں بلکہ بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن پر مذاق تو دور ہمارا میڈیا اختلاف بھی نہایت دبے الفاظ میں کرتا ہے۔

لال مسجد کے مولانا عبد العزیز کی مثال آپ کے سامنے بے۔چآئے دن نیا فساد شروع کئے بیٹھے ہوتے ہیں۔ اعلانیہ طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والے فوجیں کے خلاف بیانات دیئے۔

اے پی ایس کے شہداء بچوں کے قتل عام کی مذمت کرنے سے نا صرف انکار کیا بلکہ اس دہشت گردی کے دفاع میں تاویلیں پیش کیں۔ سوشل میڈیا پر اس کے خلاف کتنے ٹرینڈ چلائے گئے یا اس کے خلاف کتنی میمز اور مزاحیہ ویڈیوز بنیں۔ علامہ ضمیر اختر نقوی اور مولانا خادم حسین رضوی کے مقابلے میں پانچ فیصد بھی نہیں۔ مولانا فضل الرحمن پر میڈیا کتنی تنقید کرتا ہے، ڈمی بنا کر مزاحیہ پروگرام کئے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر انہیں برا بھلا کہا جاتا ہے، پروپیگینڈہ کیا جاتا ہے لیکن دوسری طرف مولانا سمیع الحق جب زندہ تھے، ان پر کتنی تنقید کی جاتی تھی یا ان پر کتنے مزاحیہ پروگرام ہوتے تھے حالانکہ دونوں ایک ہی عقیدہ رکھتے تھے، دونوں ہی سیاسی جماعتوں کے سربراہان تھے۔ انتخابات میں حصہ لیتے تھے،چطاقتدار کا بھی حصہ بنتے تھے، احتجاجی تحریکوں میں بھی برابر کا حصہ رہا مگر تنقید اور تمسخر کا نشانہ صرف ایک شخصیت بنی۔

آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ ایک دن مولانا فضل الرحمٰن پر تنقید کریں اور اس پر سوشل میڈیا کا ردعمل دیکھ لیں اور دوسرے دن مولانا سمیع الحق پر تنقید کا ردعمل دیکھ لیں۔ مولانا فضل الرحمٰن پر آپ کی تعریف ہو گی اور اس کے لئے آپ کے عقائد کو نہیں جانچا جائے گا لیکن مولانا سمیع الحق پر تنقید فوراً فرقہ واریت کے زمرے میں آ جائے گی اور علماء کرام پر تنقید پر آپ کو اسلام سے خارج کر دیا۔

مولانا سمیع الحق کیونکہ فوت ہو چکے ہیں، ہو سکتا ہے کہ کچھ افراد اس وجہ سے آپ پر تنقید کریں۔ آپ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ احمد لدھیانوی یا اورنگزیب فاروقی کا تجربہ کر لیں۔ احمد لدھیانوی یا اورنگزیب فاروقی پر تنقید کرنے پر آپ کو کافر قرار دینے کے ساتھ ساتھ ایرانی ایجنٹ کا خطاب بھی مل جائے گا۔
آپ علامہ ضمیر اختر نقوی کے ساتھ علامہ جواد نقوی پر تنقید کر لیں۔چآپ فوراً ہی شیعیت سے خارج قرار پائیں گے۔

آخر یہ دوغلا پن کیوں ہے کہ ایک ہی فرقہ کی ایک شخصیت پر تنقید باعث ثواب تو دوسری شخصیت پر تنقید حرام ہو جاتی ہے۔ اگر آپ دیوبندی فرقہ کو تنقید کا نشانہ بنانا چاہتے ہیں تو پھر مولانا طارق جمیل کے ساتھ مولانا عبد العزیز، احمد لدھیانوی پر تنقید کی بھی مکمل اجازت دیں۔

مولانا طارق جمیل کا مذاق اگر جائز ہے تو پھر مولانا تقی عثمانی کا مذاق بھی جائز ہونا چاہئے۔ آپ اگر اہل تشیع کے علامہ ضمیر اختر نقوی کی توہین آمیز مذاق جائز جانتے ہیں تو پھر آپ پر واجب ہے کہ آپ علامہ جواد نقوی کا مذاق بھی اڑائیں۔

ہمارے معاشرے میں جن علماء کرام پر تنقید کی جاتی ہے، ان کا قصور صرف یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہے کہ ان کا ردعمل نہیں آئے گا۔

ہمارا میڈیا جتنا مذاق مولانا فضل الرحمٰن کا اڑاتے ہیں، اس کا آدھا احمد لدھیانوی یا اورنگزیب فاروقی کا اڑانے کی ہمت کریں۔
ایک ہفتے بعد چینل کا گھیراؤ اور توڑ پھوڑ شروع ہو جائے گی۔

مولانا عبدالعزیز کے معاملہ پر کیا معلوم ٹی وی چینل میں خودکش حملہ ہی ہو جائے مگر سب کو معلوم ہے کہ مولانا طارق جمیل پر تنقید کرنے کے کوئی نقصانات نہیں ہیں، اس لئے میڈیا کے بہادر، نڈر اور سچے اینکرز مولانا طارق جمیل پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔

جب احسان اللہ احسان ایک نڈر صحافی کے سامنے نہایت قابل احترام مہمان کے طور پر بیٹھا تھا تو کیا اس صحافی نے اس پر بھی سخت تنقید کی تھی یا آپ جناب اور تعریفوں کے پل باندھے گئے۔ میڈیا آج زیادہ نہیں تو مولانا طارق جمیل کو اتنی عزت ہی دے دے جتنی احسان اللہ احسان کو دی گئی تھی۔

مولانا طارق جمیل درباری ملا ہیں،میں مان لیتا ہوں لیکن باقی کیا ہیں۔ کون سی ایسی شخصیت ہے جو دربار میں حاضریاں دیتی نہیں پائی گئی؟ مولانا عبدالعزیز جو آج خود کو ریاست کا باغی بنا کر پیش کر رہا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ ان کا والد مولانا عبداللہ کی کیا حیثیت تھی۔ ضیاء الحق کب اور کن مقاصد کے لئے اسے جنوبی پنجاب سے اٹھا کر اسلام آباد لے کر آیا۔بکیا وہ درباری ملا نہیں تھا؟

یہاں سب ہی کسی نا کسی دربار کے مرید ہیں بس فرق یہ ہے کہ کچھ مولانا طارق جمیل کی طرح ظاہری طور پر مرید ہیں اور کچھ باطنی طور پر درباری ہیں۔
مولانا طارق جمیل کا زیادہ سے زیادہ قصور یہ ہے کہ وہ حکومت وقت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں لیکن کیا وہ معاشرے کے لئے نقصان دہ ہیں،بالکل بھی نہیں۔ احمد لدھیانوی یا اورنگزیب فاروقی اور مولانا عبدالعزیز معاشرے کے لئے کتنے فائدہ مند ہیں، ناسور ہیں۔

جب ہمارا معاشرہ ان جیسے نقصان دہ مولویوں کو برداشت کر رہا ہے تو پھر ہمیں مولانا طارق جمیل اور علامہ ضمیر اختر نقوی جیسی شخصیات کو عزت و احترام دینا چاہئے کیونکہ وہ جیسے بھی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں نفرت پھیلانے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر ہم ان کی کوئی غلطی معاف کرنے کو تیار نہیں ہیں تو پھر دوسرے مولویوں کے بڑے بڑے گناہ بھی نظر انداز نہیں کرنے چاہئیں ورنہ ہمیں مولانا طارق جمیل کو منافق کہنے کا حق بھی نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہم خود بھی منافقت کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں