اٹھارہویں ترمیم…! (انشال راٶ)

جب دنیا کو کرونا وبا اور ڈرامائی انداز میں جنم لینے والے عالمی تاریخ کے طاقتور ترین معاشی بحران کا سامنا ہے تو ایسے میں مختلف اقوام عالم باہمی اتحاد و اتفاق کے ریکارڈ توڑ رہی ہیں حتیٰ کہ افریقہ کے وہ پسماندہ ممالک بھی اس دوڑ میں پیچھے نہیں جو سالہا سال سے قحط زدہ چلے آرہے ہیں، خانہ جنگی سے تباہ حال افریقی ممالک میں مختلف قبائل اپنی سالوں کو دشمنیاں بھلا کر ایک قوم بن رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان دنیا کا انوکھا اور واحد خطہ بن کر سامنے آیا ہے جہاں اندرونی محاذ آرائی عروج پر رہی ہے جس سے ریاست کے اندر ریاست کا زوردار تاثر ابھر کر سامنے آرہا ہے جوکہ نہ صرف نظریہ پاکستان بلکہ حضور اقدسؐ کے احکام کی صریحاً تغلیط و تقضید کے مترادف ہے، قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ “پاکستان اس دن وجود میں آگیا تھا جس دن برصغیر میں پہلا فرد دائرہ اسلام میں داخل ہوا” اگر اس قول پر غور کیا جائے تو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ بابائے قوم نے پاکستان کو اسلام اور مسلمانوں سے تعبیر کیا اور اسلام میں سب سے زیادہ اجتماعیت پہ زور دیا گیا اور امیر و مامور کے اصولوں کے تحت جماعت بندی کی، لیکن اس کے برعکس پاکستان میں قانون و آئین کی چھتری تلے گروہی، علاقائی، لسانی و صوبائی تقسیم و صف بندی کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے جس کا عملی مظاہرہ کرونا بحران میں آئے روز دیکھنے کو مل رہا ہے ماہرین اس بگاڑ کی اہم وجہ اٹھارہویں ترمیم کو قرار دے رہے ہیں اور اب آکر ہر عام و خواص کی زبان پر یہ بات ہے کہ 18th Amendment اٹھارہویں ترمیم نے ریاست کے اندر ریاست کے تصور کو عملی و قانونی حیثیت بخشی ہے، ایک واٹس اپ گروپ میں امتیاز وطنوال، ڈاکٹر ندیم رضوی، شہزاد شیخ و دیگر دوست اس پر بات چیت کررہے تھے کہ اس ترمیم کے بعد ملک کے طول و عرض میں لسانی تفریق نے زور پکڑا ہے اور علیحدگی پسند گروہ اس کا فائدہ اٹھا کر مضبوط ہورہے ہیں جیسا کہ وفاق اور سندھ کی محاذآرائی کے نتیجے میں سندھی نیشنلزم کو ابھارا جارہا ہے اور پاکستان بمقابلہ سندھ کا عملی مظاہرہ سامنے آیا ہے نتیجتاً سندھی نیشنلزم کے گڑھے مردے میں سانسیں بحال ہورہی ہیں، کچھ دوستوں کے خیال میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد KPK میں بھی وفاق مخالف تحریکیں ابھر کر سامنے آئی ہیں، ڈاکٹر ندیم رضوی کے بقول صوبائی حکومتیں اٹھارہویں ترمیم کے بعد خود کفیل ہوگئی ہیں لیکن وہ فنڈز کو عوام پر خرچ کرنے میں ناکام رہی ہیں لیکن اپنی زمہ داری و ناکامی کا بوجھ وفاق کے سر دھر دیتی ہیں کہ وفاق تعاون نہیں کررہا جیسا کہ بلاول بھٹو نے BBC کو انٹرویو دیتے ہوے کہا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ملکی دولت و انتظامی کنٹرول صوبائی حکومت کے ماتحت ہے ایسے میں وفاق پر الزام تھونپنا عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے، وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ انہیں کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے تین سو ارب کا فنڈ رکھا ہے جس کا 170 ایک سو ستّر ارب ملازمین کی تنخواہ میں سے کٹوتی سے حاصل ہوگا لیکن وہ ایک سو ستر ارب روپے جوکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں سے کٹوتی کیے گئے کہاں لگائے ابھی تک ایسا کچھ سامنے نہیں آیا۔ دورہ لائلپور 1942 کے موقع پر قائداعظم نے کہا تھا کہ “ہمیں ایسا پاکستان نہیں چاہئے جہاں لوگوں کو بنیادی ضروریات میسّر نہ ہوں ہمیں نظریہ اسلام کی تعبیر معروضی حالات میں کرنا ہوگی” اور اسلام کے نظام حکومت و سیاست میں امیر کی اطاعت سب سے زیادہ لازم ہے اور یہی معاشرتی و شرعی تقاضا ہے لیکن اٹھارہویں ترمیم کے ہوتے ہوے امیر کی اطاعت کیونکر ہوسکتی ہے جب صوبے امیر کی اطاعت سے آزاد ہوں اور اپنے معاملات خود چلانے اپنے قوانین خود بنانے پر آزاد ہوں جس کا عملی مظاہرہ حال ہی میں وفاق و سندھ کی محاذآرائی میں دیکھنے میں آیا جو اب بھی جاری ہے، اٹھارہویں ترمیم کے نتیجے میں جنم لینے والی صورتحال نے آئین پاکستان پر شریعت کے منافی ہونے کے سوالات کھڑے کردئیے ہیں، شرعی حساب سے امیر کی خیرخواہی و اطاعت اور اجتماعیت لازم ہے اس ضمن میں آپؐ نے فرمایا کہ “اللہ تم سے تین باتوں سے راضی اور تین سے ناراض ہوتے ہیں، جن باتوں سے راضی ہوتے ہیں ان میں تم اس کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو، اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور اپنے سلطان کی خیرخواہی چاہو، جن باتوں سے ناراض ہوتے ہیں ان میں قیل و قال کرو، مال ضائع کرو اور غیرضروری سوالات کرو” ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ “جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی” ایک اور حدیث میں آقا رسول اقدسؐ نے فرمایا کہ “جماعت رحمت ہے اور تفرقہ عذاب ہے” اس کے علاوہ بہت سی احادیث اور قرآن میں اطاعت امیر و جماعت بندی پر زور دیا ہے لیکن اسلام کے قلعہ پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم شریعت کے سب سے اہم تقاضے کی تقضید کرکے رکھدی ہے، آئین کے آرٹیکل 227 کے مطابق اٹھارہویں ترمیم ازخود بےمعنی ہوکر رہ جاتی ہے لیکن اگر اس کے باوجود اس ترمیم کو آئین پاکستان کا حصہ تسلیم کیا جاتا رہا تو پھر کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ امر حقیقی ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے ہوتے ہوے پاکستان کا آئین اسلام کے عین منافی ہے، یہ ترمیم معاشی و معاشرتی حساب سے بھی نقصاندہ ثابت ہوئی ہے جس کے تحت ہر صوبے کی اپنی بادشاہت بلکہ بادشاہت سے بھی اونچی چیز قائم ہوگئی ہے جس کے بعد تمام شعبے خواہ زراعت ہو تعلیم یا صحت کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگیا ہے، اس ترمیم کے تحت صوبوں نے اختیارات میں تو ریاست سے بڑھ کر اضافہ کرلیا لیکن اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل نہ کیا گیا جس سے اس ترمیم کو لانے کا اصل مقصد ذاتی مفادات معلوم ہوتا ہے، یہ تو بتایا جاتا ہے کہ اس ترمیم کے بعد صوبوں کے سیاسی و مالی خودمختاری ملی اور مضبوط ہوے لیکن یہ کبھی نہیں بتایا جاتا کہ اس کے منفی اثرات پاکستان پر کیا پڑے، ایسے ایسے سقم ہیں جن کا ذکر اختصار کی وجہ سے اس قسط میں کرنے سے عاجز ہوں البتہ یہ بات سب کے سامنے ہے کہ یہ اس ترمیم ہی کا نتیجہ ہے کہ تاریخ عالم میں پہلی بار صوبہ بمقابلہ ملک کے نئے باب کا آغاز ہوچلا ہے اور ایمان اتحاد تنظیم کا درس درسی کتب تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں