آہ مر جو گیا مراد شاہ (ساجد خان)

اس سے پہلے کہ میں اپنی تحریر لکھوں، میں وضاحت کر دوں کہ یہاں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ ہمارے ایک دوست تھے، ان کے ساتھ جب بھی شکوہ شکایت کی جاتی تو وہ یہی جملہ کہا کرتے تھے۔

آہ مر جو گیا مراد شاہ۔

ایک دن ان سے پوچھا کہ مراد شاہ کون تھا اور ایسا کیوں کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مراد شاہ ملتان کی ایک بزرگ اور درد دل رکھنے والی شخصیت تھے،ان کے پاس جب کوئی فریادی یا ضرورت مند آتا تو وہ حتی الامکان کوشش کرتے کہ اس کی مدد کر سکے۔

جب مراد شاہ دنیا سے چلا گیا اور کسی کو ضرورت پیش آتی تو وہ ٹھنڈی سانس لے کر کہتا تھا آہ مر جو گیا مراد شاہ۔ پتا نہیں کیوں مجھے آج ایک ایسی ہی شخصیت کا خیال آ گیا۔ وہ شخصیت بھی مراد شاہ کی طرح درد دل رکھتی تھی، عوام کے حالات دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتی تھی۔ وہ شخصیت ہمیں بتایا کرتی تھی کہ تم پر ظلم ہو رہا ہے، یہ حکمران تمھیں لوٹ رہے ہیں، تم غربت کی زندگی گزار رہے ہو مگر جنہیں تم اپنی خدمت کے لئے اقتدار دیتے ہو وہ تمھارے پیسے پر عیاشیاں کرتے ہیں۔

ان کے بچے لندن میں مزے کی زندگی گزار رہے ہیں۔ پولیس جب ہم پر ظلم کرتی تھی تب وہ ہمیں برطانیہ کی پولیس کے قصے سناتا تھا، کتنا اچھا لگتا تھا وہ سب سننے میں۔ اس نے بتایا کہ ہمارے ادارے سالانہ کتنی کرپشن کرتے ہیں، کرپشن ہمارے ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اس نے ہمیں شعور دیا کہ تم غلام نہیں ہو،اللہ نے تمھیں آزاد پیدا کیا تھا،اس کی ان باتوں میں کتنی سچائی تھی اور اتنی مٹھاس کہ ہماری نوجوان نسل جھوم اٹھتی تھی۔ لوگ اپنے معصوم بچوں کو دیکھ کر امید کرتے تھے کہ میرا بچہ میری طرح زندگی کی تلخیاں نہیں برداشت کرے گا بلکہ وہ زندگی گزارے گا جیسے اللہ نے اسے پیدا کیا تھا،آ زاد۔

وہ شخص کہتا تھا کہ ریاست مدینہ ہونی چاہئے جہاں فرات کے کنارے کتا بھی بھوکا مرے تو حکمران ذمہ دار ہو تب غریب امید بھری نظروں سے اپنے بچوں کو دیکھتا تھا کہ اب اگر میں مر بھی گیا تو پرواہ نہیں کیونکہ میرے بچے ریاست مدینہ میں بھوکے نہیں مریں گے۔ وہ شخص کتنی بھلی باتیں کرتا تھا کہ ملک کو فلاحی ریاست بنانا چاہئے جس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولیات دے لیکن بدلے میں کم سے کم معاوضہ لے۔
جہاں ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری سنگین جرم ہوں اور ان مجرموں کے چور کی طرح ہاتھ کاٹے جائیں۔

یہ باتیں تو ہم خواب میں بھی سوچنے سے ڈرتے تھے کہ کہیں اس پر بھی مافیا ہمارے خلاف نا ہو جائے لیکن اب ہمارے خواب حقیقت میں بدلنے جا رہے تھے کیونکہ ہمیں مراد شاہ ملتانی جیسا ایک مسیحا مل گیا تھا جو کرپٹ حکمرانوں کی طرح صرف اپنے حالات نہیں سدھارے گا بلکہ مہاتیر محمد کی طرح قوم کے حالات بھی بدل دے گا۔ ہمیں قدرت نے قائد اعظم ثانی، ماؤزے تنگ، امام خمینی اور مہاتیر محمد کی خوبیاں ایک ہی شخصیت میں دے دی ہیں۔

نجانے ہمارا ملک کیسا ہو گا، اس کے بعد ہمیں جنت کی آرزو رہے گی بھی کہ نہیں بس یہی سوچ کر سب بے چین ہو جاتے کہ بس اب بہت ہو چکا، اب ہم اپنے ملک کو مزید تباہ ہوتا نہیں دیکھ سکتے،ہمارا بھی حق ہے کہ ہم اچھی زندگی گزاریں جہاں پولیس کو دیکھ کر اپنی تذلیل کا خوف نا ہو بلکہ تحفظ کا احساس ملے۔

غیر دیار میں دھکے کھاتے اور کفیل کی بدتمیزی سے تنگ پاکستانیوں کو شدید گرمی میں بھی اس کی باتیں سن کر ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا سا محسوس ہوتا تھا کہ اب ہمارے پاسپورٹ کی بھی عزت ہو گی۔ اب ہمارے سبز پاسپورٹ کو دیکھ کر ہمارے ساتھ ہتک آمیز رویہ نہیں اپنایا جائے گا۔ ہم وطن لوٹ کر اپنے بچوں کے ساتھ باعزت زندگی گزاریں گے جہاں اب دوسرے ممالک کے لوگ محنت مزدوری کرنے آئیں گے اور اب ہم ان کے کفیل ہوں گے۔

بالآخر قوم نے ہمت کر کے اس شخصیت کو اپنی تقدیر بدلنے کی ذمہ داری دے ہی دی،اس دیوار کو دھکا دے ہی دیا جس نے اشرافیہ اور عوام میں تقسیم پیدا کی ہوئی تھی لیکن تب سے سب اس شخصیت کو ڈھونڈ رہے ہیں کہ وہ کہاں گیا جس نے ہمیں شعور دیا۔جس نے ہم سے اچھی زندگی کے وعدے کئے تھے۔

ہمیں ایک آزاد ملک کے آزاد شہری ہونے کا احساس دیا مگر وہ کہیں بھی تو نہیں تھا بس اس سا ہم شکل تھا جس میں پرانے حکمرانوں کی روحیں سرایت کر گئی تھیں۔ یہ تو وہی زبان بول رہا ہے جو کرپٹ حکمران بولا کرتے تھے۔ جس شخص میں قائد اعظم اور ماؤزے تنگ کی روح تھی وہ تو کہیں غائب ہو گیا اور جو تخت نشین ہے وہ تو بس کٹھ پُتلی ہے جسے نا ہی وعدے یاد ہیں اور نا ہی غریب۔
ہمارے خواب بکھر گئے ہیں،غلامی کی زنجیریں توڑتے توڑتے ہم مزید جکڑے گئے ہیں۔

ہم آواز دیں بھی تو کس کو، مدد کے لئے پکاریں بھی تو کس کو سبھی تو ہمیں نوچنے والے ہیں۔ وہ نوجوان جو کل جھومتے نظر آتے تھے، آج سر جھکائے سوچوں میں گم نظر آتے ہیں شاید امید کے ٹوٹنے کی تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سب کے چہروں پر مایوسی عیاں ہے جن پر کبھی مسکراہٹ ہوا کرتی تھی۔

غریب نے ٹھنڈی آہ بھر کر بچوں کو دیکھ کر سوچا تمھارا مقدر ہے کہ تم بھی نسل در نسل غربت کی زندگی گزارو گے خواہ وہ ریاست مدینہ ہی کیوں نا ہو،تم اس کتے سے بھی کم تر ہو جس کے مرنے پر حاکم ذمہ دار ہوا کرتا تھا۔ میرے بچوں کسی پر یقین مت کرنا کیونکہ جب آس ٹوٹتی ہے تو زیادہ دکھ ہوتا ہے۔

حکمران کے بدلے روپ کو دیکھ کر بولا سچ کہا تھا، مولا علی علیہ السلام نے کہ کچھ لوگ اقتدار ملنے پر بدلتے نہیں ہیں بلکہ بینقاب ہوتے ہیں۔ آج سب حسرت بھری نظروں سے آسمان کی طرف دیکھ کر ایک ہی جملہ کہتے ہیں
آہ مر جو گیا کنٹینر والا عمران خان

اپنا تبصرہ بھیجیں