طیب اردگان، سیاست سے آمریت تک (ساجد خان)

طیب اردگان نے سیاست کا باقاعدہ آغاز نوے کی دہائی میں اس وقت کیا جب وہ 1994 میں استنبول کے میئر منتخب ہوئے، اس عہدے پر اچھے اقدامات کرنے کی وجہ سے طیب اردگان جلد ہی ملکی سیاست میں اپنا نام بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس دوران طیب اردگان نے استنبول کے انتہائی دیرینہ اور اہم مسائل کو حل کیا، جس میں پانی کی کمی کا بھی مسئلہ لاحق تھا۔ جس کے لئے سینکڑوں کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھائی گئی۔ صفائی کا مسئلہ حل کر کے استنبول کو خوبصورت شہر بنانے میں اہم کردار کیا، جس سے شہر میں ماحولیاتی آلودگی میں بھی قابل ذکر کمی آئی۔ استنبول میں ایک مسئلہ ٹریفک کا بھی تھا جس کے خاتمے کے لئے درجنوں پل اور نئی سڑکیں تعمیر کروائیں۔ کرپشن کے خلاف سخت ایکشن لیا جبکہ چار سال کی محدود مدت کے دوران میونسپل کارپوریشن کا دو ارب ڈالر کا قرضہ نا صرف ادا کیا بلکہ چار ارب ڈالر کما کر بھی دکھائے۔

یہ انقلابی اقدامات طیب اردگان کو قومی سیاست میں لانے کے لئے اہم اسباب بنے مگر اس دوران طیب اردگان کی ترکی کی سیکولر ازم کے خلاف کوششوں کے سبب انہیں جیل میں بھی جانا پڑا اور اسی وجہ سے ان پر کسی بھی سرکاری عہدہ حاصل کرنے پر بھی پابندی عائد رہی۔ جس پر انہیں میئر شپ سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔

1998 میں میئر شپ کے بعد 2001 میں انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ نئی سیاسی جماعت بنانے کا آغاز کیا اور اگلے برس ہونے والے انتخابات میں اپنی نئی جماعت کے ساتھ سیاسی میدان میں اترے۔ ان کی جماعت نے اپنے پہلے الیکشن میں ہی بھاری اکثریت سے فتح حاصل کی۔ ترکی کے قانون کے مطابق طیب اردگان پر کیونکہ کوئی بھی عہدہ حاصل کرنے پر پابندی تھی لہذا عبداللہ گل جو کہ ان کے دیرینہ ساتھی تھے، انہیں وزیراعظم منتخب کیا گیا اور جوں ہی 2003 میں پابندی ختم ہوئی طیب اردگان نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا جبکہ عبداللہ گل صدر منتخب ہو گئے۔

اس فتح کے بعد طیب اردگان نے کبھی ناکامی کا سامنا نہیں کیا اور مسلسل ہر الیکشن جیتتے آ رہے ہیں، 2007 اور 2011 کے الیکشن بھی ان کی جماعت نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس دوران طیب اردگان نے ترکی میں انقلابی ترقیاتی کام کئے، ترکی کی معیشت دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگی اور یوں ترکی کا شمار دنیا کی بیس بڑی معیشت میں ہونے لگ گیا۔

اسی طرح اردگان کے دور حکومت میں سیاحت میں بھی بڑی تیزی سے ترقی دیکھنے میں آئی اور ایک وقت پر ترکی دنیا کے دس بڑے سیاحتی ممالک میں شمار ہونے لگا جس سے تقریباً ساٹھ ارب ڈالر سالانہ سے زائد آمدن حاصل ہوتی ہے۔

اب اگر یہ کہا جائے کہ ترکی کی عوام نے طیب اردگان پر اعتماد کیا تو اس نے بھی اس اعتماد کا حق ادا کر کے دکھا دیا تو غلط نہیں ہو گا۔ طیب اردگان نے نہایت ہی مختصر وقت میں ترکی کو ترقی کی منزل پر پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ کرد قوم کے ساتھ عشروں سے جاری جنگ کو صلح میں تبدیل کرنے میں بھی اردگان کی ہی کاوشیں تھیں۔

فتوحات کا نشہ تھا یا اردگان کا مزاج کہ جوں جوں کامیابیاں ملتی گئیں اردگان میں آمریت کا عنصر نمایاں طور پر نظر آنے لگ گیا، اسے اختلاف سخت ناپسند تھا اور یہ اختلاف سیاسی ہو یا کچھ اور، اس پر کوئی معافی تصور نہیں کی جاتی تھی اور یہ نا پسندیدگی وقت کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتی چلی گئی۔ اس طبیعت کا سب سے پہلے شکار وہ دیرینہ ساتھی تھے جنہوں نے طیب اردگان کو سیاست میں متعارف کروایا یا اس مقام تک پہنچانے میں مدد کی۔

عبداللہ گل جس نے اردگان کو قومی سیاست میں لانے میں اہم کردار ادا کیا اور نئی سیاسی جماعت بنانے میں بھی کردار ادا کیا اور اسی جماعت کی طرف سے پہلے وزیراعظم اور پہلے صدر بھی منتخب ہوئے انہیں طیب اردگان نے جماعت میں دیوار سے لگانے کا آغاز کیا۔ عبداللہ گل نے حالات کو سمجھتے ہوئے خود ہی راستے الگ کر لئے اور خاموشی سے کنارہ کشی کر لی۔ اس کا دوسرا شکار اپنی ہی جماعت کے وزیر خارجہ تھے جنہیں اختلاف کی بنا پر کنارہ کشی اختیار کرنا پڑی۔

اس کے ساتھ ہی ترکی کے مشہور مذہبی اسکالر اور گولان موومنٹ کے سربراہ فتح اللہ گولان بنے جن کا ترکی میں نہایت اثرورسوخ تھا اور طیب اردگان کو سیاست میں کامیاب کروانے میں فتح اللہ گولان کی کاوشیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھیں لیکن جلد ہی اختلاف سامنے آنے لگ گیا، جس کے بعد فتح اللہ گولان خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرتے ہوئے امریکہ شفٹ ہو گئے لیکن طیب اردگان نے ان کی موومنٹ کو سیاسی عتاب کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔

اس دوران مشرق وسطیٰ میں عرب انقلاب کی تحریک شروع ہوتی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے پورے عرب خطے میں پھیلتی چلی گئی۔ اردگان نے اس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا اور اس کے لئے امریکہ اور عرب حکمرانوں کی سازش میں برابر کا شریک رہا۔

طیب اردگان واقعی میں خلافت عثمانیہ کی بحالی کا خواب دیکھ رہا تھا یا وہ اس کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی کوشش کر رہا تھا، یہ کہنا مشکل ہے لیکن اس نے خلافت عثمانیہ کے زیر اثر رہنے والے ممالک کو کمزور کرنے کی ضرور کوشش کی۔

ترکی کی سرحدیں دنیا بھر سے آنے والے دہشتگردوں کے لئے کھول دی گئیں اور یوں دو پڑوسی ممالک شام اور عراق میں بدترین دہشتگردی کا آغاز ہوا البتہ ترکی نے پاکستان جیسی سنگین غلطی نہیں کی کہ پورے ملک میں جہادی تربیتی کیمپ کھول دیئے اور نا ہی ترک قوم کے نوجوانوں کو اس جنگ میں استعمال کرنے کی کوشش کی، دنیا بھر سے آۓ دہشتگردوں کی تعداد ہی اتنی تھی کہ ترکی کو اپنی قوم کو استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی لیکن اس بات کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا گیا کہ پڑوسی ممالک کی تباہی کا اثر اگر ترکی پر براہ راست نہیں بھی پڑے گا تب بھی معیشت پر ضرور اثرانداز ہونا تھا کیونکہ کسی بھی ملک کی معیشت کا دارومدار اپنے ملک کے بعد سب سے زیادہ پڑوسی ممالک پر ہوتا ہے کیونکہ سب سے زیادہ مقامی برآمدات کے لئے بہترین اور آسان منڈی یہی ہوتے ہیں۔

ایران کی ان دونوں ممالک میں امداد نے عرب انقلاب کے پیچھے چھپے اصل مقاصد کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور اس دوران طیب اردگان نے سنی کارڈ کھیلنے کی کوشش کی اور شام کو خلافت عثمانیہ کا حصہ قرار دیتے ہوئے جلد ہی مسجد اموی میں نماز ادا کرنے کا اعلان کیا۔ دوسری طرف شامی پناہ گزینوں کو بھی خوش آمدید کیا مگر ساتھ میں ہی انہیں ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا اور جب بھی یورپی یونین کے ساتھ اختلاف ہوا، ہزاروں لاکھوں شامی پناہ گزینوں کو یورپ کی طرف دھکیل دیا گیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، جس کا ایک مظاہرہ آپ چند ماہ پہلے بھی ملاحظہ کر چکے ہیں۔ جس سے یورپی یونین جہاں اتنی بڑی تعداد میں پناہ گزینوں کو سنبھالنے کے لئے تیار نہیں تھا وہیں انہیں اس بات کا بھی احساس ہونا شروع ہوا کہ ان کے مفاد میں ہے کہ بشار الاسد کی حکومت قائم رہے تاکہ وہ پناہ گزینوں کے غول در غول سے محفوظ رہ سکیں لہذا انہوں نے شام میں باغیوں کی حمایت کرنا ترک کر دی۔

اس دوران طیب اردگان نے مسلم امہ کا عالمی لیڈر بننے کے بھی خواب دیکھنے شروع کر دیئے جو کہ ظاہر ہے عرب حکمرانوں کو ناگوار گزرنا تھا خصوصاً اخوان المسلمین کی حمایت سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو سخت خدشات تھے، جس پر عرب اتحاد کھل کر ترکی کی مخالفت کرتا نظر آ رہا ہے۔

لیبیا میں جاری خانہ جنگی میں دونوں فریقین آمنے سامنے آ چکے ہیں، ترکی وفاق حکومت کی حمایت کر رہا ہے جبکہ عرب اتحاد خلیفہ حفتر کے حق میں ہیں جہاں اب تک عرب اتحاد کا پلڑا بھاری نظر آ رہا ہے جبکہ ترکی کو کافی جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے گو کہ ترکی نے شام سے سینکڑوں باغیوں کو خلیفہ حفتر کے خلاف جنگ کرنے کے لئے لیبیا روانہ کیا ہے۔

دوسری طرف شام میں بھی اردگان کی مداخلت بدستور جاری ہے اور ادلب میں باغیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ترک فوج تعینات کی جا چکی ہے لیکن دیکھا جائے تو ترکی بیک وقت سب محاذوں پر ایک ساتھ توجہ نہیں دے سکتا۔

ترکی کی معیشت جو کبھی عروج پر تھی گزشتہ چند برسوں سے زوال کی جانب رواں دواں ہے۔ ترک کرنسی کی قدر بھی خطرناک حد تک گر چکی ہے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری بھی سست روی کا شکار ہے خصوصاً عرب اتحاد نے ترکی سے کافی حد تک سرمایہ کاری نکال لی ہے۔ سیاحت میں قدرے کمی آ چکی ہے اور اس کی ایک وجہ ترکی میں مارشل لاء کی کوشش تھی گو کہ اس سازش کی تفصیلات آج تک سامنے نہیں آ سکیں لیکن اس سازش کا واحد فائدہ طیب اردگان کو ہی ہوا ہے۔ چند درجن فوجی اہلکاروں کے بدلے میں اردگان نے لاکھوں افراد کو قید میں ڈالا یا سرکاری ملازمتوں سے فارغ کیا گیا، جس میں زیادہ تر افراد مخالف سیاسی جماعتوں کے ارکان تھے۔

انسان جب اس حد تک عروج دیکھتا ہے تو پھر زوال آنا بھی فطری عمل ہے اور اب ترکی کے حالات سے اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں کہ طیب اردگان کے زوال کا آغاز ہو چکا ہے۔

گزشتہ انتخابات میں طیب اردگان کو بہت سی سیاسی جماعتوں کے اتحاد کے ساتھ الیکشن لڑنا پڑا مگر اس کے باوجود بمشکل فتح حاصل کی جبکہ مخالف جماعت جو کہ اس سے قبل پندرہ سے بیس فیصد تک ہی ووٹ حاصل کر سکتی تھی، اس نے اکتالیس فیصد ووٹ حاصل کئے جبکہ گزشتہ سال ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں طیب اردگان کو تقریباً پچیس سال بعد پہلی مرتبہ شکست کا سامنا دیکھنا پڑا، جس میں استنبول اور انقرہ سمیت اکثر اہم شہروں میں طیب اردگان کی جماعت کو شکست ہوئی جس پر طیب اردگان نے الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال کر استنبول کے انتخابات میں تقریباً تیس ہزار ووٹ مشکوک قرار دلوا کر دوبارہ انتخابات منعقد کروائے لیکن ایک بار پھر اپوزیشن پہلے سے زیادہ ووٹوں سے فتح یاب ہو گئی جو کہ طیب اردگان کی سیاست کے لئے ایک بڑا دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔

طیب اردگان کی سیاست زوال کا شکار ہے اور یہ بات وہ خود بھی جان چکا ہے اور اگر طیب اردگان نے اپنے رویہ میں تبدیلی نا لائی تو شاید آئندہ کے جنرل انتخابات میں بھی اردگان کو شکست ہونا کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہو گی۔

طیب اردگان عالمی سطح پر بھی کافی حد تک تنہا رہ گیا ہے۔ عرب حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے نئی اسلامی تنظیم بنانے کی کوشش کی جس میں ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد نے ساتھ دیا مگر جلد ہی وہ وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو گئے جبکہ پاکستان کانفرنس سے پہلے لاتعلق ہو چکا تھا۔

شام میں بغض روس میں ترکی کو امریکہ کی حمایت حاصل ہے مگر فی الحال صرف الفاظ کی حد تک محدود ہے۔

طیب اردگان کی سیاست شاید ایک دن ختم ہو جائے لیکن اس نے خطے میں جو نا ختم ہونے والی تباہی کی بنیاد رکھی ہے، اس کی وجہ سے اسے ہمیشہ ضیاء الحق ثانی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں