ہمارے مدارس (نرجس کاظمی)

آئیے مجھ سے ملیے میرا نام مولوی عبد الباسط ہے۔ میں ایک مسجد اور اس کے ساتھ متصل مدرسے کا مولوی ہوں۔ لوگ دور، دور سے اپنے بچے میرے پاس قرآن حفظ کروانے کی نیت سے لے کر آتے ہیں۔ انہیں نماز اور دین کی تعلیم سکھانا بھی میری ذمہ داری ہے۔ اللہ کا بہت کرم ہے، محلے کے صاحب ثروت میرا بڑا خیال رکھتے ہیں اور ہر مہینہ بھاری نذرانے سے میں بڑی پرتعیش زندگی گزار رہا ہوں۔ میں اپنے صوبے کے مفتی کو بچپن سے ہی خوش کرتا چلا آیا ہوں۔ جس کے صلے میں مجھے اس مدرسے کا انچارج بنایا گیا ہے اور مسجد کے امام ہونے کے اعزاز سے بھی نوازا گیا ہے۔

میرا نام حافظ صلاح الدین ہے میں اس مسجد میں قرآن حفظ کرنے آیا تھا۔ میں ایک غریب خاندان کا بچہ تھا۔ غربت نے ہمارے گھرانے کو خصوصی طور پہ ٹارگٹ کیا تھا جب کوئی چارہ نہ چلا اور گھر پہ دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے تو ابا نے میرا ہاتھ تھاما اور مدرسہ کی طرف چل پڑے۔ بھوک سے تنگ آکر مجھے مدرسے کے حوالے کرنے کا فیصلہ میرے ابا کے لیے پتہ نہیں آسان تھا بھی یا کہ نہیں؟ لیکن یہ فیصلہ کہ مجھے مولوی کے پاس چھوڑ دیا جائے بھوک کی شدت سے ہی کیا گیا تھا۔ مجھے پہلے شروع دن سے ہی مولوی بالکل بھی اچھا نہیں لگا تھا۔ نہ جانے کیوں مجھے اس سے خوف محسوس ہورہا تھا۔

تمام غریب گھرانوں کا اللہ کے بعد اگر کسی پہ بھروسہ ہوتا ہے تو وہ یہی مدرسے اور مساجد ہیں وہاں پہ مولوی کو اللہ کے نائب کا رتبہ حاصل ہوتا ہے۔ لوگ اپنی اولاد سے زیادہ مولوی پہ یقین رکھتے ہیں۔ غریب کے پاس مذھب کے علاوہ کوئی امید و آس بھی تو نہیں ہے نا۔

ابھی میں ابا کے ساتھ آیا ہی تھا تو وہ مولوی صاحب مجھے عجیب نظروں سے گھور رہا تھے جیسے ٹٹول جا رہا ہو کہ کتنا ماس ہے اور کتنی ہڈیاں ہیں۔ جس طرح قصائی ذبح کے لیے بکرے کا جائزہ لیتا ہے۔ میں غیر متوقع طور پر لجاتے ہوئے ابا کے ساتھ چپک سا گیا تھا۔ ابا نے سمجھا میں پریشان ہوں اور خاندان سے دوری و آزادی کی بجائے مدرسہ بھرتی سے گھبرا گیا ہوں۔ انہوں نے مجھے پیار سے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا۔ بیٹا صلاح الدین مولوی صاحب بہت ہی نیک طنیت انسان ہیں وہ تمہارا خیال رکھیں گے اور تجھے مجھ سے زیادہ چاہیں گے۔ مولوی صاحب نے فرطِ جزبات سے جلدی سے لقمہ دیا، بے شک، بے شک۔

ابا مجھے مدرسہ میں چھوڑ کر یعنی بھرتی کروا کر واپس گھر چلے گئے۔ وہ زیادہ دیر میرے پاس نہیں رک سکتے تھے۔ایک میں ہی ان کی زمہ داری تو نہیں تھا نا؟ گھر میں باقی لوگ بھی تھے جن کی سانسیں بحال رکھنے کے لیے ابا کو ابھی کئی آگ کے دریا عبور کرنا تھے۔ ابا کے جانے کے بعد اب مولوی صاحب کھل کر میرا جائزہ لینے لگے پتہ نہیں ان نظروں میں ایسا کیا تھا کہ میں اپنے اندر سمٹ کر رہ گیا۔ مولوی صاحب نے کسی کو آواز دی اوئے شرفو اس کو لے جا اپنے ساتھ کمرے میں۔ ساتھ ہی مجھے اپنے سامان کے نام پر موجود ایک پھٹے ہوئے تھیلے کو اٹھا کر اس کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا میں تھیلا اٹھا کر شرفو کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔

کمرہ کیا تھا ایک سیلن زدہ بدبودار آسیبوں کا ٹھکانہ، جس میں بہت سے لڑکے بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسے گئے تھے۔ بستر کے نام پر فرش پہ بچھی میلی سی چادر۔ رات ہونے لگی تھی کھانے کے نام پہ ہمیں پانی ملی دال اور کچھ بچی کھچی باسی روٹیاں کھلائی گئیں۔ سفر کی تکان نے مجھے زیادہ سوچنے نہ دیا، میں ایک کونے کے ساتھ لگ کر سو گیا۔ علی الصبح ہمیں اٹھا دیا گیا کہ وضو کر کے مسجد پہنچو۔ میں بیت الخلاء گیا تو گندگی اور بدبو نے میرا جی متلا دیا وہاں سے باہر وضو کیلئے آیا تو صابن کہیں نظر نہیں آیا پوچھنے پر ساتھی لڑکے میرا مذاق اڑانے لگے۔ میں ان کی بے ہودگی نظر انداز کرتے ہوئے جلدی، جلدی منہ پہ پانی کے چھینٹے مارنے لگا اور صف میں جا کھڑا ہوا۔ مولوی صاحب نے مجھے زور سے آواز دی ابے او! ادھر کو آ۔۔۔۔ اور میرے سامنے کھڑے ہو کر سیکھ، نماز کیسے پڑھی جاتی ہے۔

میں جھجھکتے ہوا مولوی صاحب کے سامنے جا کھڑا ہوا جیسے ہی میں رکوع میں گیا۔ مجھے کسی کے ہاتھ اپنے کولہوں پہ پھرتے محسوس ہوئے۔ میں جلدی سے سیدھا ہوگیا۔ پیچھے سے مولوی صاحب کی گرجتی ہوئی آواز میرے کانوں میں گونجی۔ ابے رکوع میں جھک، ٹھہر جا تجھے میں سکھاوں رکوع کیسے کرتے ہیں ساتھ ہی وہ ایک ہاتھ سے میری پشت جھکا کر، دوسرا ہاتھ میری دونوں ٹانگوں کے بیچ سے گزار کر سامنے کی طرف لے آیا میں سر تا پا لرز کے رہ گیا، ساتھ ہی وہ پاٹ دار آواز میں بولا کہ سارے لڑکے نماز کی طرف دھیان دیں یہ لونڈا ابھی نیا ہے۔ اسے میں سکھاتا ہوں کہ رکوع و سجدے کیسے کئے جاتے ہیں۔

اس سے آگے کی کہانی بہت ہی درد ناک و شرمناک ہے۔ وہ مولوی مجھے رکوع اور سجدے سکھانے اپنے پرتعیش کمرے میں لا چکا تھا۔ مجھے بڑے حافظ صاحب سے ہر روز یہ سبق لینا تھا۔ مجھے یہ بھی سیکھا دیا گیا تھا کہ مجھے اپنا منہ بند رکھنا ہے۔ اس صبح صادق کے بعد سورج کی پہلی کرن میری زندگی میں تیرگی کا پیغام لائی تھی۔ میں سوچتا کا ش یہ صبح کبھی طلوع نہ ہو۔ جیسے، جیسے دن روشن ہوتا گیا میری زندگی تاریک سے تاریک ہوتی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں