غیر سادات کیلئے زکوٰۃ، صدقات۔۔۔ سادات کیلئے کیا؟ (ساجد خان)

آج اتفاق سے کسی چینل کے ایک پروگرام جو کہ رمضان نشریات تھی، اس کے کچھ حصہ کی ویڈیو دیکھی جس میں میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اہلسنت کے عالم دین مفتی حنیف قریشی سے خمس کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اہلسنت کے تمام مکاتب فکر میں خمس دینے کا حکم ہے بلکہ خمس کے حوالے سے قرآن مجید میں آیت بھی موجود ہے۔

ان کے مطابق خمس کا مطلب پانچواں حصہ کے ہیں اور جنگوں میں حاصل کئے جانے والے مال غنیمت اور زمین سے نکلنے والے خزانے و ذخائر پر بھی خمس واجب ہے لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ علماء کرام نے اس معاملہ پر زیادہ توجہ نہیں دی۔

اس کے بعد انہوں نے کہا کہ غیر سادات کے لئے اسلام میں زکوٰۃ اور صدقات ہیں جبکہ خمس سادات کا حق ہوتا ہے کیونکہ سادات پر زکوٰۃ اور صدقات حرام ہے اور اگر ہم انہیں خمس بھی نا دیں تو مستحق اور مفلس سادات کہاں جائیں گے۔

اہل تشیع کے بارے میں اگر ہم بات کریں تو جس طرح زکوٰۃ دینا واجب ہے اسی طرح خمس بھی واجب ہے البتہ دوسرے مکاتب فکر سے ہٹ کر اس فقہ میں مال غنیمت اور زمینی ذخائر کے علاوہ سال بھر کے اخراجات سے جو آمدن بچ جاتی ہے اس میں سے بھی خمس نکالنے کا حکم ہے۔

مفتی حنیف قریشی کی اس بات میں تو وزن ہے کہ جب ہم غیر سادات کو زکوٰۃ اور صدقات دیتے ہیں تو پھر سادات کو نظرانداز کیسے کیا جا سکتا ہے جو نا ہی شریعت کے مطابق زکوٰۃ اور صدقات لے سکتے ہیں اور نا بھیک مانگ سکتے ہیں، پھر غریب سادات کیا کریں؟

مجھے نہیں معلوم کہ کسی خاص بغض یا لاپرواہی کی وجہ سے ایسا کیا گیا مگر مسلم امہ نے سادات کے حقوق کو چھپانے کا جرم کیا ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ انفال آیت 41 میں اللہ تعالیٰ نے خمس کا حکم دیا ہے۔ “اور یہ جان لو کہ تمہیں جس چیز سے بھی فائدہ حاصل ہو اس کا پانچواں حصہ اللہ، اسکے رسول، رسول کے قرابتدار، ایتام، مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے اگر تمہارا ایمان اللہ پر ہے اور اس نصرت پر ہے جو ہم نے اپنے بندے پر حق و باطل کے فیصلہ کے دن جب دو جماعتیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں نازل کی تھی۔”

یہ کہنا مشکل ہے کہ آیت کا دوسرا حصہ جس میں جنگ کا ذکر ہے وہ اسی آیت کا حصہ تھا یا بعد میں ترتیب بدلی گئی جس طرح بہت سی دوسری آیات میں مختلف آیت شامل کی گئی، جس سے آیت کا مفہوم کافی حد تک تبدیل ہو کر رہ گیا لیکن نبی کریم کے قربتدار، مساکین اور مسافروں کے لئے خمس کا حصہ ضرور ثابت ہے۔

اب یہاں پر شیعہ اور غیر شیعہ مکاتب فکر میں یہ اختلاف ہے کہ شیعہ عقائد کے مطابق اس آیت میں جن مساکین اور مسافروں وغیرہ کو خمس دینے کا ذکر کیا گیا ہے، وہ سادات ہی ہونے چاہئیں لیکن باقی مکاتب فکر کے مطابق یہ افراد ہر قسم کے امتی ہوں گے لیکن یہاں پھر سوال اٹھتا ہے کہ غیر سادات غرباء اور مساکین کے لئے اسلام میں پہلے ہی زکوٰۃ کا حکم دیا جا چکا ہے، پھر وہ خمس میں حصہ دار کیسے بن سکتے ہیں۔

آپ اگر اس آیت کے پہلے حصہ کو بغور دیکھیں تو اس میں ہر وہ چیز جس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے،اس میں خمس کا حکم ہے البتہ جو دوسرا حصہ ہے وہ پہلے حصہ سے مطابقت نہیں رکھتا، جس سے ان شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا ہے کہ یہ دونوں حصے الگ الگ نازل ہوئے تھے اور ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

اب ایک اور اعتراض کہ خمس صرف مال غنیمت پر واجب ہے تو اس میں بھی وزن نہیں ہے کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ یمن کے وفود نے نبی کریم کے پاس حاضر ہو کر خمس ادا کیا جبکہ یمن میں اسلام اور کفر کی کوئی جنگ نہیں ہوئی کہ مال غنیمت دیا جاتا بلکہ نبی کریم کے حکم پر حضرت علی علیہ السلام نے یمن میں تبلیغ کی، جس کے بعد بغیر جنگ ع جدل ہی تمام یمن نے اسلام قبول کر لیا۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اہلسنت کی کتب آل رسول و سادات کے حقوق سے بھری پڑی ہیں مگر حقیقی زندگی میں ان پر عمل نہیں کیا جاتا بلکہ ان حقوق کو چھپایا جاتا ہے اور اس اختلاف میں قرآن کے احکام کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ یہ ظلم کس نے کیا اور کون کر رہا ہے، یہ سوال جواب طلب ہے۔

مفتی حنیف قریشی نے سچ کہا کہ ہم قصور وار ہیں، ہم کس منہ سے نبی کریم کے سامنے پیش ہو کر ان سے محبت کا دعویٰ کریں گے جبکہ ہم نے ان کی آل کو نظرانداز کیا۔

اس معاملہ کو جہاں اہلسنت نے نظرانداز کیا وہیں اہل تشیع نے بھی سستی دکھائی کہ ایک کم تعداد ایسی ہے جو ہر سال باقاعدگی سے خمس نکال کر سادات کو ان کا حق دیتی ہے اور اگر صرف اہل تشیع ہی اس حکم پر صحیح سے عمل کرتے تو شاید ہی کوئی سادات ایسے ہوتے جو حق سے محروم رہتے۔

اس معاملہ پر اسلام کے سب مکاتب فکر نبی کریم کے سامنے شرمندہ نظر آئیں گے کیونکہ ہم نے محبت کے بس کھوکھلے نعروں تک خود کو محدود کر لیا ہے اور عملی طور پر ہم کوسوں دور ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں