مولوی مہدی، طالبان حکومت کا شیعہ گورنر…! (ساجد خان)

افغانستان کی معروف نیوز ایجنسی خامہ نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے حال ہی میں صوبہ سرپل کے لئے ایک شیعہ ہزارہ کو گورنر مقرر کیا ہے۔ نیوز ایجنسی کے مطابق اس بات کا اعلان ایک ویڈیو میں کیا گیا، جس میں مولوی محمد مہدی کو شیعہ بھائی کہہ کر متعارف کروایا گیا۔ اس خبر پر اعتراض بھی سامنے آ رہا ہے کہ ایسا ممکن ہے کہ کسی تاجک شخص کو ہزارہ قرار دے کر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہو کیونکہ ہزارہ اور تاجک قوموں کے چہروں کی ساخت کافی حد تک ایک جیسی ہوتی ہے لیکن طالبان جیسی تنظیم سے اتنا کمزور پروپیگنڈہ کرنے کی امید نہایت کم ہے۔

مولوی مہدی مجاہد کے بارے میں جو ابتدائی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ ابتدا سے ہی چوری چکاری اور غنڈہ گردی کا عادی مجرم تھا، جسے ایک قتل کے جرم میں تیرہ سال کی سزا بھی ہوئی لیکن اسے معاف کر دیا گیا اور وہ علاقہ چھوڑ کر کابل چلا گیا مگر کچھ عرصہ کے بعد واپس آتا ہے اور علاقے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرتا ہے اور پھر جلد ہی کوئلہ کی کان پر قبضہ کر لیتا ہے، جس کے دوران اس کے مقامی طالبان سے تعلقات بھی استوار ہو گئے یعنی اگر یہ کہا جائے کہ مولوی مہدی مجاہد کی طالبان میں شمولیت زیادہ سے زیادہ طاقتور بننا تھا تو غلط نہیں ہو گا لیکن طالبان اس کو بطور شیعہ کے ماڈل بنا کر کیوں پیش کر رہا ہے۔

یہ خبر اگر حقیقت پر مبنی ہے تو افغانستان کے حالات کے تناظر میں نہایت غیر معمولی تبدیلی ہے کیونکہ طالبان اوائل سے ہی شیعہ ہزارہ کے دشمن رہے ہیں اور نوے کی دہائی میں طالبان نے مزار شریف پر حملہ کر کے ہزارہ قوم کی بدترین نسل کشی کی تھی،جس میں ہزاروں افراد کا قتل عام کیا گیا جو افغانستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب سمجھا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہزارہ قوم کے سربراہ عبدالعلی ہزارہ کو مذاکرات کے بہانے بلا کر قتل بھی کر دیا گیا۔ اس کے بعد بھی وقتاً فوقتاً حملوں اور اغواء کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ طالبان کی پالیسی میں یہ بنیادی تبدیلی کس وجہ سے آئی یا اس کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں، فی الحال اس پر تبصرہ کرنا مشکل ہے لیکن اگر ہم چند کڑیوں کو ملائیں تو شاید ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔

طالبان اپنے قیام سے ہی پاکستان کے زیر اثر رہے ہیں اور پاکستان نے طالبان کو پڑوسی ملک میں ایک پراکسی کے طور پر جنگ زدہ ملک میں نہایت بہتر طریقے سے استعمال کیا اور چند سالوں میں ہی افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہو گئی لیکن کچھ عرصہ کے بعد ہی امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر دہشت گردی کے واقعہ نے پوری دنیا کو طالبان کی طرف متوجہ کر دیا۔ امریکہ کی ضد اور طالبان کی ہٹ دھرمی سے افغانستان ایک مرتبہ پھر عالمی طاقتوں کے مفادات کا نشانہ بن گیا۔ یہ وقت پاکستان کے لئے نہایت کڑا امتحان ثابت ہوا کیونکہ اس سے افغانستان پر حکومت کا نا صرف سپنا چکنا چور ہو گیا بلکہ وہ عالمی دباؤ کی وجہ سے طالبان کی اس طرح مدد نہیں کر پا رہے تھے جس طرح طالبان کو ان حالات میں مدد کی ضرورت تھی۔ طالبان اس بات سے قدرے نالاں تھے لیکن ان کے پاس پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طالبان سے وہ کام بھی کروائے جاتے جو ان کی نظر میں ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتے تھے لیکن طالبان ہر بات ماننے پر مجبور تھے۔

ملا عمر کی موت کے بعد طالبان کو اس بات کا شدت سے احساس ہونے لگا، جس کے بعد انہوں نے مزید حمایت حاصل کرنے کی طرف توجہ دی۔ اس کے لئے طالبان قیادت نے چین، روس اور ایران سے روابط کئے کیونکہ یہ سب ممالک افغانستان میں امریکی موجودگی کو اپنی سالمیت کے لئے خطرہ محسوس کرتے تھے۔ حیران کن طور پر تینوں ممالک نے طالبان سے تعاون کا یقین دلایا، اس میں سب سے زیادہ ایران کی اہمیت تھی کیونکہ ماضی میں طالبان اور ایران بدترین دشمن تھے اور طالبان نے 1998 میں مزار شریف میں قائم ایرانی قونصلیٹ پر دھاوا بول کر 11 (گیارہ) سفارت کاروں کو قتل کر دیا گیا تھا، جس پر ایران نے افغانستان پر چڑھائی کرنے کے لئے ہزاروں فوجی سرحد پر پہنچا دیئے تھے لیکن اس وقت جنرل قاسم سلیمانی کی ذاتی مداخلت پر فیصلہ واپس لے لیا گیا۔ ایران کا طالبان کی حمایت کو سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے کیونکہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے اور اس وقت ایران کے لئے طالبان سے زیادہ خطرناک دشمن امریکہ تھا جو اس کے عین عقب میں اپنے پنجے گاڑ رہا تھا، اس لئے طالبان کے روابط کو ایران نے مثبت لیا۔ اس کے بعد ایران طالبان دوستی مضبوط ہی ہوتی نظر آئی، طالبان اب بہتر پوزیشن میں آ چکے تھے کہ وہ اب مکمل طور پر پاکستان کے رحم و کرم پر نہیں تھے۔

ایران نے طالبان کو کافی حد تک مدد فراہم کی جس کا اظہار افغان حکومت بھی کرتی رہی ہے۔ افغانستان کے آرمی چیف نے 2017 میں ایران کی اس معاملے پر مذمت بھی کی جبکہ 2018 میں صوبہ فرح ہر طالبان کے سخت حملے کو ناکام بنانے کے بعد ایسے ثبوت ملے کہ جس سے ایران اسلحہ کی سپلائی میں ملوث نظر آیا بلکہ کچھ خبروں میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ہلاک شدہ طالبان کے ساتھ ایرانی شہریوں کی لاشیں بھی برآمد ہوئی ہیں، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ایرانی کمانڈوز تھے۔ اس سب کے باوجود افغان حکومت نے ایران کے بارے میں ہمیشہ محتاط رویہ اختیار کئے رکھا اور اس کی وجہ ایران سے افغانستان کے بہت سے مفادات جڑے ہونا ہیں۔ گزشتہ سال قطر میں امریکہ طالبان مذاکرات کے دوران بھی ایرانی وزیر خارجہ کے طالبان کے حق میں بیانات خبروں کی زینت بنے رہے،جس کی افغان حکومت نے سخت مذمت بھی کی۔

اب طالبان کی شیعہ ہزارہ اکثریتی علاقے میں شیعہ گورنر نامزد کرنا بھی اسی دوستی کی کڑی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ افغانستان میں گو کہ پشتون آبادی کی ایک بڑی تعداد موجود ہے اور طالبان کا اثر و رسوخ بھی اسی قوم میں زیادہ ہے لیکن پشتون آبادی افغانستان کا صرف پینتیس فیصد ہے، اس کے بعد بڑی آبادی تاجک ہے جو تیس فیصد ہے جبکہ ہزارہ بیس فیصد اور بقیہ آبادی ازبک اور دوسری قوموں پر مشتمل ہے۔ طالبان اگر امریکی معاہدے کے تحت سیاست میں شامل ہوتے ہیں تو انہیں حکومت بنانے کے لئے کسی دوسری قوم سے اتحاد بنانا ہو گا۔ تاجک قوم کے ساتھ طالبان کا اتحاد تقریباً ناممکنات میں شامل ہے کیونکہ وہ خود ایک بڑی قوم ہے اور وہ کبھی بھی طالبان یا پشتون قوم کے زیر اثر رہنا پسند نہیں کریں گے لہذا سیاست میں ہزارہ قوم کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے کیونکہ اس سے اتحاد کے بغیر حکومت بنانا قدرے مشکل نظر آتا ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ طالبان انتخابات کے لئے ہزارہ برادری کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

امریکہ کی واپسی کے بعد طالبان کے لئے سب سے بڑا چیلنج افغان حکومت سے زیادہ داعش ہو گا کیونکہ داعش نے مختصر عرصہ میں افغانستان میں کافی اثرورسوخ قائم کیا ہے اور اس وقت داعش کم و بیش پانچ صوبوں پر اپنی حکومت قائم کر چکی ہے جو کہ طالبان کے لئے حقیقی خطرہ کی گھنٹی ہے۔ طالبان کے بہت سے کمانڈر بھی بغاوت کر کے داعش میں داخل ہوئے ہیں۔ طالبان کے لئے اب سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ داعش کی شکل میں انہیں پشتون قوم میں چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ داعش کے بنیادی نظریات بھی وہی ہیں جو طالبان کے ہیں، اس لئے طالبان کا داعش میں شامل ہونا زیادہ مشکل عمل نہیں ہے۔دوسری طرف ہزارہ قوم بھی ماضی کے مقابلے میں زیادہ طاقتور نظر آ رہی ہے۔ افغان ہزارہ کے سینکڑوں نوجوان شام میں داعش کے خلاف جنگ لڑنے کا وسیع تجربہ حاصل کر چکے ہیں، جس سے ہزارہ قوم افغانستان میں شروع ہونے والی کسی بھی قسم کی محاذ آرائی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور طالبان کو داعش سے مقابلہ کرنے کے لئے بہرحال مزید مدد کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور اس کے ہزارہ قوم سے زیادہ بہتر آپشن نہیں ہے کیونکہ وہ پہلے ہی داعش کے مظالم کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ خطرہ پاکستان کے لئے بھی شدید ہوتا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان کے اکثریت سرحدی علاقوں کے ساتھ داعش کی حکومت ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ افغان علاقے میں کرم ایجنسی سے وزیرستان تک داعش کے زیر اثر ہیں۔

ہزارہ قوم کے لئے طالبان سے کہیں زیادہ بڑا دشمن داعش ہے جس نے سفاکی میں پوری دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ اب یہ بھی ممکن ہے کہ طالبان چاہتے ہوں کہ وہ داعش کے مشترکہ دشمنوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے کارروائی کریں لیکن اس میں بھی ایران کی رضا مندی کے بغیر کامیابی ناممکن ہے۔ اس لئے اس نامزدگی میں ایران کی آشیرباد لازمی ہو گی۔ یہ سب حالات دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ افغانستان میں پاکستان کے لئے حالات نوے کی دہائی جیسے آسان نہیں ہوں گے جب وہ طالبان کے اکلوتے سرپرست اعلیٰ تھے۔ اب کے افغانستان میں دوسرے اسٹیک ہولڈرز بھی میدان میں آ چکے ہیں گو کہ سب سے زیادہ اثر و رسوخ پھر بھی پاکستان کا ہی ہو گا جبکہ دوسرے نمبر پر ایران ہے جس کا ہزارہ اور تاجک قوموں میں اثر و رسوخ طویل عرصہ سے قائم ہے اور اب وہ طالبان میں اپنا اثرورسوخ بنانے میں بھی کامیاب ہو چکا ہے۔ امریکہ کے بعد کا افغانستان آج سے زیادہ محفوظ ہو گا یا زیادہ خونریز یہ وقت ہی بتائے گا مگر حالات میں غیر معمولی تبدیلیاں دیکھنے کو ضرور ملیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں